Awami Badshah Ke Panch Saal
عوامی بادشاہ کے پانچ سال
مجھے دادا جان ایک کہانی سناتے تھے کہ جب پانی پت کی مشہور لڑائی اختتام ہوئی اور شہنشاہ بابر کی نئی ٹیکنالوجی اور طریقہ جنگ نے ابراہیم لودھی کی دقیانوسی طرز جنگ کو شکست دے دی۔ بابر کے بندوق و بارود نے ابراہیم لودھی کے ہاتھیوں کے پیر اکھاڑ دئیے اور وہ اپنی فوج پرہی چڑھ دوڑے۔ دونوں جانب سے لڑنے اور جانیں قربان کرنے والے زیادہ تر پٹھان تھے۔
ایک وہ تھے جو پہلے سے ابراہیم لودھی کے ہمراہ ہندوستان پر حکومت کر رہے تھے اور دوسرے وہ جو بابر کے ہمراہ تازہ دم وہاں پہنچے تھے۔ ان میں زیادہ تر یوسف زئی قبیلہ تھا جس قبیلے میں بابر نے شادی کرکے رشتہ جوڑا تھا۔ ایسے میں ایک نوجوان اور باصلاحیت پٹھان سردار بڑی باریک بینی سے ان حالات پر نظر رکھے ہوے تھا۔ اسے پٹھانوں پر ترس کے ساتھ ان کے آپس میں لڑنے پر بڑا دکھ تھا اور وہ بکھری ہوئی پٹھان قوم کو یکجا کرنے کے خواب دیکھتا تھا۔
برصغیر میں ہر حملہ آور پٹھانوں کی طاقت سے فاتح بن کر آتا اور لوٹ مار کرکے چلا جاتا اور اپنے ساتھ لائے گئے پٹھان ہندوستان میں چھوڑ جاتا۔ یہ جنگجو اپنی خدمات راجے مہاراجوں اور سرداروں کے لیےلڑنے کے لیے وقف کر دیتے۔ اس طرح پٹھانوں کی بڑی تعداد ہندوستان میں موجود تھی جو یہاں سلطنتوں کو مضبوط کرتی رہی۔ مگر یہ پٹھان اب برصغیر کی بڑی رعایا بن چکے تھے۔ ایک دن یہ بہادر جوان ساری رات یہی سوچتا رہا اور صبح صبح اپنے ایک پٹھان بزرگ سے مشورہ کرنے پہنچااور پوچھا جناب مجھے یہ بتائیں کہ یہ پٹھان کب تک ایسے ہی بکھرے رہیں گے اور کیسے متحدہ ہو کر ایک طاقت بن سکیں گے؟ کیا یہ حکمران بن پائیں گے؟
بزرگ اور بوڑھے پٹھان نے ایک نظر اسکے چہرے پر ڈالی تو وہ چونکا اسے اس جوان کی پیشانی پر حکمرانی کی لکیریں اور آنکھوں میں عزم دکھائی دے رہا تھا۔ اس نے کہا جوان یہ بتاو تم نے بکریوں، بھیڑوں، گائے، بھینسوں کے ریوڑ یا گلہ اور ہرنوں، زیبروں، ہاتھیوں کی ڈار، پرندوں کے غول، کبوتروں کی ٹکڑی اور بے شمار جنگلی جانوروں کے گروہ، جھنڈ اور جتھے دیکھے ہوں گے۔ کیا کبھی شیروں کا ریوڑ دیکھا ہے؟ اس نے جواب دیا نہیں شیر کبھی ساتھ نہیں رہ سکتے کیونکہ وہ اپنے ساتھ کسی کو برداشت نہیں کرتے۔ یہ ریوڑ، غول، گروہ، جھنڈ اور جتھے ساتھ رہنے کے شوق میں یا محبت سے نہیں بنتے بلکہ شیروں کا خوف انہیں متحد کردیتا ہےجو جب چاہے انہیں شکار کر لیتا ہے۔ شیروں کو ان میں سے کسی جانور سے خوف نہیں ہوتا اس لیے اکیلا جینا پسند کرتا ہے۔
پٹھان کی بے خوفی اسے یکجا نہیں ہونے دیتی اگر انہیں دشمن نہ ملے تو آپس میں ہی لڑتے رہتے ہیں۔ کیونکہ ان کا پیشہ لڑائی ہے جو ان کے خون میں شامل ہے پٹھان صرف اپنے سے زیادہ بہادر کو اپنا لیڈر مانتا ہے۔ یہی وجہ ہے اگر کسی کو حکمرانی مل بھی جائے تو وہ زیادہ عرصہ چل نہیں پاتی۔ نوجوان پٹھان نے کہا کہ میرے ذہن میں اس برصغیر کے لوگوں کے لیے بےشمار خواب اور منصوبے ہیں۔ میں وہ اصلاحات کرنا چاہتا ہوں جو مجھے ہمیشہ لیے زندہ رکھیں اور جن سے برصغیر میں ایک انقلاب برپا ہو سکتا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ مجھے تاقیامت ایک اچھے حکمران کے طور پر یاد رکھا جائے۔ صرف جنگجو اور بہادر ہونا کوئی بڑی بات نہیں ہےلوگوں کے دل جیتنا بڑا مشکل ہے۔ مجھے بس ایک مرتبہ اختیار مل جائے اور اختیار کا حصول صرف میری قوم کے متحد ہونے سے ہی ممکن ہے۔ ایک مرتبہ میں لوگوں کے دل جیتنا چاہتا ہوں۔
