Thursday, 17 October 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Javed Ayaz Khan
  4. Khabt e Azmat Auk Muasharti Beemari

Khabt e Azmat Auk Muasharti Beemari

خبط عظمت ایک معاشرتی بیماری

استاد نے شاگرد سے پوچھا: ہمارے کتنے گردے ہوتے ہیں؟ شاگرد بولا چار استاد نے استہزائیہ انداز میں کہا ذرا سنو یہ کہتا ہے گردے چار ہوتے ہیں؟ اور ساتھ ہی ایک قہقہہ لگایا یہ استاد ان لوگوں میں سے تھا جو اپنے علم کے زعم میں خبط عظمت کا شکار ہوتے ہیں اور شاگردوں کی غلطیوں پر ان کی تحقیر کرکے ٖفخر محسوس کرتے ہیں۔ وہ اگلی نشستوں والے شاگردوں سے کہنے لگا ایک گھاس کا گٹھڑ لاؤ اور ہماری کلاس میں ایک گدھا رہتا ہے اسکے سامنے ڈال دو"۔

وہی شاگرد اطمینان سے بولا اور ہاں میرے لیئے ایک کافی لیتے آنا! استاد یہ سن کے آگ بگولہ ہوگیا اور اسے کلاس سے باہر نکال دیا بتاتا چلوں کہ یہ شاگرد، اپاریشیو توریلی اپوریلی (1895 - 1971ء) آگے چل کے ایک بڑا مزاح نگار بنا، جو اپنے قلمی نام "باروں دی اتغاغے" کے نام سے مشہور ہوا۔ کلاس سے باہر جاتے جاتے اس شاگرد نےاس سیخ پا استاد کو ادب سے یہ کہنے کی ہمت ضرور کی آپ نے مجھ سے پوچھا، "ہمارے" کتنے گردے ہوتے؟ تو میں نے کہا چار۔۔ دو آپکے، دو میرے۔ "ہمارے" کا صیغہ جمع کا ہوتا ہے واحد کا نہیں ہوتا۔ اس لیے کہتے ہیں کہ زندگی میں علم کے تکبر کے علاوہ سمجھداری اور حاضر جوابی بھی ہونی ضروری ہے تکبر اور خبط عظمت انسان کی عقل پر پردہ ڈال دیتی ہے۔ احساس برتری دراصل احساس کمتری کا سب سے نچلا درجہ ہوتی ہے۔

بینک ملازمت کے دوران مجھے بڑے عجیب و غریب واقعات اور شخصیات دیکھنے کو ملیں جن کے ساتھ کام کرکے بے شمار چیزیں سیکھنےکا موقع ملا اور بڑے عمدہ اور تلخ تجربات سےبھی گزرنا پڑا ملازمت کے دوران آپکے "باس" یا متعلقہ افسر کا بہت اہم کردار ہوتا ہے اسکی کوئی بھی اچھی یا بری عادت آپکی زندگی اور ملازمت پر براہ راست اثر انداز ہوتی ہے اور جن لوگوں زیر اثر آپ کا م سیکھتے ہیں ان کے طرز اور طریقوں کی اچھی یا بری جھلک آپکی شخصیت میں بھی نظر آتی ہے۔

بینکوں میں عام طور پر اچھے افسران سے پالا پڑا جو کام کی قدر کرتے اور کام کرنے والے کی عزت کرتے تھے۔ بینک میں آج بھی کسی کی انفرادی و اجتماعی کارکردگی ماپنے کا طریقہ اسکی بینک برانچ، ایریا، ریجن اور سرکل کے ہر شعبہ میں پرفارمنس کے وہ نمبرز اور پوزیشن ہوتی ہے جو اسکی محنت، جدوجہد، دیانت داری، قابلیت اور صلاحیت کا منہ بولتا ثبوت ہوتے ہیں۔ آپ بینک بزنس کو کتنا بڑھاتے ہیں، منافع کتنا کماتے ہیں، بینک کی پالیسوں پر اور قوانین پر عمل کرتے ہیں یا نہیں؟

