Pension Tahaffuz Ka Aik Ehsas
پنشن تحفظ کا ایک احساس
کہتے ہیں کہ جب میرے دادا جان انڈین آرمی سے جونیر کمیشنڈ آفسر ریٹائرہو کر پنشن پر آے تو پورا گاوں انہیں رشک سے دیکھتا تھا کہ ملازمت کے بعد بھی انہیں دس روپے ماہوار پنشن ملے گی وہ پوری زندگی یہ پنشن لیتے رہے جو بڑھتے بڑھتے پینتیس روپے ماہوار تک جاپہنچی ان کے بعد جب تک دادی اماں حیات رہیں وہ بھی آدھی پنشن کی حقدار قرار پائیں ہمارے نانا جان محکمہ ڈاک سے ریٹائر ہوے ُ تو خوشی منائی گئی کہ اب گھر بیٹھے بارہ روپے ملا کریں گے مگر چند ہی سال میں وہ تو اللہ کو پیارے ہوگئے مگر نانی اماں جب تک زندہ رہیں انہیں بھی پنشن کی سہولت ملتی رہی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن کا تصور دراصل وہ تسلی ہوتا ہے جو انسان کو پوری زندگی محنت کرنے کا حوصلہ اور ہمت دیتا ہے اگر یہ کہیں تو بےجا نہ ہوگا کہ پنشن انسانی زندگی کے مستقبل کی ضمانت ہوتی ہے۔
اور یہی وہ اطمینان ہوتا ہے جو اسے مرتے دم تک حاصل رہتا ہے۔ یہ پنشن کی ہی برکات تھیں کہ میرے والد صاحب آخری عمر تک اپنے بچوں سے کچھ لینے کی بجاے کچھ نہ کچھ دیا کرتے تھے اور اس بات پر فخر کرتے تھے کہ پنشن کے ذریعے ان کی ملک وقوم کے لیے طویل خدمات کو تسلیم کیا جارہا ہے۔ لیکن بہت کم لوگوں کو پتہ ہے کہ اس پنشن حاصل کرنے کے لیے انہیں سالوں خط و کتابت اور جدوجہد کرنی پڑی۔ پنشن دراصل وہ تحفظ ہے جو کسی بھی ملازم اور اسکی اہلیہ کو مرتے دم تک حاصل ہوتا ہے۔
برادر ملک ترکیہ میں پنشن لینے والے بوڑھوں نے حکومت کو دھمکی دی تھی کہ ہماری پنشن مہنگائی کے مطابق بڑھائی جاے وگرنہ ہم کسی بیس سالہ لڑکی سے شادی کر لیں گے تاکہ حکومت ہمارے مرنے کے چالیس یا پچاس سال بعد بھی پنشن دینے پر مجبور ہو ان کی یہ دھمکی کارآمد ثابت ہوئی اور ترکیہ کی حکومت نے پنشن میں چالیس فیصد اضافے کا اعلان کردیا۔ یہ حقیقت ہے یا پھر کوئی لطیفہ مگر بات بڑی دلچسپ ہے لیکن مصیبت یہ ہے کہ پاکستان میں تو ہم یہ دھمکی بھی نہیں دے سکتے۔ مجھے یہ پڑھ کر آج کل اپنے ملک میں پنشن کے بارے میں مطالبات اور آئی یم ایف کی شرائط کا خیال آگیا جہاں ہمارے پنشن لینے والے بوڑھے آے دن پنشن کے خاتمے کی خبروں سے خوفزدہ یا پھر مہنگائی کے ہاتھوں پریشان اپنی پنشن میں اضافے کی خواہش رکھتے ہیں۔
جونہی پنشن نظام میں کسی تبدیلی کی خبر گرم ہوتی ہے یا پھر اسکے طریقہ کار کو بدلنے کی بات ہوتی ہے تو ایک شور سا مچ جاتا ہے اور پریشانی کے ساتھ ساتھ احتجاج کی ایک لہر سی دوڑ جاتی ہے۔ کہتے ہیں کہ پنشن دراصل ایک ایسا عطیہ ہوتا ہے جو ملازمت کے بعد مالی مدد کے طور پر نہ صرف ملازم بلکہ اسکی بیواہ کو بھی تاحیات دیا جاتا ہے جس کے لیے ایک پنشن فنڈ قائم کیا جاتا ہے جسے ایسا پنشن منصوبہ، فنڈ یا اسکیم کہا جاتا ہے جو ریٹائرمنٹ کے بعد ملازم اور اسکی بیوی کو آخری عمر تک مالی امداد دیتا ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک میں قائم یہ فنڈ ریاست کی ملکیت ہوتا ہے جو جو اسٹاک، بانڈ، جائداد یا مالیاتی اثاثوں یا دیگر مالیاتی آلات پر مشتمل ہوتا ہے جن پر سالانہ منافع بھی لاگو ہوتا ہے۔
