Akhri Station Ki Roshni
آخری اسٹیشن کی روشنی
زندگی کا سفر چھوٹا نہیں ہوتا ہم جینے اور سمجھنے کا یہ سفر ذرا دیر سے شروع کرتے ہیں۔ جب تک راستوں کی سمجھ آتی ہے تب تک لوٹنے کا وقت ہو جاتا ہے۔ سفر کے دوران جب آپ کا آخری اسٹیشن قریب آتا ہے تو ٹرین رکنے کے لیے بار بار پٹڑی بدلتی ہے اور آہستہ آہستہ رینگنے لگتی ہے ٹرین کی آواز بدل جاتی ہے یہ اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ آپ کی منزل اب قریب آچکی ہے اور آپ اپنا سامان سمیٹ کر اپنے اسٹیشن پر اترنے کے لیے تیار ہونے لگتے ہیں۔
ایک طویل اور کامیاب سفر کے بعد یہ بے حد خوشگوار لمحات آپ کو احساس دلاتے ہیں کہ ریلوے اسٹیشن پر آپ کے پیارے آپ کے منتظر ہیں اور آپ سے ملنے کے لیے بیقرار بھی ہوتے ہیں۔ رئٹائرمنٹ آپ کی عملی زندگی کا وہ موڑ ہوتا ہے جو ریل کی پٹڑی کی طرح آپ کے سفر کی سمت تبدیل کر دیتا ہے اور آپ زندگی کے ایک تیز ٹریک سے زندگی کے ایک آہستہ ٹریک پر چلنے لگتے ہیں اور ایک ایسے سفر سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں جس میں آپ کی مصروفیات اور معمولات بدل جاتے ہیں اور آپ اس وقت یاد کر سکتے ہیں کہ آپ پنی زندگی کی طویل اور تیز دوڑ میں محنت اور جدوجہد کر چکے ہیں اور اب بے شمار فکروں سے آزاد ہوکر وہ بے شمار کام کر سکتے ہیں جو ملازمت کے دوران خواہش کے باوجود اپنی مصروفیات کی وجہ سے آپ نہ کر سکے ہوں۔
ہم پوری زندگی اس انتظار میں گزار دیتے ہیں کہ ایک دن ہم اپنی من پسند زندگی جئیں گے لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ زندگی وہی ہے جو آج ہے کل تو بس ایک خواب ہے جس کی کوئی تعبیر نہیں ہوتی ہے ایک اچھا بڑھاپا بھی ایک سہانے خواب کی مانند ہوتا ہے جو قسمت والوں کو نصیب ہوتا ہے ورنہ کہتے تو یہ ہیں کہ سو بیماریوں کی ایک بیماری بڑھاپا ہوتا ہے۔ جسے نہ روکا جاسکتا ہے نہ اسکی رفتار میں کمی ممکن ہو سکتی ہے۔ یہ وہ بن بلایا مہمان ہے جو ایک بار آنے کے بعد واپس جانے کا نام نہیں لیتا مولانا الطاف حسین حالی فرماتے ہیں۔
دنیا عجیب سراے فانی دیکھی
ہر چیز یہاں آنی جانی دیکھی
جو آکر نہ جاے وہ بڑھاپا دیکھا
جو جاکر نہ آے وہ جوانی دیکھی
ملازمت کے دوران میرا بڑا دل کرتا تھا کہ پینٹ شرٹ اور ٹائی اتار کر شلوار قمیض اور کرتا پہنوں سر پر پگڑی اور ٹوپی اور پاوں میں عام سے چپل پہن کر اپنے ہم عمر لوگوں کے ساتھ بلا روک ٹوک دنیا کی پروا کئے بغیر گھومتا پھروں اپنی مرضی سے اُٹھوں اپنی مرضی سے کھاوں، اپنی مرضی سے سووں، اپنی مرضی سے کام کروں، روزآنہ شیو کرنے سے جان چھڑا لوں اور جو کرنا چاہوں کروں جو نہ کرنا چاہوں کوئی مجھ سے کرا نہ سکے۔
رئٹائرمنٹ کے بعد احساس ہوا کہ یہ نہ پہلے ممکن تھا اور نہ اب ممکن ہے، اب ایک مصروف اور تیز ٹریک سے زندگی کی یہ گاڑی ایک آہستہ ٹریک سے ہوتی ہوئی زندگی کے آخری پلیٹ فارم کی جانب رینگ رہی ہے جہاں میرے ہمسفر بھی مجھ جیسے مسافر ہیں جو سب اس آخری پلیٹ فارم پر اترنے کی تیاری کرتے نظر آتے ہیں اور اپنا اپنا سامان پیک کرکے بیٹھے ہیں ایک دوسرے کو نیکی اور عبادت کی تلقین کرتے نظر آتے ہیں۔
ہم بوڑھوں کا یہ پر لطف سفر اپنی منزل کی جانب جاری ہے معصوم بچپن، خودسر اور گمراہ جوانی، محتاج اور بےبس بڑھاپے کے بعد بےرحم موت کا آخری اسٹیشن ہوتا ہے بس یہی زندگی ہے جو اپنے اختتامی اسٹیشن کی جانب رواں دواں ہے جہاں سے مزید سفر ہمیشہ کے لیے ختم ہو جاتا ہے اور ایک نہ ختم ہونے والے اس سفر کا آغاز ہوتا ہے جس کا وعدہ کیا گیا ہے۔
ترے آزاد بندوں کی نہ یہ دنیا نہ وہ دنیا
یہاں مرنے کی پابندی وہاں جینے کی پابندی
