Thursday, 26 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Javed Ayaz Khan
  4. Zindagi Ke Shajar Se Aik Shakh Aur Toot Gayi

Zindagi Ke Shajar Se Aik Shakh Aur Toot Gayi

زندگی کے شجر سے ایک شاخ اور ٹوٹ گئی

کہتے ہیں کہ موت برحق ہے آج نہیں تو کل سب نے باری باری اس مرحلے سے گزرنا ہے۔ حکایت ہستی کے دو ہی اہم واقعات ہیں پیدائش اور موت ہر آنے والی صبح اور ڈھلتی شا م ہمیں یہی خبر دیتی ہے کہ دنیا فانی ہے۔ لیکن چوہدری محمد صدیق محبتیں بانٹنے والا ایک ایسا خوبصورت دوست تھا جسے مرحوم کہتے ہوئے بھی کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ لیکن قدرت کے اپنے اصول اور قاعدے ہوتے ہیں جن سے کسی کو مفر نہیں اور بسا اوقات قدرت کے فیصلے انسان کو حیران کردیتے ہیں۔

کہتے ہیں کہ انسان ایک درخت کی مانند ہوتا ہے اور وہ اپنے تنے اور شاخوں کے سہارے مضبوط ہوتا ہے اور جب یہ شاخیں ایک ایک کرکے ٹوٹنے لگیں تو یہ درخت کمزور ہونا شروع ہوجاتا ہے اور اپنے اختتام سے قریب تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ یہی کچھ میری زندگی کے اس درخت کے ساتھ پچھلے دو سال سے ہوتا چلا آرہا ہے۔ دوستوں کی یہ شاخیں ایک ایک کرکے ٹوٹتی چلی جارہی ہیں۔

ارسطو نے کہا تھا کہ ہر نئی چیز اچھی معلوم ہوتی ہے لیکن دوستی جتنی پرانی ہوگی اتنی ہی عمدہ اور مضبوط ہوتی ہے۔ چوہدری تنویر، شیخ صبح صادق اور سیٹھ ارشد جیسے دوستوں کی جدائی کے بعد کل رات یہ خبر بڑی دردناک تھی کہ میرے ایک مخلص اور گداز دل رکھنے والے اور محبتیں بانٹنے اور سمیٹنے والے ہر دلعزیز دوست چوہدری محمد صدیق سابقہ چیف انجینیر واپڈا کیلی فورینا امریکہ میں واک کے دوران ایک ایکسیڈنٹ میں اللہ کو پیارے ہوگئے۔ انااللہ وانا علیہ راجعون۔

زندگی کے شجر سے ایک شاخ اور ٹوٹ گئی گویا میری تو کمر ہی ٹوٹ گئی ہے۔ آنے جانے کا یہ سلسلہ روز اول سے ہی جاری ہے لیکن ان ہی جانے والوں میں کچھ ہستیاں ایسی بھی ہوتی ہیں جن کے وداع سے آنکھیں اشک بار اوردل بےقرار ہوجاتا ہے۔ جن کے رخصت سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ خلا ٔ کبھی پر نہ ہوسکے گا جب وہ رخصت ہونے والا اپنا ہو، پرانہ ساتھی ہو جس کے ساتھ جانے کتنی یادیں وابستہ ہوں اور جس کی موت کا صدمہ موت جیسا تکلیف دہ ہو تو ظاہر ہے کہ ایسی متاسف کن خبر کے اثر کا ندازہ کیا جاسکتا ہے۔

میری پچاس سالہ طویل رفاقت کا یہ اچانک اختتام کسی بہت بڑے المناک صدمے سے کم نہیں ہے۔ لڑکپن، جوانی، اور پھر بڑھاپے میں بھی دوستی اور محبت کو نبھانے اور قائم رکھنے میں مجھ سے زیادہ ان کا اپنا کمال تھا۔ وہ رئٹائرمنٹ کے بعد تقریباََ امریکہ شفٹ ہو چکے تھے۔ لیکن ہر سال چند ماہ پاکستان گزارنے آتے تو دوستوں کی گویا عید ہو جاتی۔ اپنے قیام کے دوران ہر روز ملاقات اور اکھٹے مل بیٹھنے کا کوئی نہ کوئی بہانہ تلاش کرتے اور کئی مرتبہ ان کی جانب سے روائتی ناشتے کا اہتمام ہوتا۔ کئی مرتبہ بغیر اطلاع گھرپہنچ جاتے اور بلا تکلف چائے کی فرمائش کرتے۔