آپ کا ہر شعبے میں کام ہی آپکی کارکردگی کو نمائیاں کرتا ہے ہر سال آپکا آڈٹ آپ کے اچھے کام کا گواہ ہوتا ہے اور سب سے بڑھ کر لوگوں سے آپکی خوش اخلاقی، رویہ اور طرز گفتگو بڑا کردار ادا کرتا ہے۔ لیکن چند افسران کے ساتھ تلخ دن بھی گزرے جو بھلاے نہیں جا سکتے۔ تب ہی مجھے "خبط عظمت" جیسی برائی سے واسطہ پڑا تو مجھے اسکے نقصانات کا اندازہ ہوا۔ یوں تو چہروں کا تصور غلط نہیں ہوتا مگر لوگ ویسے نہیں جیسے نظر آتے ہیں۔

جب بینک پرائیویٹ ہوا تونئے صدر آے انہوں نے ایک لیٹر جاری کیا کہ جو منیجر ایک سال میں برانچ ڈیپازٹ ڈبل کر دے گا اسے فوری اگلے گریڈ میں ترقی دے دی جاے گی میں ان خوش قسمت افراد میں تھا جو یہ ٹارگٹ حاصل کر سکا کیونکہ ایک سال قبل میری ترقی ہوئی تھی اسلیے اتنی جلدی دوبارہ ترقی دینا عجیب تھا اس لیے ہمارے ریجنل منیجر اور جنرل منیجر نے مجھے ڈراپ کردیا میں نے پوچھا تو کہا ترقی کے لیے کارکردگی کے ساتھ ساتھ اور بھی بہت کچھ دیکھا جاتا ہے لیکن میں نے ایک لیٹر صدر صاحب کو براہ راست لکھ دیا تو بادل نخواستہ انہیں میری پرموشن کرنی پڑی۔

ایک افسر تشریف لائے تو جنرل سٹاف میٹنگ میں ان کی شکل و صورت، شخصیت، لب و لہجے اور بات چیت نے بے حد متاثر کیا مگر جب برانچ میں ون ٹو ون ملاقات ہوئی تو سارے تصور غلط ثابت ہوئے بولے کب سے اس برانچ میں ہو؟ میں نے کہا دو سال سے یہاں ہوں اور ساتھ ہی اپنی دوسال کی کارکردگی کی شیٹ پیش کی تو دیکھنے کی بجاے اُٹھا کر ایک طرف پھینک دی اور بولے ہمیں سب کی کارکردگی کا پتہ ہوتا ہے آپکی کارکردگی تو ہماری وجہ سے ہوتی ہے ہم اگر نہ چاہیں تو آپ کیسے کارکردگی دکھا سکتے ہیں؟ آپ کو فخر اپنے کام پر نہیں بلکہ اپنے باس پر ہونا چاہیے جس نے اس اچھی برانچ میں آپکو کام کرنے کا موقع دیا۔ یہ اتنی خوبصورت اور اچھی برانچ ہے میں جسے بھی چاہے یہاں لگا دوں وہ کارکردگی دکھاے گا۔

منیجر کی کارکردگی کے نمبرز وہ ہوتے ہیں جو اسکا باس اسے دے! اپنے سینیرز کی خوشنودی کے بغیر سب بے کار ہوتا ہے دیکھنا یہ ہے کہ آپ اپنے سینیرز کو کتنا خوش رکھتے ہیں۔ اس سے قبل اعلیٰ افسران کی جانب سے مجھے میری کامیابیوں کی وجہ سے "ٹائیگر" اور"گولڈن آرم" کہہ کر پکارا جاتا تھا اور ہر سال "مین آف دی ایئر" قرار پاتا تھا میرے لیے یہ پہلا موقع تھا اس سے قبل مجھے کبھی ایسے ریمارکس سننے کو نہیں ملے تھے نہ ایسی سوچ سے پالا پڑا تھا۔

دوسری صبح میرا ٹرانسفر کردیا گیا اور ساتھ ہی کہا گیا اب دیکھتے ہیں کہ تم کیا کارکردگی دکھاتے ہو؟ میں ان کی بات اور خواہشات کا مطلب سمجھ چکا تھا مگر میں جانتا تھا کہ میں ان کی خواہشات پر پورا نہیں اتر سکتا تھا اس لیے ہمیشہ اپنی بہترین بینکاری کی کارکردگی دکھاتا رہا اور ترقی کی منزلیں طے کرتا چلا گیا۔ لیکن وہ موصوف کچھ عرصہ بعد اپنے ہی جیسے "خبط عظمت"کے شکار ایک اور باس کے ہاتھوں اپنے انجام کو پہنچے۔

