Safakiat Ki Inteha
سفاکیت کی انتہا
آج یہ بظاہر چھوٹی مگر ایک بہت دردناک خبر پڑھ کر اور ٹی وی پر دیکھ کر پورے جسم میں ایک سنسنی سی دوڑ گئی۔ خبر کے ساتھ ملزمان کی پولیس کی تحویل کی ایک تصویر دیکھی ملزمان کے پڑھے لکھے دکھائی دینے پر مزید تکلیف ہوئی خبر کچھ یوں تھی۔ "شیخوپورہ، میں سفاکیت کی انتہا۔ خالہ زاد بھائی کو مار کر انگوٹھا کاٹ کر اپنے پاس رکھ لیا۔ خالہ زاد بھائی نے پیسوں کے لالچ میں اپنے دوستوں کےساتھ مل کر اپنے بھائی کا قتل کیا اور اس کا انگوٹھا کاٹ کر اپنے پاس رکھ لیا تاکہ اس کے اکاؤنٹ سے مزید رقم نکالی جا سکے۔
ترجمان پولیس تھانہ ہاوسنگ کالونی پولیس کو مشکوک کار کی تلاشی پر بوری بند نوجوان شخص کی نعش ملی۔ اس نوجوان کو بذریعہ فائر قتل کیا گیا اور ایک ہاتھ کا انگوٹھا بھی کٹا ہوا تھا۔ یہ بھی انکشاف ہوا کہ ملزمان نے مقتول کا انگوٹھا کاٹ کر 10 لاکھ روپے بذریعہ اے ٹی ایم بھی نکلوا لیے۔ ترجمان پولیس کے مطابق باقی رقم نکلوانے کے لیے مقتول کا انگوٹھا کاٹ کر اپنے پاس محفوظ رکھا ہوا تھا۔
مقتول یسین کی ڈیڈ باڈی کار کی ڈگی میں رکھ کر نہر میں پھنکنی تھی۔ لیکن بدقسمتی سے وہ ایسا کرنے سے قبل ہی پولیس کے ہاتھ آگئے۔ سب سے دلخراش یہ بات سامنے آئی ہے کہ مقتول والدین کا اکلوتا بیٹا تھا۔ "یقینا" یہ گرفتار افراد اپنے انجام کو ضرور پہنچیں گے مگر وہ بد نصیب یٰسین جو اپنی ماں کا اکلوتا لخت جگر تھا وہ تو اپنی جان سے گیا۔ ہمارا معاشرہ اس قدر سنگدل ہوگیا ہے کہ آئے دن ایسی خبریں ملتی ہیں جہاں بیٹے اپنے والدین اور بہن بھائیوں کو صرف پیسے یا جائداد کے لیے تشدد کا نشانہ بناتے ہیں اور بعض اوقات تو ان کی جان بھی لے لیتے ہیں۔ معاشرے کا یہ سیاہ چہرہ عام دکھائی دینے لگا ہے۔
گذشتہ دنوں لاہور کے علاقے گلبرگ میں پیسوں کے لالچ میں دوستوں نے مل کر اپنے دوست اغوا کرکے اس کو گولیاں مار کر قتل کردیا اور بعد میں نوجوان کی لاش نہر میں پھینک دی۔ پشاور میں پاکستانی نژاد برطانوی شہری کے قتل میں بھی قریبی عزیز ملوث پائے گئے۔ دولت کے لالچ کا یہ بھیانک کھیل آئے دن لوگوں کی جان لینے کے در پے ہے۔ عام خیال یہ ہے کہ اس طرح کے سفاکانہ واقعات میں تشویش ناک حد تک اضافہ بےپناہ بےروزگاری اور انٹرنیٹ کے منفی استعمال کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ دو دھائی قبل تک چوری، فراڈ، دھوکہ دہی ہوا کرتی تھی لیکن کسی کی جان سے کھیلنا مقصود نہ ہوتا تھا۔
یہ خبر پڑھ کر مجھے ایک اور واقعہ کی خبر یاد آگئی جب ایک شخص کو مردہ باپ کا انگھوٹھا لگا کر جائداد ہتھیانے کی خبر کے ساتھ ہی اس کی خبر اور تصویر بھی شائع ہوئی تھی۔ ہم اپنے اپنے لالچ میں اخلاقی طور پر اسقدر پست ہوچکے ہیں کہ انسانیت کی تذلیل کرنے سے بھی نہیں چوکتے اور سفاکیت اور بےحسی کی اس نہج پر پہنچ چکے ہیں جہاں احساس، رحم، محبت اور آپس کے سب رشتے دم توڑ چکے ہیں۔ کسی انسانی جان کی قیمت چند لاکھ روپے ہو کر رہ گئی ہے اور خونی رشتے اپنی موت آپ مرچکے ہیں۔