پچھلی مرتبہ تشریف لائے تو کہنے لگے یار جاوید مجھے اس مرتبہ ایک دفعہ اپنے سارے پرانے دوستوں اور کلاس فیلوز سے ملنا ہے لیکن آپ نے ہر جگہ اور ہر سفر میں میرے ساتھ چلنا ہے۔ ان کے قیام کے یہ چند ماہ کبھی شاہی والا، کبھی کنڈے والا پل، کبھی ان کے گھر کبھی دوستوں کے گھروں اور ڈیروں پر ملنے ملانے میں گزرے ہر تقریب کی تصاویر بھجواتے اور کہتے یہ سنبھال لو ہم پھر شاید اکھٹے نہ ہو سکیں۔ اس دروان ہم پرانے دوستوں سے ملے، کئی جگہ تعزیت کی کئی بیماروں کی عیادت کی، انہوں نے بہت سوں کی مالی مدد کی، پرانے دوست گل خان پٹھان کے ساتھ بیٹھ کر بلا تکلف پرانی یادیں دہرائیں۔

اس دوران چوہدری سلیم صاحب نے اپنے پاس جب فورسیزن ریسٹورنٹ میں دوستوں کو اکھٹا کیا تو کہنے گے جاوید مجھے یہ چہرے دیکھ کر بڑی خوشی ہوتی ہے ایسی خوشی بھلا دیار غیر میں کہاں نصیب ہوتی ہے۔ آج مجھے احساس ہوتا ہے کہ وہ پچھلی مرتبہ ہی ہمیں غیر محسوس طور پر الوداع کر گئے تھے۔ ان کی اس اچانک وفات نے ان کے سب چاہنے والوں کو غمزدہ کردیا ہے لیکن اجل کو کون کب روک سکا ہے۔ مجھے ان کے جانے سے قبل کی آخری دعوت یاد ہے اور چند دن قبل ان کا فون پر اس سال پھر آنے کی خبر بھی نہیں بھول پایا ہوں۔ ہر مرتبہ فون پر مجھے اپنی صحت کا خیال رکھنے کی تلقین کرنے والا ہمدرد اب اس دنیا میں نہیں رہا۔ وہ مجھے پیدل چلنے اور واک کرنے کی ترغیب دیتا ہوا خود اس دنیا سے چلا گیا۔

میں کیا کہوں کہ کیسی تھی وہ شام الوداع
میں دیکھتا رہا تھا۔۔ بلایا نہیں اسے

ہمارے اس طویل تعلق اور دوستی کے بےشمار وجوہات تھیں جو زمانہ طالبعلمی سے شروع ہوکر ان کی جدائی تک ہر صبح محبت بھرے پیغام تک جاری رہیں۔ ہم دونوں کے تعلق کی ایک وجہ ایک ہی علاقے سے وابستگی بھی تھی اور بزرگوں کے تعلقات بھی تھے۔ وہ ایک سلیف میڈ اور جدوجہد پر یقین رکھنے والے انسان تھے۔ وہ مجھے کبھی افسر نہیں لگتے تھے۔ لڑکپن کی وہی یہ بھی عجب حسن اتفاق ہے کہ میری جہاں جہاں ملازمت کے دوران تعیناتی ہوتی چوہدری صاحب وہان موجود ہوتے یا پھر آجاتے اور وہ چاہے۔

