Tanhai Ka Dard Bhara Safar
تنہائی کا درد بھر اسفر
میرا کالم "سفاکیت کی انتہا" پڑھ کر میرے ایک قاری نے مجھے لکھا کہ جاوید بھائی! آپ کی تحریریں اور باتیں بڑی گہری ہوتی ہیں آپ ایک چھوٹے سے جملے میں بہت بڑی بات بڑی سادگی سے کر دیتے ہیں اور ہم کئی دن اسے سوچتے ہی رہتے ہیں۔ ان کی بات سن کر میں یہ سوچ رہا ہوں کہ کیا واقعی تحریریں اور باتیں اتنی گہری ہوتی ہیں؟ کیونکہ کہتے ہیں کہ گہری تو چوٹ ہوتی ہے۔ جو پتھر کو بھی لگ جاتی ہے اور درد کرتی رہتی ہے۔ گہرے تو روح پہ لگے زخم ہوتے ہیں جو دکھائی بھی نہیں دیتے اور کسی سے سلتے بھی نہیں۔
گہری تو خاموشی ہوتی ہے۔ جس کا چیختا ہوا شور کسی کو سنائی نہیں دیتا، گہری تو وہ درد کی رات ہوتی ہے۔ جس میں کوئی روشن ستارہ طلوع نہیں ہوتا۔ گہرے تو دل ہوتے ہیں جو ہر احساس کو اپنے اندر دفن کر لیتے ہیں۔ سب سے گہری تو تنہائی ہوتی ہے جو نہ تو دکھائی دیتی ہے اور نہ ہی محسوس ہوتی ہے۔
بھلا تحریریں اور ان میں لکھی باتیں کب گہری ہوتی ہیں۔ یہ تو سب کے سامنے نظر آتی ہیں۔ کہتے ہیں کہ انسان کبھی بھی لفظوں میں اتنا خود کفیل نہیں ہو سکتا کہ ان گہرے دکھوں کو اتنی شدت سے بیان کر سکے جتنی شدت سے وہ محسوس کرتا ہے۔ تحریر کو تو محسوس کیا جاسکتا ہے لیکن احساسات کو تحریر نہیں کیا جاسکتا۔
زخم دروازہ نہیں ہے کہ مقفل کر لیں
زخم ہر حال میں آغوش کشا رہتا ہے
چوٹ پھر چوٹ ہے پتھر کو بھی لگ سکتی ہے
درد دل میں کبھی تیرے بھی بتا ہوتا ہے
کہتے ہیں کہ دنیا کی مشکل ترین اور تھکا دینے والی آپ کی جنگ اپنے آپ سے ہوتی ہے۔ یہ تن تنہا لڑنی پڑتی ہے۔ طویل اور نہ ختم ہونے والی اس جنگ کا انجام بھی بےحد تکلیف دہ ہوتا ہے۔ ہر انسان کے اپنے اپنے پوشیدہ دکھ، زخم اور راز ہوتے ہیں جو دنیا نہیں جانتی ہے۔ وہ راز اور دکھ ہر کسی کو نہ دکھاے جاسکتے ہین اور نہ بتائے جاسکتے ہیں۔ یہ اس کی شخصیت پر پڑی وہ چادر ہوتی ہے جسے اوڑھ کر نہ وہ سر ننگا کر سکتا ہے اور نہ پیر ہی باہر نکال سکتا ہے اور اکثر اوقات ہم اسے بےحس انسان سمجھنے لگتے ہیں۔ جو سب سے زیادہ غمگین اور پریشان تو رہتا ہے لیکن مگر چہرے پر خوشی کے تاثرات سجائے زندہ رہتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ تنہائی کے خول سے باہر آئے اس کا دل چاہتا ہے کہ وہ پاگل ہو جائے اور اپنے پرائےسے بیگانہ بن جائے کبھی وہ بہت ہنسنا چاہتا ہے اور کبھی پھوٹ پھوٹ کر رونا چاہتا ہے مگر اسکی شخصیت پر چڑھا خول اسے یہ سب کرنے نہیں دیتا۔
