Thursday, 26 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Javed Ayaz Khan
  4. Ye Hota Hai Mother Day, Maun Ka Aalmi Din

Ye Hota Hai Mother Day, Maun Ka Aalmi Din

یہ ہوتا ہے "مادر ڈے" ماوں کا دن

دیار غیر سے میرے ایک دوست نے مجھے کہا کہ چودہ مئی کو "مادر ڈے" یعنی ماوُں کا عالمی دن ہے۔ آپ لکھتے ہیں اس بارے میں بھی کچھ لکھیں تو میں سوچ رہا تھا کہ کیا لکھوں؟ ماں تو وہ نعمت خداوندی ہے۔ جس کا دنیا میں کوئی متبادل ہو ہی نہیں سکتا۔ ہماری زندگی میں پھولوں اور خوشبو کی محور اور ہماری کل کائنات ہماری ماں ہی تو ہوتی ہے۔

آج جو اپنے آپ کو دنیا کا ترقی یافتہ معاشرسمجھتے ہیں۔ وہ سال میں ایک مرتبہ "مادر ڈے" مناکر اپنی ماوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ جن کی مائیں دنیا میں نہیں ہیں وہ ان کی قبروں پر جاتے ہیں پھولوں کے گلدستے رکھتے ہیں دعائیں کرتے ہیں اور روائتی اگر بتی کی خوشبو نچھاور کرتے ہیں۔ جن کی مائیں زندہ ہیں وہ اولڈ ہوم میں اپنی ماوں سے ملاقات کرتے ہیں۔ تحائف اور پھول پیش کرتے ہیں۔ جہاں ماوں کو پورے سال اپنی اولاد دیکھنے اور ملنے کا انٹظار رہتا ہے۔

وہ سمجھتے ہیں کہ شاید انہوں نے اپنی ذمہ داری پوری کر لی ہے اور "مادر ڈے" منا کر ماوں کا حق ادا کر دیا ہے۔ لیکن ہمارے اسلام اور ہمارے پیغمبر نے تو ہمیں پوری زندگی، پورے سال، پورے ماہ، پورے ہفتے، پورے دن، ہر ہر گھنٹے، ہر ہر منٹ اور ہر ہر لمحے کو ماں اور باپ کے لیے وقف کرنے کا حکم دیا ہے خوش قسمت ہیں وہ جن کی مائیں زندہ ہیں۔ وہ دنیا کے آدھے تفکرات سے آزاد ہیں۔ گھروں میں ہمارا سب کچھ ہی ہماری ماں ہوتی ہے۔ ہمارے گھروں کا پورا ہی نظام ان کے گرد گھومتا ہے۔ ہمارے والدین ہمارے گھروں کے تا حیات سربراہ ہوتے ہیں۔ کیونکہ والدین کی خدمت اور ان سے محبت کے بغیر ہمار دین ہی ادھورا ہے۔ ان کے بغیر ایک لمحہ بھی جینے کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔

جب ہماری مائیں دنیا چھوڑتیں ہیں ہمیں دنیا کی کڑی دھوپ کا احساس ہوتا ہے۔ پھر تو وہ پوری زندگی ہمارے دلوں میں بس جاتی ہیں۔ زندگی کا کوئی لمحہ ان کی یاد سے خالی نہیں ہوتا۔ ان کی دعاوں کے ساےُ تلے جیتے ہیں اور انکی مغفرت کی دعائیں کرتے ہیں۔ لیکن پھر بھی ہم ان کا حق پوری طرح ادا نہیں کر پاتے۔ کہتے ہیں مائیں ہمیشہ زندہ رہتی ہیں۔ ہماری زندگی میں، ہمارے دل میں، ہمارے ذہنوں اور یادوں میں اس لیے ہمار ے ہاں ہر وقت "مادر ڈے" ہی ہوتا ہے۔ ہمارے ایک مسلمان نوجوان طوطا خان بگٹی نے چند سال قبل "مادر ڈے" منانے کی انوکھی روایت پیش کرکے ماوں سے محبت کی لازوال تاریخ رقم کردی ہے۔ شاید اس سے بہتر اور اچھا "مادر ڈے" کوئی اور منا یا جا سکا ہو؟

ڈیرہ بگٹی بلوچستان سے تعلق رکھنے والے نوجوان نے اپنی ماں کی جان بچانے کے لیے اپنا جگر عطیہ کر دیا۔ جس سے اسکی ماں کو تو نئی زندگی مل گئی لیکن بیٹا خود اپنی زندگی کی بازی ہارگیا۔ ماں کے پیروں تلے جنت ہوتی ہے اور جہاں ماں اپنے بچوں کے لیے ہر قربانی دینے کے لیے ہمہ وقت تیار ہوتی ہے۔ وہیں لائق اولاد بھی والدین کے لیے قربانی دینے سے دریغ نہیں کرتی۔ ڈیرہ بگٹی سے تعلق رکھنے والے اس نوجوان نے ثابت کردیا کہ آج بھی دنیا میں ماں کا حق ادا کرنے والے لوگ موجود ہیں۔

