1.  Home
  2. Blog
  3. Javed Ayaz Khan
  4. Sutlej Ka Noha

Sutlej Ka Noha

ستلج کا نوحہ

میری اور دریائے ستلج کی دوستی کو نصف صدی سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے۔ ہماری دوستی کا آغاز میرے بچپن اور دریائے ستلج کی جوانی کے دنوں میں ہوا تھا جب نوجوان ستلج کی روانیاں اور لہریں اپنے عروج پر ہوتی تھیں اور میں ایک چھوٹا سا بچہ پانی کے خوف سے اس کے قریب جانے سے ڈرتا تھا۔ لیکن مجھے ستلج کی محبت بھری پکار اپنی جانب کھنچتی چلی گئی، اس کے پانی کو پہلی مرتبہ چھوا تو اسکے جادو نے مجھے اپنے سحر میں جکڑ لیا اسے چھونے سے اس میں نہانے تک کا سفر دنوں میں طے ہوا پھر دوستوں کے ہمراہ اس کے کنارے"ساونی" یعنی پکنک منانا اور اسکے پانیوں میں کشتیوں اور ہوا بھری ٹیوبوں میں تیرنا زندگی کی خوشگوار یادوں کا حصہ بن گیا، یہ بہاولپور کے شہریوں کے لیے بہترین تفریح گاہ ہوا کرتا تھا۔ مجھے اپنے اس مہربان دوست کی خاموش سرگوشیاں سننا اور سمجھنا خوب آتا تھا۔

اسی لیے میرے لیے اس دریا سے محبت اور دوستی کا اعزاز ہمیشہ قابل فخر رہا میں اس کے کنارے بیٹھ کر اس کی لہروں اور موجوں سے بڑی دیر تک باتیں کرنا بہت اچھا لگتا تھا وہ اپنے ماضی کے قصے سناتا تھا اور بتاتا تھا کہ کبھی مجھ میں بحری جہاز چلا کرتے تھے میں یہاں کے لوگوں کو سفری اور نقل وحمل کی سہولیات مہیا کیا کرتا تھا اور یہ جو آج تمہاری زراعت کی خوشحالی ہے یہ میری ہی بدولت ہو پائی ہے۔ وہ مجھے بتاتا تھا کہ اسے اس دھرتی سے کتنی محبت ہے اور کتنے ہی شہروں کے مکینوں کی زندگیاں اس سے وابستہ ہیں وہ کہاں سے چلتا ہے اور ہزاروں میل سفر کرکے لوگوں پر اپنی محبتیں بکھیرتا کیسے دریائےُ سندھ کا حصہ بن کر سمندر میں جاگرتا ہے۔ بہاولپور شہر سے اپنی محبت اور عشق کی طویل داستان سناتے سناتے ایک دن اس کا پانی ایک حکومتی معاہدے سندھ طاس کے تحت رفتہ رفتہ بند ہونے لگا اسکے کنارے آباد لوگ سے اسکی محبت دم توڑنے لگی اور پانی کی جگہ اُڑتی ہوئی خشک ریت نے لے لی نا جانے اس ریت تلے ہمارے جیسے دوستوں کتنے ہی دوستوں کی محبتیں دفن ہو کر رہ گیئں۔

لیکن پھر بھی کبھی کبھار جب اس کی محبت جاگتی ہے اور یہ اس دھرتی سے اظہار محبت کرنا چاہتی ہے تو یہ سیلاب کی صورت اپنی پرانی گزر گاہ سے گلے لگ جاتا ہے اور اپنے ریت تلے دبی محبتوں کو باہر نکال کر ماضی کا احساس جگا جاتا ہے اور لوگ اس دریا کا پانی دیکھنے جوق در جوق دریا کے کناروں پر اس کے استقبال اور اسکے پانی کی ایک جھلک دیکھنے کو پہنچ جاتے ہیں اور اس کے پانی میں پھولوں کی پتیاں نچھاور کرکے اپنی بے پناہ محبت کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔ دریائے ستلج اپنی موجودگی کا احساس دلا کر پھر روٹھ جاتا ہے اور پھر پورے سال پانی کی جگہ ریت اُڑتی نظر آتی ہے یا پھر ریلوے کا قدیم اور خوبصورت پل خاص طور رات کو اپنی رنگ برنگ روشنیوں کی آب وتاب سے لوگوں کی توجہ کا مرکز بن جاتا ہے۔ ستلج کے ان پلوں سے گزرنے والا ہر شخص دریا کی ویرانی کا دکھ محسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔

اس دریا کے ہم جیسے پرانے دوست اور محبت کرنے والے یہاں سے آنسو بہاے بغیر نہیں گزر پاتے۔ آج اس دریا کی گزر گاہ کے ارد گرد بےشمار ریسٹورنٹ اور ڈھابے کھل چکے لوگ بغیر پانی کے اس سوکھے دریا پر کھڑے ہو کر چشم تصور میں اس کے پانی کی ٹھنڈک اور خوشگوار ہوائیں اب بھی محسوس کرتے ہیں اور اس امید اور خوش فہمی کا شکار ہیں کہ ایک دن یہ دریا پھر پوری آب وتاب سے بہنے لگے گا۔ دریا کی محرومی کا دکھ اپنی جگہ لیکن اس کی بندش سے پیدا ہونے والے مسائل اور مشکلات بھی کچھ کم توجہ طلب نہیں ہیں جن کے بارے میں بہاولپور کے اردو اور سرائیکی شاعر، ادیب، صحافی اور دانشور دریائے ستلج کی محرومی کے دکھ اور راے کا اظہار بڑے دکھ اور حسرت سے کرتے ہیں، جو سب آج ہمارے ادب کا حصہ بن چکا ہے۔ آج ہم اس دریا کے ماضی اور تاریخ سے ہٹ کر اسکے کنارے آباد لوگوں کی موجودہ مشکلات کا ذکر کرتے ہیں۔