اس کو پتہ ہے کہ وہ اپنے ساتھ برا کر رہا ہے لیکن خود کو بچانا بھی تو اسکے بس میں نہیں ہوتا۔ تنہائی کی یہ جنگ اس کی موت تک جاری رہتی ہے۔ یقیناََ وہ ایک بہت بڑا آدمی ہوتا ہے کیونکہ اپنے آپ سے لڑنے کی صلاحیت ہر ایک کو کب حاصل ہو سکتی ہے؟ ذہنی دباؤ اور پریشانی آج کی تیز رفتار زندگی میں بہت عام ہو چکی ہے۔ مایوسی، ماحول کی تنگی، یا ذہنی بیماری کی باعث اداسی یا پریشانی تنہائی کا احساس پیدا کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔ سماجی تنہائی کا سبب آج کل سوشل میڈیا کا زیادہ استعمال بھی سامنے آیا ہے۔ جو انسان کو حقیقی دنیا سے دور کر تا جارہا ہے۔ تنہائی میں اداسی اور پریشانی در آئے تو تو مسئلہ سنجیدہ ہو جاتا ہے۔ تنہائی ڈئپریشن کی بڑی وجہ بن سکتی ہے۔
چند سال قبل ہمارے ایک عزیز نے اچانک اپنی ہی گن سے خود کشی کر لی تھی میں اس نوجوان کو اس وقت سے جانتا تھا جب وہ نوجوان ٹین ایج لڑکا تھا۔ اپنے پورے خاندان میں یتیمی کے دکھ کے باوجود مجھے وہ روشنی کی واحد کرن نظر آتا تھا۔ کہتے ہیں کہ خاندان میں کوئی ایک شخص اس خاندان کا ایسا بخت ہوتا ہے جو اس خاندان کی ترقی اور بہتری کے لیے تاریخی کام کر جاتا ہے۔ چھوٹی سی عمر میں اس کی میچورٹی اور سنجیدگی نے جلد اسے اپنے بڑوں کی موجودگی ہی میں خاندان کا بڑا بنا دیا تھا۔ اسکی دلیرانہ اور قیادانہ صلاحیتوں نے چند دنوں میں ہی تمام تر ذمہ داریاں اپنے سر لے لیں اور پورے خاندان کو ساتھ لیکر چلنے کا عزم لیے یہ نوجوان جدوجہد کی تیز ترین رفتار سے آگے بڑھنے لگا۔
میرے سے رشتہ داری اور دوستی دونوں ہی وہ خوب نبھاتا تھا۔ ہر دکھ سکھ میں ساتھ کھڑا ہوتا تھا۔ اس نے ایک جانب اپنے گھروں کی تعمیر، معیار زندگی کی بلندی، زرعی زمینوں کی دیکھ بھال میں تیز ترین کارکردگی بہتر کی تو دوسری جانب اپنے کاروبار پر بےپناہ توجہ دیکر شہر میں صف اول کا کا بڑا کاروباری بن گیا۔ پورے خاندان کے مسائل اور مشکلات کا رخ اس کی جانب ہوگیا۔ وہ سب کی سنتا اور ان کی مدد کرکے اپنے خلوص و محبت سے گرویدہ کر لیتا تھا۔ پورے خاندان کی آنکھوں کا تارا بن گیا تھا۔ اس کا ہر فیصلہ سراہا جاتا اور مانا جاتا تھا۔
میں اسے کہتا تھا یار ذرا آہستہ چلو کہیں نظر نہ لگ جائے تو کہتا بھائی جان! وقت بہت کم ہے اور سفر بڑا لمبا ہے یہ پیدل چل کر نہیں دوڑ کرہی پورا کیا جاسکتا ہے۔ اس لیے میں دوڑ رہا ہوں۔ پھر چند ہی سالوں میں اس نے اپنے غریب خاندان کی کایا پلٹ دی۔ وہ اپنے پورے خاندان کے مسائل کا حل بن گیا۔ وہ سب کی تنہائیوں کا راز دار تھا لوگوں کی تنہائیوں کو دور کرتے کرتے خود تنہا ہوتا چلا گیا۔ وہ سب کا دوست اور ہمدرد و غمگسار تھا۔ سب اسے اپنا راز دار سمجھتے تھے۔ سب اسے اپنا مددگار سمجھتے تھے۔ ہررشتہ دار اسے غمگسار، ہر دوست اسے مخلص اور سب سے زیادہ محبت کرنے والا سمجھتا تھا۔ لیکن اس کا چھوٹا سا وجود اور دماغ ساری دنیا کے اتنے دکھ کیسے سنبھال سکتا تھا؟ شاید لوگوں کی تنہائیاں دور کرتے کرتے وہ خود بہت تنہا رہ گیا تھا۔