لیاقت پور سے بطور ایس ڈی او واپڈا سے لیکر چیف انجینیر واپڈا ملتان تک جہاں جہاں وہ رہے اتفاقاََ مجھے بھی وہاں بھیج دیا جاتا اور ان کا بہت سا وقت میرے پاس بینک میں ضرور گزرتا۔ رحیم یار خان ہو، بورے والا ہو، ملتان ہو یا پھر بہاولپور اور صادق آباد ہمارا ساتھ سلامت رہا۔ ہر دکھ سکھ میں شریک ہونے والا یہ دوست بہت عظیم تھا۔ ایک بچی کی شادی میں جب یہ کوئٹہ تعینات تھے میں شادی کارڈ نہ بھجوا سکا لیکن دیکھا تو چوہدری صاحب بمعہ بیگم تشریف لے آئے اور کہنے لگے تمہاری نالائقی کی وجہ سے میں اپنی بیٹی کی خوشی نہیں چھوڑ سکتا۔

دوستی کے ساتھ ساتھ گھریلو تعلق بھی نبھانا شاید ان پر ختم تھا۔ ہر مشکل گھڑی میں ان کا ساتھ مجھے حوصلہ دیتا تھا۔ وہ کہتے تھے کہ دوست کے ساتھ نمک کی طرح رہو جو کھانے میں دکھائی تو نہیں دیتا لیکن اگر نہ ہو تو اس کی کمی بہت محسوس ہوتی ہے۔ بےشک وہ ہمارے علاقے کے لیے نہ صرف ایک بہت بڑا فخر تھےبلکہ دوستوں کے ساتھ ساتھ علاقے کےعام لوگوں کے لیے بہت بڑی امید اور سہار ا سمجھے جاتے تھے۔

دل سے خیال دوست بھلایا نہ جائے گا
سینے میں داغ ہے کہ مٹایا نہ جائے گا

جب میں چوک عباسیہ کے گھر میں مقیم تھا تو ان کی بیگم صاحبہ کو ہمارے گھر کا پانی بہت پسند تھا۔ وہ جب اپنے گھر آتے تو پانی لینے کے بہانے گھنٹوں ملاقات رہتی۔ ان کی شخصیت کی سب سے بڑی خوبصورتی یہ تھی کہ جہاں جاتے دوستوں کی محفل خوب سجاتے ناصرف انہیں اکھٹا کرتے بلکہ انہیں ایسے ساتھ لیکر چلتے کہ کوئی دن مل بیٹھنے کے بغیر نہ گزرتا۔ اپنے محکمہ کے ہر دلعزیز افسر تھے اور دوران ملازمت سب کو ساتھ لیکر چلنے کی عادت نے انہیں مزید مقبول بنادیا تھا۔ ابھی تک ان کی موت کا یقین نہیں آرہا ان کی جدائی کاتصور بڑاذ یت ناک ہے۔

زندگی بھر کی رفاقتوں کے سائے دل ودماغ کو گھیرے میں لیے ہوئے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ وہ اب ہم میں نہیں رہے لیکن ان کی یادیں اور باتیں تازندگی ہمارے دلوں میں زندہ رہیں گی۔ وضع داری و خودداری کا پیکر، سادہ مزاج، شفقت و محبت کی علامت، تواضع وانکساری کے ساتھ اپنے تمام ملنے جلنے والوں میں ممتاز اور ان کا مسکراتا ہوا روشن چہرہ، بھولناممکن ہی نہیں ہے۔ جبکہ اہل خانہ کے لیے یہ سانحہ ناقابل برداشت ہے بےشک وہی ذات ہے جو ہمارے دلوں میں صبر ڈالتی ہے اور برداشت کی قوت عطا فرماتی ہے۔

ہوا ہے تجھ سے بچھڑنے کے بعد یہ معلوم
کہ تو نہیں تھا ترے ساتھ ایک دنیا تھی

میں غم کی اس سخت گھڑی میں تمام اہل خانہ اور دوستوں سے تعزیت کرتے ہوئے دعاگو ہوں کہ اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور اہل خانہ، دوستوں ساتھیوں اور اہل تعلق کو اس سانحے پر صبر جمیل عطا فرمائے آمین!

Check Also

Danish Ki Jeet, Bewaqoofi Ki Haar

By Asif Masood