یہ نوجوان پٹھان فرید خان تھا جو بعد میں شیر شاہ سوری کے نام سے مشہور ہوا۔ بوڑھے بزرگ نے کہا کہ اگر حکمران بن جاو تو عدل و انصاف پر قائم رہنا باقی سب کچھ خود بخود ہوجائے گا۔ سوتیلی ماں اور بھائیوں کا ستایا یہ نوجوان شیر شاہ سوری جب بادشاہ بننے کے خواب دیکھ رہا تھا اس وقت شہنشاہ بابر کا عروج آسمان کی بلندیوں کو چھو رہا تھا۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ سلطنت مغلیہ کو شکست بھی دی جاسکتی ہے۔ یہی وہ نام ہے جس نے مغل بادشاہ ہمایوں سے اقتدار چھینا اور شمالی ہندوستان اور پھر بنگال پر قابض ہوا اور عدل وانصاف کی حکمرانی کے لیے اپنا لقب "سلطان العادل" اختیار کیا وہ جانتا تھا کہ اس کے پاس بہت کم وقت ہے۔ اس لیے وہ اپنے خواب جلد پورے کرنے کا عزم رکھتا تھا۔
"تاریخ شیر شاہی" میں درج اس کے یہ تاریخی سنہری حروف اس کے عزم کا اظہار ہیں کہ "عدل ہی اہم بنیاد اور ترقی کی جڑ ہے ناانصافی حکومت کی بنیادوں کو کمزور کرکے قوم کو برباد کردیتی ہے"۔ وہ کہتا تھا "جہاں کسان برباد ہوتا ہے، بادشاہ برباد ہوتا ہے اور کسان ہی ملک کی خوشحالی کا سر چشمہ ہیں"اس لیے برصغیر کی تاریخ میں زراعت کی سب سے بڑی اصلاحات کرکے اس نے کسانوں کو ترجیح دی۔ فرید خان نے کاشتکاری کے طریقے، لگان کی شرح اور وصولی میں اصلاحات کرکے انقلاب برپا کیا اور عام لوگوں کو خوشحال کردیا۔ اس نے یقینی بنایا کہ محافظ، فوج اور محکمہ مال کے اہلکار کسانوں پر ظلم نہ کریں۔
تاریخ دان شیر شاہ سوری کو ایک دور اندیش عادل بادشاہ کہتے ہیں۔ جنہوں نے نہ صرف کلکتہ سے پشاور تک جرنیلی سڑک بچھائی بلکہ مسافروں کی سہولت کے لیے اسے پھلدار اور سایہ دار درختوں، کنووں اور ہندو اور مسلمانوں کے لیے علیحدہ سرائے کے ساتھ ساتھ پولیس چوکیوں سے آراستہ کیا۔ عدل کے سخت ترین اور یکساں اصول اپنائے کہ "ایک بوڑھی اور ناتواں عورت بھی اپنے سر پر زیورات کی ٹوکری رکھ کر اکیلی سفر کر سکتی تھی اور شیر شاہ کی سزا کے ڈر سے کوئی نزدیک نہ آتا تھا"۔ ان سترہ سو سرائے میں سب کو کھانا مفت ملتا تھا۔
بےشمار خداداد صلاحیتوں کا مالک شیر شاہ سوری "پیسے کا باپ" مشہور تھا اور ریاضی اور معاشیات کا بہت بڑا ماہر تھا۔ ملک کی کوڑی کوڑی کا حساب خود رکھتا۔ ملک میں سکوں کا اجراء اور ان کی درجہ بندی اور ویلیو کا نظام بہتر بنایا اور کلمہ طیبہ اور خلفا راشدین کے نام والے سونے چاندی اور تانبے کے سکے جاری کیے۔ اسے حکومت کے لیے صرف پانچ سال ملے مگر اس کی معاشی، انتظامی اور سیاسی اصلاحات کی طویل فہرست ہے۔ جسے بعد میں مغلوں اور انگریزوں نے اپنایا اور اس پر عمل کیا انگریز آج بھی اسے برصغیر کا سب سے بڑا عوامی بادشاہ قرار دیتے ہیں۔ وہ لوگوں کے دل جیت چکا تھا۔
