Badalte Mausam Aur Insani Bebasi
بدلتے موسم اور انسانی بےبسی
موت سب سے بڑی سچائی اور سب سے تلخ حقیقت بھی ہے۔ ہر جاندار کو ایک نہ ایک دن موت کا مزا چکھنا ہے۔ خالق کائنات نے ہر جاندار کے لیے موت کا وقت اور جگہ متعین کر دی ہے اور موت ایسی شے ہے کہ دنیا کا کوئی بھی شخص خواہ وہ مسلمان ہو یا کافر ہو یہاں تک کے دہرایہ بھی کیوں نہ ہو موت پر شک وشبہ نہیں کرتا اور اسے یقینی مانتا اور سمجھتا ہے۔ دنیا کا بڑے سے بڑا جاندار اور انسان بھی موت کے سامنے عاجز و بےبس ہو جاتا ہے۔
موت کچھ نہیں دیکھتی جب حکم خداوندی ہوتا ہے اپنا کام کر گزرتی ہے۔ انسان جوں جوں موت کی جانب بڑھتا ہے دنیاوی لذتوں اور آئشوں کے حاصل ہونے کے باوجود ان سے لطف اٹھانے سے محروم ہوتا چلا جاتا ہے۔ دنیاوی لذتوں، اسائشوں، سہولتوں اور بےپناہ وسائل کے باوجود انسانی بےبسی یہی احساس دلاتی ہے کہ ہر ذی نفس نے اس مرحلے سے گزرنا ہی ہوتا ہے۔ زندگی کے موسم بدلتے رہتے ہیں۔ بچپن کی بےفکری، جوانی کا گھمنڈ اور جذبے آخرکار بڑھاپے کی بےبسی کے یہ موسم ہی تو ہماری بھر پور زندگی کو مکمل کرتے ہیں۔
زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترتیب
موت کیا ہے انہیں اجزا کا پریشاں ہونا
کہتے ہیں کہ 1942ء میں اب سے تقریباََ پچانوے سال قبل جب ماسٹر دیناناتھ دنیا سے گزر گئے تو تین بہنیں، ایک بھائی اور ماں کے ہمراہ اس گھر پر غربت نے ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ یوں گھر کی ذمہ داری اس تیرہ سالہ بچی کے کاندھوں پر آپڑی جس کے ابھی کھیلنے کودنے کے دن تھے۔ لیکن زندگی نے اسے رزق کی خاطر فلم انڈسٹری کی ہنگامہ خیزی کا حصہ بنا دیا۔ بمبئی کے ریلوے اسٹیشن ملاد سے سٹوڈیوز تک کا طویل فاصلہ یہ بچی پیدل طے کرتی تاکہ پیسے بچا سکے واپس گھر پہنچتی تو ہاتھ میں تھوڑی سی سبزی، ساڑھی کے پلو میں چند روپے اور آنکھوں میں ڈھیر سے آنسو ہوتے تھے۔ لیکن پیٹ کی خاطر دوسری صبح پھر وہ یہی سفر کرتی تھی۔
جی ہاں، یہ بچی جس کانام "ہیما" تھا اور جسے آج پوری دنیا "لتا منگیشکر"کے نام سے جانتی ہے۔ ان کے والد تھیٹر کے مشہور ادکار اور کلاسیکل گائیک ہوا کرتے تھے۔ یہ شاید اس بچی کی زندگی کا مشکل ترین موسم تھا۔ ان مشکل حالات میں ان کے والد کے دیرینہ دوستوں ماسٹر وینائیک اور پھر ماسٹر غلام حیدر نے ان کے سر پر ہاتھ رکھا۔ پھر دنوں میں اس کی آواز کا جادو پورے برصغیر میں گونجنے لگا۔ تاریخ کی اس گلوکارہ کو ہندوستان کا سب سے بڑا شہری اعزاز "رتن" حاصل ہوا۔
بلاشبہ موسیقی کی دنیا میں اس نے پوری زندگی حکومت کی اور ہمیشہ کے لیے اپنا نام موسیقی کی تاریخ میں امر کر لیا۔ مشکل آغاز سے زندگی کے اختتام تک وہ دنیا کی توجہ کا مرکز بنی رہیں۔ یہ ان کی زندگی کا خوبصورت ترین موسم تھا۔ آج اٹھائیس ستمبر کو ان کی سالگرہ کے دن ان کی فنی صلاحیت اور موسیقی کی بےپناہ خدمات کو خراج تحسین پیش کیا جارہا ہے۔
آج کل سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی یہ ان کے بارے میں تحریر پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ س دنیا میں موت سے زیادہ کوئی حقیقت نہیں اور موت سے قبل عالم بےبسی مقدر ضرور بنتی ہے۔ ان کے یہ چند لفظ اپنے اندر بےپناہ گہرائی رکھتے ہیں کہ "دنیا کی سب سے مہنگی برانڈِڈ کار میرے گیراج میں کھڑی ہے۔ لیکن میں وہیل چیئر تک محدود ہوں۔ دنیا بھر کے مختلف ڈیزائن اور رنگوں کے مہنگے کپڑے اور جوتے، قیمتی لوازمات میرے گھر میں موجود ہیں، لیکن میں ہسپتال کے فراہم کردہ مختصر گاؤن میں ہوں۔