میرے والد بزرگوار کہا کرتے تھے کہ "خبط عظمت" دراصل"خبط تکبر" کا بلند ترین درجہ ہوتا ہے اور دنیا میں اس خبط کا پہلا شکار ابلیس تھا جس نے تکبر کی وجہ سے اللہ کے حکم کے باوجود انسان کو سجدہ نہ کیا اور پہلا نافرمان ٹھہرا اور عتاب الہی کا مستحق بن گیا۔ وہ کہتے تھے تکبر چاہے دولت اور جائداد کا ہو، طاقت اور جوانی کا ہو، رتبے اور عہدے کا ہو، حیثیت کا ہو، حسن و خوبصورتی کا ہو، علم اور ڈگری کا ہو، حسب و نسب کا ہو، حتیٰ کے تقویٰ کا ہی کیوں نہ ہو، انسان کو رسوا کرکے ہی چھوڑتا ہے۔

وہ فرماتے تھے عاجزی جتنی بڑھتی ہے ایمان اتنا ہی مستحکم ہوتا ہے اور تکبر جتنا بڑھتا ہے ایمان اتنا ہی کمزور ہوتا ہے انسان قد، دولت، مرتبے سے نہین بلکہ ظرف سے بڑا ہوتا ہے مشکلات کا مقابلہ کرنے کا نام زندگی اور ان پر غالب آنے کا نام کامیابی ہے حکیم لقمان نے کہا تھا "احساس برتری کا شکار، خبط عظمت کا شکار یا بڑائی کے جنون مین مبتلا وہ شخص جسے اپنی بڑائی او طاقت کا جنون ہو دراصل وہ ذہنی بیماری میں مبتلا ہوتا ہے"۔ اسطرح کے لوگ آپ کے اردگرد کثرت سے پائے جاتے ہیں اور آپ کا کبھی نہ کبھی ان سے واسطہ ضرور پڑتا ہے زیادہ تر یہ بیماری بڑے عہدے پر فائز لوگوں اور ان کے عزیزوں میں ذرا زیادہ پا ئی جاتی ہے اور اس کا اظہار وہ معاشرے میں مختلف طریقوں سے کرتے ہیں اکثر جب کوئی یہ کہتا ہے " تم جانتے نہیں میں کون ہوں؟ یا پھر "تمہیں میرا پتہ نہیں ہے؟" تم تو ایک فون کی مار ہو؟

ایک سڑک پر جھگڑتے ہوے میں نے ایک خاتون سے سنا "تمہیں پتہ نہیں میں کس کی بیوی ہوں؟"بےشمار لوگ اپنی جیب میں ایک آدھا بھاری بھر کم وزیٹنگ کارڈ رکھتے ہیں یا گلے میں لٹکا کر پھرتے ہیں اور اس کارڈ کے حوالے سے اپنا تعارف کراتے ہیں کہ وہ سیاستدان، ٹی وی اینکر، صحافی، جاگیردار، بیوروکریٹ ہے۔ اسی طرح اپنی گاڑیوں اور گھروں پر مختلف نیم پلیٹ آویزاں کرکے اپنی اہمیت اور بڑائی کو ظاہر کرتے ہیں دراصل وہ اپنے آپ کو دوسروں سے برتر ایک خاص آدمی بتاکر معاشرہ میں مقام حاصل کرنا چاہتے ہیں اور دوسروں پر اپنا رعب ڈالنا اور ڈرانا چاہتے ہیں اور اپنے اختیارات اور عہدے کا اظہار کرکے اپنے آپ کو تسکین دینے کی کوشش کرتے ہیں۔

یہ دراصل ان کی احساس کمتری ہوتی ہے جو رفتہ رفتہ ہمارے معاشرے کا حصہ بنتی چلی جا رہی ہے۔ اسی لیے ہمارا دین اسلام تکبر کو بڑا گناہ قرار دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا "زمین پر اکڑ کر نہ چلا کر کیونکہ اکر کر چلنے سے تو نہ زمین کو پھاڑ سکتا ہے اور نہ تن کر چلنے سے پہاڑوں کی بلندی ہی کو پہنچ سکتا ہے "اس لیے ہمیں ہمیشہ وہی نظر ٓانا چاہیے جو ہم ہو تے ہو اور سب ایک کھنکھناتی مٹی سے بنے ہیں اور اسی مٹی ہی کی خوراک بن جانے والے ہیں پھر بھلا تکبر کس بات کا ہوتا ہے۔

Check Also

Sahafi Ki Qalam Guzasht

By Rauf Klasra