ایسے واقعات عموماََ اخبارات اور میڈیا پر اکثر دیکھنے میں آتے ہیں اور لوگوں کی بےدردی اور بےرحمی پر دل خون کے آنسو روتا ہے جہاں چند روپے کی خاطر اپنے پیاروں کو موت کی گھاٹ اتاردیا جاتا ہے۔ لیکن یہ پہلی بار سامنے آیا ہے کہ اپنے مردہ بھائی کا انگھوٹا ہی کاٹ کر رکھ لیا گیا تاکہ زیادہ سے زیادہ رقم چند دنوں میں نکلوائی جا سکے کیونکہ اے ٹی ایم سے چوبیس گھنٹے میں صرف بیس ہزار روپے کیش ہی نکلوایا جاسکتا ہے اور دس لاکھ تک ٹرانسفر ہو سکتا ہے۔ یہ تو سننے میں آیا تھا کہ مرنے کے بعد انگھوٹھے لگوا کر وراثتی ناانصافی کی جاتی ہے۔ لیکن یہ سمجھ سے بالا تر ہے کہ اپنے بھائی کا انگھوٹھا ہی کاٹ کر مستقل استعمال کے لیے رکھ لیا جائے۔
اے ٹی ایم سے کارڈ اور پاس ورڈ چوری کرکے رقم نکلوانے کے واقعات تو شروع میں بہت دیکھنے میں آئے لیکن پھر اے ٹی ایم کیبن میں سی سی ٹی نے یہ سلسلہ ختم کردیا لیکن پھر بھی اے ٹی ایم سے رقم نکلوانے کے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ جب میں رحیم یار خان میں تھا تو وہاں کچے کے ڈاکو اغوا کنندہ سے اے ٹی ایم کارڈ اور پاس ورڈ لے لیتے اور رقم نکلو لیتے تھے بعض واردتیں اے ٹی ایم کیبن میں گن پوائنٹ پر رقم نکلوانے کی بھی سامنے آئیں۔ اے ٹی ایم مشین پر اپنے انگھوٹھے سے رقم نکلوانے کی وجہ سے ان وارداتوں میں کمی آگئی۔ ایک مرتبہ ایک خاتون نے اپنے سعودیہ میں موجود خاوند کے اے ٹی ایم کارڈ سے رقم نکلوا لی اور پھر ماننے کو تیار نہ تھی بات پولیس تک جا پہنچی تو سی سی ٹی وی دیکھا گیا تو وہ خود اپنے بھائی کے ہمراہ رقم نکلواتی ہوئی پائی گئی۔
یہ اس زمانے کی بات ہے جب ان پڑھ لوگ اپنا بنک اکاونٹ انگھوٹے سے چلاتے تھے ان کی تین تصاویر لیکر ایک ان کی پاس بک پر دوسری دستخط والے کارڈ پر اور تیسری اکاونٹ اوپننگ فارم پر لگائی جاتی تھی اور مرد کا لیفٹ اور عورت کا رائٹ انگھوٹھا دو افسران کے سامنے لگوایا جاتا تھا۔ وہ جب بھی کیش لینے کے لیے چیک کاٹتے تو وہ چیک بنک منیجر یا افسر کو خود لکھنا پڑتا اور چیک پر دستخط کی جگہ انگھوٹا لگوایا جاتا اور بنک کے دو افسران یہ تصدیق کرتے کہ وہ انگھوٹا ان کے سامنے لگایا گیا ہے اور دونوں افسران چیک پر لکھی گئی رقم کو کنفرم کرتے اور پھر کیشیر الگ سے رقم دینے سے پہلے اس سے کنفرم کرتا تھا۔