ایک برطانوی مورخ لکھتے ہیں"کسی حکومت حتیٰ کہ برطانوی حکمرانوں نے بھی ملک کا نظم ونسق میں گڈ گورنس اور انتظامی مہارت کا وہ ثبوت نہیں دیا جو شیر شاہ سوری نے دیا"۔ سب سے پہلے انصاف و عدل کا مثالی نظام، کڑا احتساب، زراعت اور کاشتکاری کا مکمل نظام، زمین کی پیمائش کا طریقہ کار، ملک بھر میں محفوظ اور اچھا سفر، ڈاک کا تیز ترین نظام، معاشی اصلاحات اور ٹیکس کا نظام، جعلی بھرتیوں اور تنخواہون کا خاتمہ، میرٹ پر بھرتی کی نگرانی، انتظامی اور سیاسی امور پر مہارت اور کنٹرول، رشوت سے نفرت اور اس کا خاتمہ، مذہبی راوداری، نئے قلعوں اور عمارات کی تعمیر، اور ساتھ ساتھبے شمار فتوحات اور جنگی مشن کا ایک بڑا سلسلہ بھی جاری رکھا اور یوں زرعی، مالی اور انتظامی اصلاحات نافذ کرکے برصغیر کو تعمیر وترقی کے ایک سنہرے دور میں داخل کر دیا، مگر زندگی نے اسے مہلت نہ دی۔
اگر شیر شاہ سوری مزید کچھ عرصہ زندہ رہتا تو ان کی سلطنت دنیا کی سب سے بڑی اور بے مثال سلطنت ہوتی "صولت شیر شاہی" میں مورخ جان کلارک مارس کے حوالے سے لکھا ہے کہ "شیر شاہ نہایت درجہ نیک طبیعت، عادل، ذکی وفہم، مدبر اور قابل ترین انسان تھے۔ جس طرح کہ وہ جنگی حکمت عملی اور مہمات میں مشہور تھے۔ اسی طرح ملکی انتظام میں بھی بہت قابل تھے " بے شک اس قدر کم وقت میں یہ سب ہوجانا کسی معجزہ سے کم نہیں تھا۔ ان کی وفات کے بعد وہی قوانین و قواعد ان کے بعد انکے خاندان یہاں تک کہ کہ اکبر اعظم کے واسطے ان کے نظامیہ اصول وآئین نمونہ بن گئے۔ جو بعد میں"آئین اکبری" کے نام سے مشہور ہوئے" یہ کہنا بےجا نہ ہوگا کہ اکبر بادشاہ نے بھی شیر شاہ کی پیروی کرکے ہی کامیابی حاصل کی اوراسکا اچھا پیشرو ثابت ہوا۔
آج ہمارا ملک پاکستان دنیا کی ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود جس معاشی بدحالی اور، سیاسی وانتظامی بد ترین صورتحال سے دوچار ہے اور ہمارے عوام اور خصوصی کسان جس مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں اور بےشمار مسائل میں گھر چکے ہیں۔ اس ملک کو آج پھر ایک شیر شاہ سوری جیسےتاریخی، محب وطن قائد اور باصلاحیت لیڈر کی ضرورت ہے۔ جو عوام کو متحد کرکے ملک میں سیاسی استحکام لا سکے اور تیز ترین اصلاحات کے ذریعے اس ملک میں انصاف وعدل کے ساتھ ساتھ ہماری زراعت وتجارت کو ترقی دے کر ملک کو معاشی بحران سے نکال سکے اور اس ملک کے بے پناہ وسائل کو بروکار لا کر اسے بیرونی قرضوں سے نجات دلا سکے۔ ہماری دفاعی صلاحیتوں میں مزید اضافہ کر سکے۔
ہمیں آج ایک اچھے نظام سے زیادہ ایک شیرشاہ سوری جیسی انصاف پسند، باصلاحیت اور دلیر قیادت اور ان جیسی انقلابی اصلاحات کی بھی ضرورت ہے۔ کیونکہ ملک اور قومیں نظام سے زیادہ قیادت اور اس نظام پر عمل دارآمد سے ہی آگے بڑھ سکتی ہیں۔ اگر انگریز شیرشاہ کی پیروی کرکے دنیا پر حکومت کرسکتے ہیں تو یہ مشکل نہیں کہ شیرشاہ سوری جیسے اجداد کے راستے پر چل کر ملک کو ترقی کی راہ پر ڈال دیا جائے۔