Koi To Hai Jo Nizam e Hasti Chala Raha Hai, Wohi Khuda Hai
کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے، وہی خدا ہے
مولانا رومیؒ فرماتے ہیں جب انسان کسی رنج اور مصیبت میں اللہ تعالیٰ سے شکوہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس مصیبت کا شکوہ بےجا ہے یہ مصیبت تو تجھے میری طرف متوجہ کر رہی ہے تجھے شکوہ تو میری اس نعمت کا ہونا چاہیے جو تجھے مجھ سے بے نیاز بناتی ہے۔ کہتے ہیں کہ ہم وہ مانگتے ہیں جو ہمیں اچھا نظر آتا ہے مگر اللہ وہ دیتا ہے جو ہمارے لیے اچھا ہوتا ہے۔
ہماری سوچ محدود اور ہماری خواہشات لا محدود ہوتی ہیں۔ ہو سکتا ہے آپ ستاروں کی تمنا کریں لیکن اللہ آپ کو چاند سے نوازنا چاہتا ہو اس لیے صبر کریں اور اپنے اللہ پر بھروسہ رکھیں صبر اختیار کرنا بہت خوبصورت ہوتا ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ "اپنا معاملہ اللہ کےسپرد کرکے مطمئین رہیں کیونکہ وہ ہمارے ناممکن پر بھی کن فرمانے کی قدرت رکھتا ہے"۔ کوئی بھی غروب ہمیشہ کے لیے نہیں ہوتا اور نہ ہی کوئی طلوع ہمیشہ قائم رہتا ہے بہترین لوگ وہ ہوتے ہیں جو زندگی کے عروج و زوال میں اپنے رب کی رضا پر راضی اور شکر گزار ہوتے ہیں اور یقین ایسا ہو کہ اگر سامنے سمندر بھی ہو اور تم کہو کہ میرا رب راستہ بنا دے گا۔
یقیناََ وہ ایسی ذات ہے جو ہماری مشکلات کو آسانیوں میں، بیماریوں کو تندرستی میں، نفرتوں کو محبتوں اور غم کو خوشی میں بدلنے پر قدرت رکھتی ہے پورا نظام ہستی اسی قدرت کے زیر انتظام ہے۔ وہ پل میں بادشاہ کو قیدی اور قیدی کو بادشاہ بنا کر سبق دیتا ہے کہ اس کا نظام کسی کی خواہش پر نہیں بلکہ اسکی حکمت کے تابع ہے یاد رہے وہ رحمان اور رحیم ہے اور اسکا ہر فیصلہ انسان پر اسکے رحم اور رحمت کی عکاسی کرتا ہے۔ کہتے ہیں کہ راستہ ایک ہی تھا حضرت موسیٰؑ گزر گئے اور فرعون ڈوب گیا یقین راستے پر نہیں اللہ پر کریں۔
کہتے ہیں کہ تجارتی سامان سے لدا ہوا ایک بحری جہاز محو سفر تھا کہ تیز ہواؤں کی وجہ سے وہ الٹنے لگا۔ قریب تھا کہ جہاز ڈوب جاتا، اس میں موجود تاجروں نے کہا کہ بوجھ ہلکا کرنے کیلئے کچھ سامان سمندر برد کرتے دیتے ہیں۔ تاجروں نے مشورہ کرکے طے کیا کہ سب سے زیادہ سامان جس کا ہو، وہی پھینک دیں گے۔ جہاز کا زیادہ تر لوڈ ایک ہی تاجر کا تھا۔ اس نے اعتراض کیا کہ صرف میرا سامان کیوں؟ سب کے مال میں سے تھوڑا تھوڑ پھینک دیتے ہیں انہوں نے غصہ میں زبردستی اس نئے تاجر کو سامان سمیت سمندر میں پھینک دیا۔
قدرت کی شان کہ سمندر کی موجیں اس کے ساتھ کھیلنے لگیں۔ اسے اپنی ہلاکت کا یقین ہوگیا، جب ہوش آیا تو کیا دیکھتا ھے کہ لہروں نے اسے ساحل پر پھینک دیا ہے یہ ایک غیر آباد جزیرہ تھا۔ جان بچنے پر اس نے رب کا شکر ادا کیا۔ اپنی سانسیں بحال کیں۔ وہاں پڑی لکڑیوں کو جمع کرکے سر چھپانے کیلئے ایک جھونپڑی سی بنائی۔ اگلے روز اسے کچھ خرگوش بھی نظر آئے۔ ان کا شکار کرکے گزر بسر کرتا رہا۔ ایک دن ایسا ہوا کہ وہ کھانا پکا رہا تھا کہ اس کی جھونپڑی کو آگ لگ گئی اس نے بہت کوشش کی، مگر آگ پر قابو نہ پا سکا۔ اس نے زور سے پکارنا شروع کیا، تو نے مجھے سمندر میں پھینک دیا۔ میرا سارا سامان غرق ہوگیا۔ اب یہی جھونپڑی تھی میری کل کائنات، اسے بھی جلا کر راکھ کر دیا۔ اب میں کیا کروں؟ یہ شکوہ کرکے وہ خالی پیٹ سو گیا۔