ایک بزرگ اکاونٹ ہولڈر بہت بیمار ہوگیا تو اس کی درخواست پر ہمارا افسر اسکے گھر جاکر اسس سے پوچھ کر چیک لکھتا اور اپنے سامنے اس کا انگھوٹھا لگواتا تاکہ بیماری کے علاج کے لیے رقم نکلوا سکے۔ ایک روز اس شخص کا بیٹا آیا اور گھر سے بزرگ کا انگھوٹھا لگوا کر لایا اور کچھ رقم ایمرجنسی میں نکلوانا چاہتا تھا۔ میں نے کہا کہ انگھوٹھا تو ہمارے سامنے لگانا پڑے گا۔ میں اپنا افسر آپکے ساتھ بھجوا دیتا ہوں یہ گھر سے جاکر ان کا انگھوٹھا لگوا لائے گا تو آپکو پیسے مل جائیں گے مگر وہ لڑنے لگا اور شور مچانے لگا اور کہنے لگا میں شخصی گارنٹی دے دیتا ہوں۔ جس پر مجھے شک ہوا تو میں نے کہا کہ میں خود تمہارے ساتھ چلتا ہوں اور اگر اس بزرگ نے کہا کہ یہ اس کا ہی انگھوٹھا ہے تو میں رقم دے دوں گا۔ لیکں وہ سیخ پا ہوکر چیک پھینک کر چلا گیا جب بعد میں تحقیق کی تو پتہ چلا کہ وہ بزرگ دو دن سے بےہوشی کی حالت میں تھا اور آج اللہ کو پیارا ہوچکا ہے۔ اس کا بیٹا بےہوشی کی حالت میں انگھوٹا لگوا کر لے آیا تھا۔
ایک دن بنک مین ایک باپ بیٹا میرے پاس آئے اور بیٹا کہنے لگا میرا والد کے اکاونٹ سے ساری رقم میرے اکاونٹ میں ٹرانسفر کردیں بوڑھا باپ مجھے مختلف اشارے کر رہا تھا جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ ایسا کرنا تو نہیں چاہتا مگر بیٹا یہ سب کچھ زبردستی کرانا چاہتا ہے۔ میں سمجھ چکا تھا۔ میں نے سسٹم کی خرابی کا بہانہ کرکے دوسری دن پھر آنے کا کہا تو بیٹا کہنے لگا آپ چیک لکھوا کر رکھ لیں کل ٹرانسفر کردیجیے گا۔ یوں وہ چیک اپنے اکاونٹ میں جمع کرانے کے لیے چھوڑ گیا۔
میں پریشان تھا کہ اب کیا کروں؟ دوسری صبح وہ بزرگ اپنے دو اور بیٹوں اور بیٹی کے ہمراہ آیا اور کہنے لگا وہ چیک ٹرانسفر تو نہیں کیا؟ میں بتایا نہیں مجھے پتہ چل گیا تھا کہ وہ آپ سے زبردستی رقم لینا چاہتا تھا۔ اس لیے ابھی چیک ٹرانسفر نہیں کیا تو اس نے بتایا کہ میرا وہ بیٹا نشہ کرتا ہے اور اپنا نشہ پورا کرنے کے لیے مار پیٹ کر مجھے بنک لایا تھا تاکہ ساری رقم خودقبضہ کرلے اور باقی بہن بھائیوں کو اس میں سے کچھ نہ مل سکے اس نے میرا شکریہ ادا کیا اور یوں وہ خاندان بڑے نقصان سے بچ گیا۔
بنک ملازمت کے دوران جعلسازی اور فراڈ کے کئی اور واقعات اور بھی دیکھنے کو ملے لیکن ہر واقعہ میں کوئی نہ کوئی گھر کا فرد شامل نظر آیا۔ دولت اور جائدااد کی ہوس میں انسانی جانوں کا ضیاع ایک ایسا سفاک المیہ ہے جس نے ہمارے معاشرے سے رشتوں کا احترام اور اعتماد ختم کردیا ہے۔ سوال یہ ہےکہ کیا لوگوں کے خون سفید ہوچکے ہیں؟ چھیانوے فیصد مسلمانوں کے ملک میں اپنے خونی رشتوں کی پائمالی کس جانب اشارہ کر رہی ہے؟ ہماری بےحسی یا مذہب اور دین سے دوری؟ یا پھر بےروزگاری اور غربت اور نشہ؟ یا پھربڑھتی ہوئی مایوسی؟ کاش یہ جان سکتے کہ یہ مال یہ جائداد سب کچھ دنیا میں رہ جائے گا۔ اپنوں کے دلوں میں رہنا سیکھیں مکانوں میں تو سبھی رہتے ہیں۔ محبت کے رشتے بہت قیمتی ہوتے ہیں انہیں لالچ کی ہوس میں ضائع مت کریں۔