1.  Home/
  2. Blog/
  3. Javed Ji/
  4. Aik Sarkari Mulazim Ki Adhuri Aap Beeti

Aik Sarkari Mulazim Ki Adhuri Aap Beeti

ایک سرکاری ملازم کی ادھوری آپ بیتی

میرا نام ارشد ہے اور میں ایک سرکاری ملازم ہوں۔ مجھے امید ہے آپ جانتے ہوں گے کہ سرکاری ملازم کون ہوتا ہے؟ اگر نہیں جانتے تو میں بتائے دیتا ہوں۔ ہمارے گھروں میں مائیں جب اپنے بچوں کو ترقی کی معراج کے بارے میں بتاتی ہیں تو وہ کہتی ہیں کہ میرا بیٹا پڑھ لکھ کر سرکاری ملازم بنے گا۔ معصوم ذہن یہ تصور کرنے سے تو قاصر ہوتے ہیں کہ سرکاری ملازم کس بلا کا نام ہے؟

لیکن بیٹے کو سرکاری ملازم بننے کی دعا دیتی ہوئی ماں کی آنکھوں کی چمک اور لہجے میں یقین کی لپک سے وہ اتنا ضرور سمجھ جاتے ہیں کہ ہو نہ ہو سرکاری ملازم بھی کوئی توپ چیز ہو گا۔ جس کی قابلیت کے آگے الہ دین کے چراغ کا جن بھی پانی بھرتا ہوا نظر آئے گا اور جس کی زنبیل سے بھی عمرو عیار کی طرح پلک جھپکتے ہی ہر مشکل کا حل نکل آتا ہو گا۔

ماؤں کی آنکھوں میں اُترنے والے خوابوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ بیٹوں کے لیے سامان وراثت بن جاتے ہیں۔ ایسی وراثت جس کا بوجھ بیٹوں کو ہر حال میں اٹھانا ہی پڑتا ہے۔ لیکن خوابوں کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ ان کی حقیقت، خوابوں کی طرح دلربا و دل کش نہیں ہوتی۔ سرکاری ملازم والے خواب کی حقیقت بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ یہ بتانا تو میں بھول ہی گیا کہ میں سرکار کی زبان میں ایک گزیٹڈ آفیسر ہوں تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ میں کوئی ایویں سا نہیں بلکہ اچھا خاصا سرکاری ملازم ہوں۔

کہانی آگے بڑھانے سے پہلے ایک بات کا البتہ میں اقرار کرنا چاہوں گا۔ گو کہ میں جانتا ہوں کہ یہ اقرار، اقرار بے لذت ہے۔ آپ نے ماننا تو ہے نہیں الٹا آپ لوگ زیر لب مسکرائیں گے، منہ ہی منہ میں بُڑ بُڑائیں گے اور ہو سکتا ہے کہ کوئی دل جلا ایک آدھ گالی سے بھی نواز دے مگر حقیقت یہ ہے کہ میں "ھٰذا من فضل ربی" سے محروم ہوں۔ "ھٰذا من فضل ربی" کو صاحبان راز کی زبان میں "اوپر والی کمائی" کہتے ہیں۔

اُمید ہے میرا اشارہ آپ بخوبی سمجھ گئے ہوں گے۔ اگر نہیں سمجھے تو میں معافی چاہتا ہوں کیونکہ اس سے زیادہ بتانے کی مجھ میں ہمت نہیں۔ اب آپ مجھے چاہے ڈرپوک کہیں یا بزدل، یا نالائق جیسے کسی طعنے سے میری پیشانی داغدار کرنے کی کوشش کریں۔ حقیقت یہ ہے کہ میری کُل کمائی فقط میری تنخواہ ہی ہے۔ جو سرکار سے مجھے ملتی ہے۔ خیر سے تنخواہ سننے میں خاصی معقول لگتی ہے۔

اب سے کچھ عرصہ پہلے تین بچوں اور والدین کے ساتھ اس تنخواہ میں با آسانی گزر بسر ہو جاتی تھی بلکہ میری بیوی کچھ نہ کچھ پس انداز کرنے میں بھی کامیاب ہو جاتی تھی۔ میرا شمار بھی جاننے والوں میں کسی حد تک خوشحال سرکاری ملازم کے طور پر ہوتا تھا۔ لیکن برا ہو بڑھتی ہوئی مہنگائی کا جس نے میرے سر سے خوشحالی کی چادر کب کی کھینچ لی اور مجھے تنگ دستی کی عریانی کے سپرد کر دیا۔ اب حال یہ ہے کہ موجودہ تنخواہ سے سر ڈھانپوں تو پاؤں ننگے ہوتے ہیں اور پاؤں ڈھانپوں تو سر برہنہ ہوتا ہے۔

اس برہنگی سے بچنے کے لئے میں بہت سی اشیاء جنہیں ہمارے حکومتی سیاست دان عیاشی کہتے ہیں ترک کر چکا ہوں۔ مثلاً میں نے سگریٹ چھوڑ دئیے ہیں۔ امسال کوئی نیا جوتا نہیں خریدا۔ عید، بکر عید پر نئے کپڑوں کے بغیر ہی گزارا کیا ہے۔ فروٹس جو تقریباً روزانہ خریدتا تھا اب ہفتے میں ایک دفعہ خریدتا ہوں۔ مٹن کا ذائقہ قریب قریب میں بھول چکا ہوں۔

