Momin Aik Sorakh Se Dobara Nahi Dasa Ja Sakta
مومن ایک سوراخ سے دوبارہ نہیں ڈسا جا سکتا
بینک ملازمت کے دوران مجھے ٹریینگ کے لیے کراچی ایم سی بی سٹاف کالج کچھ عرصہ کے لیے جانا پڑا۔ اس وقت سٹاف کالج کو مس اکرم خاتون ہیڈ کر رہی تھیں۔ جو بعد میں وویمن بینک کی صدر بھی رہی ہیں۔ مس اکرم خاتون پاکستان کی ایک بہت ہی اعلیٰ تعلیم یافتہ اور قابل خاتون بینکار تھیں۔ مجھے یہ فخر ہمیشہ رہے گا کہ مجھے ان سے سیکھنے اور پڑھنے کا موقع ملا۔ وہ ہمیں ایک مرتبہ بینک میں فراڈ اور غبن کے بارے میں پڑھا رہی تھیں۔ تو کہنے لگیں یاد رکھو کسی بدیانت کو معاف کرنا بےشمار معصوم لوگوں سے زیادتی ہوتی ہے۔
جب آپ کو کسی کےفراڈ یا بددیانتی کا پتہ چل جائے تو اسے کبھی چھپائیں مت بلکہ اسے سزا ضرور دیں ورنہ وہ جانے کتنے ہی لوگوں کو نقصان پہنچا دے گا۔ بینک میں چور، بدیانت، اور فراڈیے پر رحم کرنا دوسرے پر ظلم کرنے کے مترادف ہے۔ ایک بدیانتی یا چوری ثابت ہونے کے بعد دوسرا موقعہ دینا آگ سے کھیلنا ہوتا ہے۔ اسے اتنی سزا ضرور ملے جس کا وہ خق دار ہے تاکہ آئندہ اسے سبق حاصل ہو سکے اور وہ محتاط بھی رہے۔
بینک میں تو ایسی بدیانتی کی معافی اور درگزر کی گنجائش قطعی نہیں ہونی چاہیے کیونکہ یہ امانتوں کی حفاظت کا معاملہ ہوتا ہے۔ کسی چور کو رکھوالی پر بٹھانا خود چوری کرنے کے مترادف ہوتا ہے۔ ہم نے سوال کیا کہ میڈم انسان سے غلطی بھی تو ہو سکتی ہے؟ تو انہوں نے فرمایا کہ ہمیں نیت دیکھنی ہوتی ہے۔ غلطی اور بدیانتی دو الگ الگ چیزیں ہوتی ہیں۔ غلطی کسی بھی انسان سے ہو سکتی ہے لیکن یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ دھوکہ دینا، فراڈ کرنا، بددیانتی کرنا پھر جھوٹ بول کر اسے چھپانا قطعی غلطی نہیں ہوتی۔ یہ تو فیصلہ ہوتا ہے اور سوچ سمجھ کر کچھ بھی کرنے کو فیصلہ یا دانستہ واردات ہی کہا جاتا ہے۔ جو بینک کی زبان میں فراڈ یا بد دیانتی ہی کہلاتا ہے۔
اس فراڈ اور بددیانتی کے حقائق کو کسی بھی طرح چھپانا یا چھپانے کی کوشش کرنا اس فراڈ یا بددیانتی سے بھی بڑا جرم ہوتا ہے۔ ایک جھوٹ چھپانے کے لیے ہزار جھوٹ بولنے پڑتے ہیں۔ لیکن بار بار جھوٹ بولنے سے سچ سامنے آ ہی جاتا ہے۔ اگر آپ کسی سے ہمدردی رکھتے ہوئے اسے چھپاتے ہیں تو آپ بھی اس کے اتنے ہی ذمہ دار ہیں جتنا کہ فراڈ یا بددیانتی کرنے والا ہوتا ہے۔
میں نے اپنی پنتالیس سالہ بینک ملازمت کے دوران بےشمار لوگوں کی غلطیوں کو نظر انداز کیا لیکن بددیانتی، فراڈ، ہیرا پھیری کو اپنے سینئر افیسرز کے کہنے پر بھی کبھی معاف نہیں کیا۔ جسکی وجہ سے ان کی ناراضگی اور بےجا پریشر کا سامنا بھی کرنا پڑا اور نقصان بھی اٹھایا۔ کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ کسی ایک بددیانت پر رحم دوسرے بےشمار بے گناہ لوگوں پر ظلم ہوتا ہے۔ ایک دانشور کاقول ہے کہ کسی کو اس کی غلطی پر معاف کرکے اچھے بن جاو لیکن دوبارہ اس پر اعتبار کرکے احمق نہ بنو۔ کسی حملہ آور سانپ یا بچھو کو زندہ چھوڑ دینا اسے دوبارہ کاٹنے کا موقع دینا ہے۔ فطرت اور عادت کبھی نہیں بدلتی۔
بینک کی طرح ہماری روزمرہ کی عام زندگی اور دنیا میں بہت سی باتیں اور چیزیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں معاف کرنا تقریباً ناممکن ہوتا ہے، کیونکہ وہ صرف عام غلطیاں نہیں ہوتیں اور نہ ہی غیر ارادی ہوتی ہیں۔ کچھ چیزیں اصولوں اور اقدار کے خلاف ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر، کوئی شخص جو آپ کے بہت قریب ہو، اور جب آپ مشکل حالات سے گزر رہے ہوں، آپ اپنی کمزوری کے وقت اس سے کہیں کہ "میرے ساتھ رہو، مجھے مت چھوڑو"، اور وہ آپ کو چھوڑ جائے۔ کوئی شخص جس پر آپ نے بہت زیادہ بھروسہ کیا ہو اور اسے بہت معصومیت سے اپنا دوست سمجھا ہو۔