ملازمین مختلف حکومتی اداروں میں اپنی ملازمت کے ساٹھ سال کی طویل مدت محنت لگن اور ایمانداری سے اسی آس اور امید پر گزارتے ہیں کہ وہ بقیہ زندگی کے دن بھی خوشی سے گزارہ کر لیں گے اور انہیں کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانا یا محتاجی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا ہمارے ملکی قوانین کے مطابق جو گریجوئٹی کی رقم بنتی ہے اور پوری ملازمت کے دوران ان کی تنخواہ سے کاٹ کر ایک فنڈ میں رکھ دی جاتی ہے جس میں منافع بھی شامل ہوتا چلا جاتا ہے وہ ریٹائرمنٹ کے وقت اکھٹی ادا کردی جاتی ہے جس سے وہ پنشنر اپنی زندگی کے رکے ہوے مسائل حل کر لیتے ہیں بقایا بنیادی تنخواہ کا سر فیصد پنشن قرار پاتا ہے جس میں سے بھی وہ پچاس فیصد پنشن کمیوٹ کرکے اکٹھی رقم لے سکتا ہے باقی پچاس فیصد ماہانہ بنیاد پر ملتی رہتی ہے۔
پنشنرز کے ساتھ ہونے والی قانونی ناا نصافیوں کی ایک بڑی درد ناک داستان ہے پچھلے دنوں ایک دفتر میں ایک پرانے جاننے والے ڈاکٹر صاحب ملے تو پتی چلا کہ وہ ریٹائر تو تین سال قبل ہو چکے ہیں مگر پنشن اور اپنے واجبات کے سلسلے میں مسلسل چکر لگانے کے باوجود کچھ بھی حاصل نہیں کرسکے ابھی تک تو اپنی فائل ہی مکمل نہیں کر پاے ناجانے کیوں ساٹھ سال کی عمر تک ادارے کی خدمت کرنے والے کرسی سے اترتے ہی اپنے ہی ادارے میں لاوارث کیوں ہو جاتے ہیں؟ پنشن تو دور کی بات ہے اپنی گریجوئٹی سے بھی برسوں محروم رہتے ہیں۔ ان جیسے ناجانے کتنے ہی بوڑھے پنشن کے حصول کی کوشش میں مختلف دفتروں کے چکر کاٹتے نظر آتے ہیں۔ معاشرے میں بزرگ افراد کو خصوصی مقام حاصل ہوتا ہے اور اسلامی تعلیمات کے مطابق بزرگ افراد معاشرے کے لیے باعث برکت و رحمت ہوتے ہیں اور عزت و تکریم کے مستحق قرار پاتے ہیں۔
خاص طور پر بزرگ پنشنرز جو اپنی زندگی کا قیمتی حصہ ریاست اور ملک کی خدمت میں گزار دیتے ہیں ایسے بزرگوں کو بوجھ سمجھنا ظلم، زیادتی کے مترادف ہے انہیں تو زندگی کے آخری حسے میں زیادہ سے زیادہ سہولیات اور احترام کی ضرورت ہوتی ہے یاد رہے معزز لوگ بزرگوں کا حترام کرتے ہیں جبکہ ہمارا ملک ان خوش قسمت ممالک میں شامل ہے جہاں کی ستر فیصد آبادی اٹھارہ سے چالیس سال کے نوجوانوں پر مشتمل ہے اگر دیکھا جاے تو ساٹھ سال کی عمر کے کل پندرہ سے بیس فصد بزرگ ہمارے معاشرے کا حصہ ہوتے ہیں کیا ہم اس تھوڑی سی تعداد کے بزرگوں کا خیال بھی نہیں رکھ سکتے؟ کہ انہیں ریٹائرمنٹ کے بعد کلرک مافیا کی اجارہ داری سے نجات مل سکے اور گھر بیٹھے ان کی محنت کا صلہ ان تک پہنچ سکے؟