یہ حقیقت ہےکہ شہروں کی زندگیوں کا دارومدار ہمیشہ پینے کے پانی پر منحصر ہوتا ہے دریا کسی بھی جگہ یا علاقے کی تہذیب اور معیشت کی روح رواں اور میٹھے پانی کے سر چشمے ہوتے ہیں شہروں کی رونقیں ان کے دم سے ہوتی ہیں اسی لیے دنیا میں اکثر آبادیاں ہمیشہ دریاوں کے کنارے بسائی جاتی تھیں ان کا پانی سرسبز درختوں اور پودوں کے ساتھ ساتھ چرند وپرند کی بقا کا ضامن ہوتا ہے جو علاقائی ماحول کو تر وتازہ رکھنے کا باعث ہوتا ہے۔

دریائے ستلج کی مستقل بندش سے اس کے کناروں پر آباد بہت سے شہروں اور قصبوں کی زراعت کے متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ یہاں کا زیر زمین پانی رفتہ رفتہ نہ صرف نیچا ہوتا چلا جارہا ہے بلکہ زہریلا ہونے کی وجہ سے پینے کے قابل نہیں رہا ان شہروں میں سب سے بڑی آبادی بہاولپور شہر کی شمار کی جاتی ہے جو شدید گرمی کی لپیٹ میں ہے اور جہاں کے غیر معیاری پانی کے استعمال سے لوگوں کو مختلف بیماریوں نے گھیر لیا ہے۔

ایک تجزیے کے مطابق زیر زمین پانی میں سنکھیا اور دوسرے زہریلے مادوں کی مقدار میں اضافہ پریشان کن ہے۔ جو گردوں کے امراض میں بے پناہ اضافے کا باعث بن چکا ہے۔ لوگ پینے کا پانی مختلف منرل واٹر کمپنیوں سے مہنگے داموں خرید کر پینے پر مجبور ہو چکے ہیں جو اس مہنگائی کے بحران کو مزید بڑھا رہا ہے۔ بہاولپور کو اگر پینے کا صاف پانی میسر نہیں آتا تو موجود ہ شدید ترین ماحولیاتی تبدیلیوں اور دریائی پانی کی نایابی یا کم یابی سے کسی بھی بڑی وبا کی وجہ سے کوئی بھی انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے۔ بہاولپور شہر کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی اور ماحولیاتی تبدیلوں سے پیدا ہونے والی خشک سالی یہاں کی معاشی بدحالی میں اضافہ کر رہی ہے اور پینے کے پانی کی بڑھتی طلب کو پورا کرنے کا کوئی منصوبہ نظر نہیں آتا۔

دوسری جانب مضافات کے باغات اور درخت کاٹ کاٹ کر رہائشی کالونیوں کا قیام فضائی آلودگی کی وجہ بن رہا ہے جو درختوں میں اضافے کی بجاے کمی کا باعث ہے۔ سوال یہ دریا ستلج کی بندش سے پیدا ہونے والی کمی کو کیسے پورا کیا جاے؟ اور اس کمی سے واقع ہونے والے نقصان سے کیسے بچا جاے؟ ہمیں انفرادی، اجتماعی اور حکومتی سطح پر فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ انفرادی اور اجتماعی طور موجود پانی کے ذخائر کا غیر ضروری استعمال روکنا ہوگا۔ شجر کاری میں اضافے کے ساتھ ساتھ پرانے درختوں کی حفاظت کرکے ہی ہم ماحولیات کو بہتر کر سکتے ہیں جو زیادہ بارش کا سبب بن کر زیر زمین پانی کا لیول بلند کر سکتا ہے اور پینے کا پانی زہریلے مادوں سے پاک کرکے صحت مند بنا سکتا ہے۔

حکومتی سطح پر کسی بھی نزدیکی دریا خاص طورپر تریموں ہیڈ ورکس سے ایک اور لنک کینال کی تعمیر سے دریائے ستلج میں پانی فراہم کیا جاسکتا ہے تاکہ پانی کی ضرورت پوری کرنے کے ساتھ ساتھ یہاں کی رونقیں بحال کی جا سکیں۔ نواز شریف کے دور حکومت میں دریائے ستلج پر ایک جھیل اور خوبصوت تفریحی پارک کا منصوبہ منظور ہوا تھا جو آج تک صرف ایک خواب ہے اسے مکمل کرنے کے لیے ارباب اقدار کو گنجائش نکالنی پڑے گی شہر موجود نا کافی فلٹریشن پلانٹ اور واٹر سپلائی کے لیے پانی کی ٹینکیاں شہر کی ضروریات پوری نہیں کر پا رہے ان کی تعداد میں اضافے کے ساتھ ان کی صفائی اور مرمت کی اشد ضرورت ہے۔ واٹر سپلائی کے پرانے پائپ تبدیلی یا صفائی و مرمت کے طلبگار ہیں اور فوری توجہ چاہتے ہیں۔ اس سے دریا ستلج کی کمی تو دور نہیں کی جاسکتی لیکن اس کے کنارے آباد لوگوں کے مسائل میں کمی اور بہتری ضرور لا ئی جاسکتی ہے۔

Check Also

Doctor Asim Allah Bakhsh

By Amir Khakwani