ڈاکٹرز کے مطابق 23 سالہ طوطا خان بگٹی کے جگر کی پیوند کاری تو کامیاب رہی۔ جس کے باعث اس کی ماں کو ایک نئی زندگی مل گئی۔ لیکن لیور ٹرانسپلانٹ کے خصوصی ہسپتال گھمبٹ سندھ میں اس آپریشن کے دوران طوطا خان کو کورونا کی بیماری لاحق ہوگئی۔ جو اس کی موت کی وجہ بن گئی۔ طوطا خان بگٹی کے بھائی عبدالغفور بگٹی نے نجی ویب سائٹ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 3 دن گزرنے کے باوجود ہم نے اپنی ماں کو بھائی کی موت کی خبر نہیں دی۔ ہم انہیں جھوٹی تسلیاں دیتے رہتے ہیں۔ کیوں کہ ہمیں طوطا خان نے خود ہی منع کیا تھا کہ ماں کو اس حوالے سے نہیں بتانا۔ انہوں نے کہا کہ ماں کے لیور ٹرانسپلانٹ (جگر کی پیوند کاری) کے لیے طوطا خان سب سے پہلے اپنا جگر دینے کے لیے تیار ہوا تھا۔ جو ہم میں سے سب سے چھوٹا بھائی تھا۔ ہمیں اپنے بھائی کے کھونے کا صدمہ تو ضرور ہے۔ لیکن اس بات پر فخر ہے کہ اس نے ماں کی جان بچانے کے لیے قربانی دی اور اپنی جان نچھاور کرکے ماں سے محبت کا حق ادا کر دیا ہے۔

دوسری ایک ایسی ہی مثال ماں کے اس جگر کے ٹکڑے کی بھی ہے جس نے اپنے جگر کا ٹکڑا ماں کو دے ڈالا اور محبت، ہمت حوصلے اور فرمانبرادی کی انوکھی داستان رقم کردی۔ سید توصیف شاہ وہ قابل فخر بیٹے ہیں جنہوں نے گھمبٹ کے انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں زير علاج اپنی ماں کی جان کو اپنے جگر کا عطیہ دے کر بچا لیا۔ اس حوالے سے اپنی ایک سوشل میڈیا کی سوشل پوسٹ کے ذریعے سید توصیف شاہ کا یہ کہنا تھا کہ جب میری والدہ کو ڈاکٹرز نے جگر کا کینسر تشخیص کیا تو ہمارے گھر کے سب لوگ بہت پریشان ہو گئےتھے۔ ماں سے محرومی کے تصور سے ہی ہماری جان جاتی تھی۔ ہم انہیں انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز گھمبٹ لے کر گئے۔ جہاں ڈاکٹروں کے مطابق ان کی جان بچانے کی واحد صورت جگر کو ٹرانسپلانٹ کرنا تھا۔

میرے لیے اس سے بہتر کچھ نہ تھا کہ میں اپنا ہی جگر دے کر اپنی ماں کی جان بچا لوں۔ اس کے لیے ہم نے گھمبٹ انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کا انتخاب کیا۔ جہاں کے عملے کی بہترین کوششوں اور دیکھ بھال کی بدولت میں اور میری والدہ پانچ مہینے تک زیر علاج رہنے کے بعد اب بالکل ٹھیک ہیں۔ اس حوالے سے ہم اللہ کا جتنا شکر ادا کریں کم ہے کہ ہماری ماں کا سایہ ہم پر موجود ہے۔ خدا کے فضل سے ہم دونوں ماں بیٹے اب بالکل تندرست ہیں۔ اس طرح کی قربانیوں اور محبتوں کی بےشمار داستانیں میری اور آپ کی نظر سے گزر چکی ہیں۔ جہاں اولاد نے نے اپنی ماوں کو اپنے گردے دے کر بھی ان کی جان بچائی ہے۔

دوسری جانب ایسی مثال بھی سامنے آئی ہے جہاں ایک بیٹے نے تو اپنی آنکھ عطیہ کرکے اپنی ماں کی آنکھوں کو روشن کر دیا ہے۔ یقیناََ ایثار اور قربانی کے یہ جذبے بھی ہمیں ان ماوں کی تربیت سے ہی ملتے ہیں۔ ماوں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے اس دنیا میں اس سے بہتر "مادر ڈے" منانے کا کوئی طریقہ نہ ہو! بے شک مائیں سب کی سانجھی ہی ہوتی ہیں۔ اس لیے "مادر ڈے" پر دنیا کی تمام ماوں کو میرا سلام ہو اور دعا ہے کہ ان کا سایہ ان کی اولاد پر سدا قائم رہے! اور ماوں کی محبت اور اولاد کی قربانی کے یہ سچے جذبے ہمیشہ سلامت رہیں آمین!

ماوں کا عالمی دن اس بات کا متقاضی ہے کہ ہمارا جذبہ صرف باتوں تک ہی نہیں ہونا چاہیے بلکہ عملی قربانی اور ایثار نظر بھی آنی چاہیے۔ مادر ڈے دراصل ماوں کی عظمت، شان اور خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے لیے کچھ بھی کرنے کے کے جذبے کی حوصلہ افزائی کا دن ہوتا ہے۔

Check Also

Safar e Hayat Ke 66 Baras, Qalam Mazdoori, Dost Aur Kitaben

By Haider Javed Syed