صبح جاگا تو عجیب منظر تھا۔ دیکھا کہ ایک کشتی ساحل پر لگی ہے اور ملاح اسے لینے آئے ہیں۔ اس نے ملاحوں سے پوچھا کہ تمہیں میرے بارے میں کیسے پتہ چلا؟ انہوں نے جو جواب دیا، اس سے تاجر حیران رہ گیا۔ ملاحوں نے کہا کہ ہمیں پتہ تھا کہ یہ جزیرہ غیر آباد ہے لیکن دور سے دھواں اٹھتا ہوا نظر آیا تو سمجھے شاید کوئی یہاں پھنسا ہوا ہے جسے بچانا چاہیے۔ اس لئے ہم تمہارے پاس آئے۔ پھر تاجر نے اپنے پورا قصہ سنایا تو ملاحوں نے یہ کہہ کر اسے مزید حیران کر دیا کہ جس جہاز سے تمہیں سمندر میں پھینکا گیا، وہ آگے جا کر غرق ھوگیا۔ یہ سن کر تاجر سجدے میں گر گیا، رب کا شکر ادا کرنے لگا اور کہا کہ پاک ہے وہ ذات جس نے مجھے بچانے کیلئے تاجروں کے ہاتھوں سمندر میں پھنکوایا۔ اپنے بندوں کے بارے میں وہی زیادہ جاننے والا ہے۔
حالات جتنے بھی سخت ہو جائیں، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں۔ ہر حال میں اپنے رب پر بھروسہ رکھئے۔ پریشانیاں، آفات اور مشکلات صرف مکافات عمل کے تحت ہی نہیں آتیں کچھ بطور آزمائش، کچھ بطور تنبیہ، کچھ درجات کی بلندی، کچھ گناہوں کے کفارے اور کچھ آخرت کی تیاری کے لیے بطور یاددہانی کے لیے بھی آتی ہیں۔ جو لوگ اپنے معاملات اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو کبھی بے سہارا نہیں چھوڑتا وہی کافی کارساز ہے ہم صرف ماضی یاد رکھتے ہیں حال پر نظر بھی رکھتے ہیں مگر اپنے مستقبل سے بےخبر ہوتے ہیں۔
وہی تو ہے جو پورا نظام ہستی چلا رہا ہے اسے ماضی حال اور مستقبل کی مکمل خبر ہے اور اس سے کچھ بھی تو اوجھل نہیں ہے اور وہ رب جو پوری کائنات چلا رہا ہے اس کےایک کن سے ہر چیزممکن ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ فلاں چیز ہمارے مقدر ہی نہیں ہے مگر اللہ کے لیے ہر چیز ممکن ہوتی ہے۔
حضرت امام احمد بن حنبلؒ فرماتے ہیں ایک مرتبہ مجھے عراق کے کسی گاوں میں رات ہوگئی میں ایک مسجد میں گیا لیکن وہاں کے چوکیدار نے مجھے وہاں سے نکال دیا۔ میں مسجد سے باہر فرش پر سو گیا لیکن چوکیدار نے مجھے پاوں سے پکڑا اور گھسیٹ کر مسجد سے دور ایک دروازے پر ڈال دیا اس گھر کا ملک ایک خدا ترس آدمی تھا مجھے اپنے گھر لے گیا رات کو میں نے دیکھا کہ وہ شخص چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے ہر وقت "استغفار" پڑھتا تھا صبح ہوئی تو میں نے اس شخص سے پوچھا کہ کیا آپ کو استغفار پڑھنے کا کوئی فائدہ بھی ہوا ہے؟ اس نے جواب دیا: جی ہاں میری ہر دعا قبول ہوئی سوائے اس کے کہ میری ملاقات امام احمد بن حنبلؒ سے ہو جائے تو میں نے کہا، دیکھو میں ہی احمد بن ھنبلؒ ہوں اور تم دیکھو کہ مجھے کیسے گھسیٹ کر تمہارے پاس لایا گیا ہے۔