میری بیٹی چاکلیٹ کی بہت شوقین ہے اُس کی مسلسل فرمائش سے میں زیادہ تنگ پڑ جاؤں تو کُچھ دیر کے لئے گھر سے باہر چلا جاتا ہوں کہ روز روز چاکلیٹ کہاں سے لاؤں؟ یہ تو ہو گئی بات اشیاۓ عیاشی کی، ضروریات زندگی کی مہنگائی کا ذکر کرنا اس لئے مناسب نہیں کہ ان کے بارے میں آپ کا اور میرا علم ایک جیسا ہے۔ میری مشکل یہ ہے کہ بہت سے مسئلوں کے بارے میں سمجھ نہیں پایا کہ یہ عیاشی میں شمار ہوتے ہیں یا ضروریات زندگی میں۔ اس سلسلے میں آپ کی رہنمائی درکار ہے۔

میرے بیٹے کے پاس ایک سائیکل ہے پرسوں اُس کا چین اُتر گیا اور لاکھ کوشش کے باوجود اپنی جگہ پر نہیں ٹکا۔ مکینک کا کہنا یہ تھا کہ مسئلہ چین کا نہیں بلکہ گراری سیٹ کا ہے۔ گراری سیٹ کی قیمت اور مکینک کی مزدوری، دونوں ملا کر اتنے روپے بن گئے کہ سائیکل دو دن سے خراب پڑی ہے اور میرا بیٹا حسیب، مسلسل میرے کان کھا رہا ہے کہ میری سائکل صحیح کروا دو۔

ایک پانچ سالہ بچے کو یہ سمجھانا کتنا مشکل ہے کہ اشیاۓ ضروریہ اس کی سایئکل سے کہیں زیادہ ضروری ہیں، یہ سمجھنے کے لئے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں۔ ابا کی ریٹائرمنٹ کے پیسوں سے ایک استعمال شدہ مہران کار لی تھی تاکہ کسی ایمرجنسی کی صورت میں فیملی کے ساتھ سفر کرنے میں آسانی ہو۔ ایک دن کسی اُچکے نے اس کی بیٹری نکال لی۔ دس دن بعد تنخواہ آنے پر نئی بیٹری لگوائی تو انکشاف ہوا کہ گاڑی کا جنریٹر کرنٹ پیدا کرنے سے قاصر ہے۔

وہ صحیح کروایا تو پتہ چلا کہ ایک جگہ سے اس کے پینل کو زنگ لگا ہوا ہے جو کام مکینک چھ ماہ پہلے دو ہزار میں کر رہا تھا اب اُس کے چار ہزار روپے مانگ رہا ہے، اوپر سے پیٹرول دن بدن مہنگا ہوتا جا رہا ہے۔ تنگ آ کر سوچنے پر مجبور ہوں کہ بلاوجہ کھڑے کھڑے خراب کرنے سے بہتر ہے کہ اسے بیچ دوں۔ سب سے چھوٹا بیٹا آٹھ ماہ کا ہے، یہ اُس کی پہلی گرمیاں ہیں ایک مرتبہ وہ گرمی کی وجہ سے بیمار ہو چکا ہے۔

ڈاکٹر کہتا ہے کہ اسے ٹھنڈی جگہ پر رکھیں۔ کمرہ ٹھنڈا کرنے کے لئے اے سی چلانا پڑتا ہے جس مہینے اے سی چلے اُس ماہ بجلی کا بل نا قابل یقین حد تک بڑھ جاتا ہے۔ لہٰذا بند اے سی ہمارا منہ چڑھاتا رہتا ہے۔ جی تو چاہ رہا ہے کہ اپنی بپتا مکمل کر کے ہی آپ لوگوں کی جان چھوڑوں مگر آپ بھی مہنگائی کے ستائے ہوئے ہیں۔ اس لئے اپنی آدھی ادھوری آپ بیتی پر ہی اکتفا کروں گا اور ایک آخری عرض داشت سنا کر آپ سے رخصت چاہوں گا۔

سنا ہے بجٹ میں سرکار پندرہ فیصد تنخواہ بڑھا رہی ہے بہت سے لوگ اس پر واویلا کر رہے ہیں کہ سرکاری ملازموں کی تنخواہ میں اتنا اضافہ۔ ان سب لوگوں کی خدمت میں دست بستہ عرض ہے کہ درست ہے کہ آپ سرکاری ملازم کا شمار خواص میں کرتے ہیں۔ اس کے باوجود کہ میں جانتا ہوں میری کہانی سُن کر آپ زیر لب مسکرائیں گے، منہ ہی منہ میں بُڑ بُڑائیں گے۔ ہو سکتا ہے کہ کوئی دل جلا ایک آد ھ گالی سے بھی نواز دے کہ آخر کو میں ایک سرکاری ملازم ہوں جس کا عوام سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اور آپ کے نزدیک جس پہ ہمہ وقت "ھٰذا من فضل ربی" کے تحت ہن برستا رہتا ہے۔

Check Also

Aaj Ki Raniyan Aur Ranaiyan

By Mirza Yasin Baig