اولڈ ایج بینیفٹس انسٹی ٹیوشن (ای او بی آئی) ایک ایسا ادارہ ہے جو بزرگ ملازمین اور صنعتی ورکرز کو مالی امداد فراہم کرتا ہے جنہوں نے اپنی زندگی کے کم از کم پانچ سال یا اس سے زیادہ کسی ایک یا مختلف ادارے میں گزارے مگر پنشن سے محروم رہے ہوں اور دوران ملازمت اس فنڈ میں اپنی تنخواہ سے کٹوتی بھی کرواتے رہے ہوں مجھے اس کا بھی تلخ تجربہ ہوا ہے میں دوران بنک ملازمت یہ کٹوتی کراتا رہا اور مجھے اس ادارے کا کاڑد بھی جاری کیا گیا مگر ریٹائرمنٹ کے بعد جب اس ادارے سے رابطہ کیا تو بتایا گیا کہ آپ کے ادارے نے تو آپ سے کی گئی کٹوتی صرف چند سال تک ہی جمع کرائی ہے پھر کچھ بھی جمع نہیں کرایا اس لیے آپ اس مدد سے محروم رہیں گے آپ کا ادارہ اس بارے میں عدالت میں گیا ہوا ہے فیصلے تک انتظار کریں میں حیران اس بات پر تھا کہ ہم سے کٹوتی کرکے اگر کوئی ادارہ وہ فنڈ جمع نہیں کراتا تو اس کی سزا ملازم کی بجاے ادارے کو ہونی چاہیے نا کہ اس بزرگ ملازم کو جسے اس سہولت سے محروم کردیا جاے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ یہ مدد ہر اس ملازم یا ورکر کو ملنی چاہیے جس نے کہیں بھی ملازمت کی مگر پنشن سے محروم ہے ہمارے ہاں کوئی ایسا نظام نہیں ہے جو اس بات کو یقینی بناے کہ یہ فنڈ ملازم سے کاٹا بھی جارہا ہے اور اسے باقاعدہ جمع بھی کرایا جارہا ہے۔ بلکہ پنشن یا کسی اور ذرائع آمدنی سے محروم ملک کے ہر بزرگ کا یہ حق ہونا چاہیے کہ وہ اس سے فائدہ اٹھا سکے۔
کہا جارہا ہے کہ ملک میں پنشن کو ختم نہیں کیا جارہا ہے بلکہ عالمی معیار کا پنشن نظام لانے کی سعی کی جارہی ہے جو ایک اچھا شگوں ہے جو ملک کی معیشت کے لیے بھی فائدہ مند رہے گا۔ اس نئے نظام کو "کنٹری بیوٹری فنڈ " کا نام دیا جارہا ہے لیکن اس نئے نظام سے پہلے سے پنشن لینے والے متاثر نہیں ہوں گے۔ ائی ایم ایف کے ایک مطالبے کو سامنے رکھتے ہوے وفاقی حکومت نے سرکاری ملازمین کی پنشن کا بڑا بوجھ ختم کرنے کے لیے نئی رضاکارانہ پنشن اسکیم بھی تیار کرلی ہے جو سرکاری و نجی شعبہ کے ملازمین کی اپنی رضامندی سے منسلک ہوگی ایک اطلاع کے مطابق اس وقت تک ملک میں ترتالیس کے قریب پنشن فنڈ کام کررہے ہیں اور ان فنڈز میں اکسٹھ ارب روپے کی سرمایہ کاری کی جاچکی ہے جو ایک حوصلہ افزا شگون سمجھا جا رہا ہے۔
پنشن حکومت کی جانب سے دی جانے والی کوئی زکوۃ یا خیرات یا کوئی احسان نہیں ہے بلکہ وہ بنیادی حق ہے جو ان افراد کی تقرری کے وقت ان سے کئے جانے والا ایک قانونی معاہدہ کے تحت حاصل ہوتا ہے جسے کسی بھی طرح یکطرفہ طور پر ختم نہیں کیا جاسکتا تاہم اگر آئی ایم ایف کے دباوُ یا ملکی معاشی بہتری یا کسی اور وجہ سے حکومت اس میں تبدیلی لانا چاہتی ہے تو اسے ایک ایسا نیا قانون بنانا پڑے گا جس کا اطلاق آئندہ سے آنے والے ملازمین پر ہی ہوگا۔
پنشن ریاستی خزانے پر کوئی بوجھ نہیں بلکہ معاشرے میں باعزت اور باوقار زندگی گزارنے کا واحد ذریعہ اور بنیادی حق ہے جو ان بزرگوں کو بلا کسی دقت فراہم ہونا چاہیے۔ پنشن کیا ہوتی ہے؟ یہ چند ہزار روپے کا نام نہیں ہے یہ اس ملازم کی وہ چادر ہوتی ہے جس سے وہ اپنی اولاد پر بوجھ بنے بغیر اپنی بوڑھی انا اور عزت کو بمشکل ڈھانپنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے۔ اس لیے اس چادر کو سلامت ہی رکھا جاے تو بہتر ہوگا۔