وہ پاک ذات جب کچھ کرنا چاہتی ہے تو کوئی بھی سبب بن جاتا ہے۔ ایک بزرگ کہتے ہیں ہر دعا کا پورا ہونا ہر چیز کا مل جانا ضروری نہیں ہوتا لیکن دعائیں ایسے لمحوں کے لیے ہیں جب تمہارا مقدر ہو بھی رہا ہو اور تمہیں وہ حصہ نہیں مل رہا ہو جو تم چاہتے ہو۔ اگرچہ اللہ نے مقدر کو نامکمل نہیں رکھا لیکن تمہیں ایک اہم راز اور جذبہ دیا ہوا ہے وہ ہے تمہاری دعائیں جو کسی بھی مقدر کو کبھی بھی بدل سکتی ہیں۔
تمہارے صبر، یقین اور دعا کا باہمی میل تمارے مقدر کو بدل سکتا ہے اللہ تمہیں اپنی چاہت کا حصہ دینے میں مدد فراہم کرتا ہے صبر سے گزر کر اللہ تمہیں اپنی یقین کی پر کھائی میں لیتا ہے اور تمہیں قریب لانے کے لیے آزماتا ہے اللہ تمہیں سزا نہیں دیتا بلکہ تمیں اپنی قربانی کو اپنے قریب لے آنے کے لیے آزماتا ہے تمہیں یہ یقین ہوتا ہے کہ جو خواب دیکھتے ہو انکی تعبیر تمہاری دعائیں لکھتی ہیں اور اللہ تمہارے ہاتھوں کو اپنے روبرو اٹھاتا ہے تاکہ تمہارا نصیب بہترین لکھ سکے۔ تمہاری خواہشات اپنی جگہ مگر اسکی مصلحت اور حکمت اپنی جگہ ہے تمہاری خواہشات تمہیں بے چین رکھتی ہیں جبکہ اس کی حکمت تمہارے لیے سکون بخشتی ہے اللہ کی ایک صفت "الصمد" ہے جس کا مطلب "بے نیاز"ہے۔
ہمارے ہر نیک اور اچھے کام کا اجر ضرور ملتا ہےکیونکہ وہ "متکبر" بھی ہے وہ ذات کسی کا کوئی احسان نہیں رکھتی لیکن انسان بنیادی طور پر ناشکرا اور بےصبر واقع ہوا ہے اور جلد بہترین نتائج کی خواہش کرتا ہے وہ محنت اور کوشش تو کرتا ہے لیکن یقین کی پختگی نہ ہونے سے جلد ہمت ہار جاتا ہے انسان ہمت کب ہارتا ہے جب وہ اپنی دانست میں اپنے حصہ کا کام کرچکا ہوتا ہے لیکن نتیجہ اسکے حساب اور اسکی خواہشات اور توقعات کے مطابق نہیں آتا اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ مایوس ہوکر اپنی کوشش ترک کردے اور اپنے رب سے دور ہونے لگے بلکہ اسے مستقل مزاجی سے یقین کا دامن تھامے رہنا ہوتا ہے تو آخر کار ایسا وقت ضرور آجاتا ہے جب فیصلے اسکی چاہ اور خواہش کے مطابق ہوں گے یا پھر اسے اللہ تعالیٰ کے فیصلوں کی حکمت سمجھ میں آنے لگے گی کیونکہ وہ "الصمد"ہے اور دنیا کے تمام تر وسائل اسکے محتاج ہیں وہ وسائل کا محتاج ہرگز نہیں ہے انسان کا کام کوشش کرنا اور اسکی ذات پر توکل کرنا ہے جسے یقین کی پختگی کہتے ہیں۔
انتظار کے انہی لمحات کو صبر کہتے ہیں اور یہ نعمت بھی قسمت والوں کو ہی عطا ہوتی ہے۔ وہی تو ہے جو راستے پہلے بنا دیتا ہے لیکن عطا بہترین وقت پر کرتا ہے بس انسان کو نعمت پر شکر تکلیف پر صبر اور گناہ پر توبہ کرنے والا ہو نا چاہیے۔ اس لیے قرآن میں فرمایا گیا ہے کہ "اور اپنے رب کے نام کا صبح وشام ذکر کیا کرو" کیونکہ
کبھی پہاڑوں کی چوٹیوں سے کبھی سمندر کے ساحلوں سے
بغیر بولے جو اپنی جانب بلا رہا ہے وہی خدا ہے