لیکن بعد میں آپ کو پتا چلے کہ وہ آپ سے جھوٹ بولتا رہا اور دھوکہ دیتا رہا۔ کوئی شخص جسے آپ نے اپنی زندگی کا سب سے بڑا راز سونپ دیا ہو، اور پھر ایک محفل میں وہ اسے مذاق یا تفریح کے نام پر سب کے سامنے فاش کر دے۔ کوئی شخص جو آپ کو دھوکہ دے، وعدہ توڑے یا کسی معاہدے کی خلاف ورزی کرئے جس پر آپ دونوں متفق تھے۔ میں نے ایک بہت خوبصورت قول پڑھا تھا: "آپ لوگوں کو دنیا میں سب کچھ سکھا سکتے ہیں، سوائے وفاداری، احساس، اصول اور اخلاق کے"۔ پہلے اس قول کا مطلب اور اس کی گہرائی مجھے سمجھ میں نہیں آتی تھی۔
لیکن جب میں نے اپنی عملی زندگی میں ایسے لوگوں کا سامنا کیا، تو تب جا کر اس کا مطلب پوری طرح سمجھ آیا۔ یہ بھی صحیح ہے کہ یہ چیزیں انسان کے خون میں بھی شامل ہوتی ہیں، انہیں سکھایا نہیں جا سکتا۔ آپ کسی کو یہ نہیں سکھا سکتے کہ وہ وفادار ہو یا احساس کرے یا جھوٹ نہ بولے، دھوکہ نہ دئے، اخلاقی یا مالی بددیانتی نہ کرے۔ اسی لیے میری طرف سے آپ کو نصیحت ہے کہ اگر آپ کی زندگی میں کوئی شخص ہے اور اس نے ان میں سے کوئی حرکت کی ہے۔ تو یہ غلطی نہیں فیصلہ ہوتا ہے تو اسے کبھی دوبارہ اپنا قریبی دوست مت سمجھنا کیونکہ مومن کو ایک سوراخ سے دوسری بار نہیں ڈسا جا سکتا۔ اسے کبھی دوبارہ موقع مت دینا، کیونکہ اگر آپ نے ایسا کیا تو یہ ایسے ہوگا جیسے آپ اسے ایک بندوق دے کر کہہ رہے ہوں کہ مجھے دوبارہ گولی مار دو، لیکن اس بار ٹھیک نشانہ لگا کر میرے دل پر مارنا۔
واقعی، ہماری زندگی میں کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن پر نہ تو کوئی شکایت جائز ہے اور نہ ہی کوئی معافی۔ کچھ واقعات ہماری زندگی میں ایسے ہوتے ہیں جو ہمیں خاموشی سے دور جانے پر مجبور کر دیتے ہیں، اور ہمیں یہ احساس ہوتا ہے کہ اب کچھ کہنے کی ضرورت ہی باقی نہیں رہی۔ ہم چپ چاپ چلے جاتے ہیں، نہ کوئی شکایت کرتے ہیں، نہ کسی کو الزام دیتے ہیں، اور نہ ہی الوداع کہتے ہیں۔ میں ہمیشہ سے اس بات پر یقین رکھتاہوں کہ عزت نفس سب سے زیادہ اہم ہے، اور ہمیشہ یہ کہتا ہوں کہ "جو تمہارے لیے سب کچھ نہ بن سکے، اسے کبھی اپنی زندگی میں کچھ بھی نہ بناو"۔
ایک پختہ کار اور زیرک مسلمان تو ایک دفعہ دھوکا کھانے کے بعد ہوشیار ہو جاتا ہے لیکن غفلت شعار مسلمان بار بار دھوکا کھا لیتا ہے۔ حدیث مبارک ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مذکورہ الفاظ اس وقت استعمال فرمائے جب ابو عزہ جمحی جنگ بدر میں مسلمانوں کا قیدی بنا تو اس نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے اپنے اہل و عیال اور تنگ دستی کا ذکر غلطی پر معافی طلب کی تو آپ ﷺ نے اس پر احسان کرتے ہوئے فدیے کے بغیر اسے آزاد کر دیا، پھر وہ جنگ اُحد میں دوبارہ مسلمانوں سے لڑنے کے لیے آ گیا تو مسلمانوں نے اسے پھر گرفتار کر لیا اس نے پھر کچھ عذر پیش کرنا چاہا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا "مومن ایک سوراخ سے دو مرتبہ نہیں ڈسا جاتا" اس کے بعد آپ نے اسے قتل کرنے کا حکم دے دیا۔ یقیناََ پہلی مرتبہ غلطی ہو سکتی تھی لیکن دوسری مرتبہ حملہ آور ہونا اس کی غلطی نہیں تھی بلکہ اس کا فیصلہ تھا۔ غلطی سے انسان سبق سیکھتا ہے اور اسے دوبارہ نہیں دوہراتا۔