کہتے ہیں کہ زیادہ اچھا ہونا بھی غلط ہوتا ہے پتہ ہی نہیں چلتا کہ لوگ قدر کر رہے ہیں یا استعمال؟ اکثر اکیلے رہ جاتے ہیں وہ لوگ جو خود سے زیادہ دوسروں کی فکر کرتے ہیں۔ آخری مرتبہ چند سال اپنی خود کشی سے قبل ایک شادی میں ملاقات ہوئی اور وہ رات ہم نے ساتھ گزاری تو میں نے محسوس کیا کہ وہ کھویا کھویا اور چپ چپ سا ہے میں نے پوچھا تو کہنے لگا سفر کی تھکان ہے۔ گاڑی بھی بچہ چلا کر لایا ہے۔ پھر بھی تھکن بڑی ہے۔ پھر بھی ساری رات وہ دوسروں کی فکر کرتا نظر آیا۔ بائیس نومبر کی ایک صبح اسکی خودکشی کی خبر ملی تو یقین نہ آتا تھا کہ اسقدر مضبوط اعصاب کا شخص یوں خود کو گولی مار سکتا ہے؟
اس کے جنازے میں پورا شہر آمڈ آیا تھا۔ سب اسکی محبت اور تعلق کے دیوانے تھے مگر اس کا راز دار کوئی نہ تھا جو اس کی خود کشی کی وجہ بتا سکے؟ ہر شخص اس کی محبت اور خلوص کی تعریف کرتا تھا لیکن یہ بتانے سے قاصر تھا کہ اس نے خود اس کے لیے کیا کیا؟ خودکشی کو عام طور پر بزدلی گردانا جاتا ہے کیونکہ سمجھا یہی جاتا ہے کہ زندگی کا مقابلہ نہ کرسکنا ہی خود کشی ہوتی ہے لیکن میں بعض حالات میں اسے بہادری سمجھتا ہوں کیونکہ بہادر لوگ ہی اس وقت موت سے نہیں ڈرتے جب وہ موت کے مقصد کو زندگی سے بہتر سمجھنے لگتے ہیں۔ بعض اوقات بہت سے لوگوں کو زندہ رکھنے کے لیے مرنا پڑتا ہے۔ وہ تنہائی سے گھبرا گیا تھا زندگی سے بھاگنا چاہتا تھا کیونکہ تنہائی بے بسی کی وہ بند گلی ہے جہاں سے راستہ نہیں نکلتا۔ سب کی تنہائی دور کرنے والے کو کس نے تنہائی کی بند گلی میں ڈالا؟
شاید ہم سب اجتماعی طور پر اور پورا معاشرہ اس کے ذمہ دار ہیں؟ یہ سوال پورے معاشرے کا منہ چڑاتا رہے گا۔ تنہائی کی اذیت موت سے زیادہ ہوتی ہے۔ تنہائی تنہا ہونا نہیں بلکہ ایک ایسی کیفیت کا نام ہے جہاں بھرے ہجوم اور بھیڑ میں بھی آپ تنہا ہوتے ہیں۔ یہ اکیلا پن اور تنہائی کسی وبائی مرض کی طرح پھیل رہی ہے۔ یہ ایک معاشرتی المیہ ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہماری مدد کی جائے ہماری تنہائی دور کی جائے، ہمارے دکھ بانٹے جائیں لیکن خود کسی کی تنہائی کے ساتھی بننے کو تیار نہیں ہوتے۔
وہ اپنی ذات کی جس بلندی پر پہنچ چکا تھا وہاں سے واپسی مشکل تھی وہ قطرے سے سمندر تو بن گیا مگر اس نے سمندر سے دریا بننا قبول نہ کیا۔ وہ بےشک ایک عظیم سوچ رکھنے والا انسان تھا جسے تنہائی کے سانپ نے ڈس لیا۔ یاد رہے کہ اگر آپ ا پنا درد محسوس کرتے ہیں تو آپ زندہ ہیں لیکن اگر آپ دوسروں کے درد کو محسوس کرتے ہیں تو آپ انسان ہیں۔ بےشک وہ ایک اچھا انسان تھا۔ اس نے تھوڑی سی زندگی میں لوگوں کے دکھ درد تو بانٹ لیے مگر اپنے دکھ اور تنہائی کے بوجھ کو نہ سنبھال سکا۔
فصیل جسم پہ تازہ لہو کے چھینٹے ہیں
حدود وقت سے آگے نکل گیا ہے کوئی