میرے بینک اکاؤنٹ میں بہت پیسہ ہے لیکن مجھے اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ میرا گھر محل جیسا ہے، لیکن میں ہسپتال میں ایک چھوٹے سے بستر پر پڑی ہوں۔ میں دنیا کے فائیو سٹار ہوٹلوں میں جاتی رہی لیکن اب مجھے ہسپتال میں ایک لیب سے دوسری لیب میں بھیجا جا رہا ہے۔ میں نے دنیا بھر کے مہنگے ترین ریسٹورنٹس میں کھانا کھایا ہے لیکن آج میری خوراک دن میں دو گولیاں اور رات کو ایک قطرہ نمک ہے۔ میں مختلف طیاروں پر ساری دنیا میں سفر کرتی رہی لیکن آج دو لوگ ہسپتال کے برآمدے میں مجھے سہارا دیتے ہیں۔ کسی بھی سہولت نے میری کوئی مدد نہیں کی، لیکن ہاں کچھ پیاروں کے چہروں اور اُن کی دعاؤں نے مجھے زندہ رکھا ہوا ہے"۔
کہا جاتا ہے کہ یہ عالمی شہرت یافتہ گلوکارہ لتا منگیشکرکے آخری الفاظ تھے جو بیانوے سال کی عمر میں کرونا کی باعث اپنی زندگی کی آخری جنگ لڑ رہی تھیں۔ جی ہاں یہ بھارتی ثقافت کی ایک باوقار شخصیت اور وہی گلوکارہ تھی جس نے آواز اور موسیقی کی دنیا میں پوری دنیا میں اپنا سکہ جمایا اور برصغیر کے لوگ اسے اور اسکی پاکیزہ اور مدبھری سدا بہار آواز کی باعث پرستش کی حد تک چاہتے تھے۔ جو "بلبل ہند" اور سروں کی ملکہ کے خطاب سے نوازی گئی۔ وہ بچوں، جوانوں اور بزرگوں میں مشترکہ طور پر مقبولیت کا اعزاز رکھتیں تھیں۔
بےشک وہ دنیا کے تمام اعلیٰ ایوارڈز حاصل کرکے وہ آواز کی دنیا کی کسی دیوی سے کم نہ تھی۔ مندروں میں بجتی گھنٹیوں سا سحر لیے لتا منگیشکر جی کی آواز نے کئی نسلوں کو اپنی آواز سے مسحور کئے رکھا۔ ان کی آواز کی خوبی یہ تھی کہ ان کی مدھر آواز سے ان کی عمر کا ذرا بھی اندازہ نہیں لگایا جاسکتا تھا۔ ان کا نام مختلف زبانوں میں تقریباََ تیس ہزار گانے گا کر گنیز بک آف ریکارڈ میں شامل کیا گیا یوں وہ دنیا سب سے زیادہ گانے گانے والی گلوکارہ تسلیم کی گئیں۔
نامور غزل گائیک جگجیت سنگھ کہتے ہیں کہ کہ "بیسویں صدی کی تین چیزیں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گیں۔ ایک انسان کا چاند پر جانا، دوم دیوار برلن کا گرنا اور تیسرا لتا منگیشکر کی پیدا ہونا" ان کے ہر گانے نے مقبولیت کے ریکارڈ توڑ دئیے۔ اس کے باوجود وہ کہتی ہیں کہ وہ اپنے گائے ہوئے گانے نہیں سنتی ہیں کیونکہ ایک آدھ بار سنا تھا تو اپنی ہی گائیکی سینکڑوں نقص اور غلطیاں نکال لی تھیں۔ پوری زندگی شادی نہ کرکے اور اپنی زندگی اکیلے گزار کر انہوں نے خود کو موسیقی کے لیے وقف کردیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی آواز ہمیشہ زندہ رہے گی۔
گو سروں کی ملکہ، جہان ساز و آواز کی فرماں روا لیجنڈری گلوکارہ لتا جی نے اس عارضی دنیا سے دستور زمانہ کے مطابق منہ موڑ لیا ان کے ساتھ ہی موسیقی کا ایک عہد تمام ہوا۔ لیکن ان کے گانوں سے ان کے سانسوں کی آواز ہمیشہ سنائی دیتی رہے گی۔ یہ واحد گلوکارہ جن کے لیے بھارت میں دو دن کے سوگ کا اعلان کیا گیا اور اس ریاستی سوگ کے دوران قومی پرچم سرنگوں رہا اور پورا ملک سوگ میں ڈوبا رہا تھا۔ لیکن دنیا کا کوئی ڈاکٹر ان کی زندگی کے چند لمحات نہ بڑھا سکا۔
وہ موسیقی کو عبادت کا درجہ دیتی تھیں اور ہمیشہ اپنے چپل اتار کر گایا کرتی تھیں اور اپنا آخری سفر بھی انہوں نے بغیر چپل کے ہی کیا۔ دنیاوی وسائل، سہولتیں، آ سائشیں اور لذتیں میسر ہونے کے باوجود بےکار، بے ذائقہ اور بے لذلت ہوجانا ہی شاید وہ موت کا ذائقہ ہوتا ہے۔ موسیقی دنیا میں ان کا خلا شاید صدیوں تک پرُ نہ ہو سکے۔ لتا جی کی آواز نے انہیں ہمیشہ کے لیے امر کردیا ہے۔ ان کی آواز جب تک لوگوں کے کانوں میں رس گھولتی رہے گی وہ ان کے دلوں میں زندہ رہیں گیں۔
دنیا کی تمام تر آسائشوں اور بے پناہ دولت کے باوجود انسان کی بےبسی قابل غور ہے۔ زندگی کے عروج و زوال یہ ثابت کرتے ہیں کہ زندگی کے بدلتے موسموں کے سامنے ہر انسان بےبس ہوتا ہے۔ زندگی کی بے ثباتی اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ اس آخری موسم نے زندگی میں آنا ہی آنا ہوتا ہے اور دنیا میں کوئی بھی تماتر وسائل اور محبتوں کے باوجود کسی مدد کے قابل نہیں ہوتا۔ انسان کی ساری خوبیوں اور خوبصورتیوں نے ایک دن اس کا ماضی بن جانا ہے۔