بڑھاپے کی بےبسی اور محتاجی کے بارے میں ہمارے استاد شاہ محمد صاحب کہتے تھے کہ جب بارش میں پکوڑوں اور سموسوں کی بجاے آپ چھتری تلاش کرنے لگیں تو سمجھ لیں بڑھاپا آچکا ہے جھریوں زدہ چہرے، آنکھوں پر لگی موٹے شیشوں کی عینک اور مصنوعی یا ٹوٹے ہوے دانتوں اور سفید اور خضاب سے کالے بال والے ان خوبصورت اور دلوں کے سچے لوگوں کے ساتھ اس سفر میں نماز پڑھنا، بیٹھنا اور گفتگو کرنا بھی خوب ہے۔
آخرت کی فکر اور موت سے خوفزدہ ان لوگوں کی باتیں سن سن کر مجھے بھی اپنی طعبیت میں عجیب سا خوف اور بڑھاپا محسوس ہونے لگا ہے خود کو کمزور کمزور سمجھنے لگا ہوں میری عادتیں خود بخود بدلنے لگی ہیں۔ پوری زندگی کبھی دن میں تو سو کر بھی نہیں دیکھا تھا لیکن اب ہر گھنٹے بعد قیلولہ کرنے کو دل کرتا ہے۔
آرام کے تصور سے آگاہ ہوگیا ہوں ان دوستوں کی دیکھا دیکھی اپنی صحت کے بارے میں سوچ بیدار ہوچکی ہے جب کسی کی بیماری کے بارے میں سنیں تو اس کی ساری نشانیاں خود میں محسوس ہوتی ہیں۔ جب ان اپنے ہم عمر لوگوں کی محفل میں گٹے یا گوڈوں کے درد پر بات ہو رہی ہو تو فوراََ کان کھڑے ہو جاتے ہیں بلڈ پریشر، شوگر، بدہضمی، سے بچاو کے مضامین پڑھنے اور گفتگو میں دلچسپی بڑھ گئی ہے۔
خالص شہد، کلونجی، لونگ، الائچی اور دارچینی کی افادیت پہ سیر حاصل گفتگو کرنے کا شوق پیدا ہونے لگا ہے دیسی نسخوں اور تعویز گنڈوں پر یقین سا آنے لگا ہے ہر اپنے ہم عمر یا کم عمر کی بیماری یا وفات کا سن کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اب اپنا نمبر بھی آچکا ہے۔ سادگی اور کفایت شعاری کی عادت تو آمدنی کم ہونے سے خود بخود ہوچکی ہے، البتہ فضول خرچی کی عادت ترک کرنے کی افادیت پہ دوسروں کو لیکچر دینے کو دل کرتا ہے۔
باہر کے کھانوں میں بےشمار نقائص اب صاف نظر آنے لگتے ہیں باہر کی چاے تو اب زہر لگنے لگی ہے چکنائی، نمک، چینی کے نقصان اور کچے سلاد کی افادیت سمجھ آنے لگی ہے۔ شاید اسکی ایک بڑی وجہ گرتی ہوئی صحت کے ساتھ ساتھ محدود آمدنی اور ساتھ ہی بیوی بچوں اور لوگوں کی سختی سے روک ٹوک بھی شامل ہوتی ہے یا پھر ڈاکٹروں اور حکیموں کی جانب سے لرزا دینے والی ہدایات ہیں یا پھر اس بارے میں سوشل میڈیا کا ڈرا دینے والا وہ مخصوص پروپیگنڈا بھی شامل ہے۔ اب سالن میں سے ادرک، پودینہ اور ہرا دھنیا چن چن کر کھانے کو دل کرتا ہے۔ سالن سے چکنائی ہٹا کر اور چاےُ بغیر چینی کے پی کر ذہنی تسکین حاصل ہوتی ہے اب دعوتوں پر جانے سے ایک انجان سا خوف ہونے لگا ہے۔
اپنے ہم عمر لوگ یا خود سے چھوٹوں کو بھائی جان یا بھائی صاحب کہنے سے دل کو تسکین ملتی ہے وہ اگر انکل یا بابا جی کہہ دیں تو عجیب لگتا ہے، بعض اوقات کوئی بزرگ کہہ دے تو عجیب سا لگتا ہے ہر سامنے والا اپنے سے زیادہ بوڑھا لگتا ہے۔ شاید اسی لیے اپنی آج سے دو سال پہلے کی تصاویر دیکھ کے جوانی کا اور بڑھاپے میں فرق کرنے لگا ہوں اور اپنی ان تصاویر کو دیکھ کر دل خوش ہوتا ہے بچپن، لڑکپن جوانی کے اپنے قصے اور واقعات سنانے اور بیان کرنے سے اپنی احساس کمتری کو دور کرنے کا موقع ملتا ہے۔ ہاتھ کی گھڑی یا موبائل فون خریدتے اور پہنتے وقت ڈیزائن اور خوبصورتی سے زیادہ اس بات کا خیال رہتا ہے کہ ہندسے بڑے بڑے ہوں تاکہ عینک کے بغیر با آسانی پڑھے لیں۔ پرانے سوٹ اور ٹائی وغیرہ سیلاب زدگان کو عطیہ کر چکا ہوں۔
جدید فیشن والے اور ٹائٹ کپڑے زہر لگنے لگتے ہیں اب تو قمیض کے کف اور کالر لگوانے بھی چھوڑ دئیے ہیں۔ اب تو ٹی وی دیکھتے ہوئے نیند آنے لگتی ہے اکثر سو جاتا ہوں کریڈیٹ کارڈ کے استعمال سے ڈر لگنے لگا ہے کہ واپسی کیسے ہوگی اے ٹی ایم سے پیسے نکالنے کے بعد کئی کئی مرتبہ گننے پڑتے ہیں رقم خرچ کرکے بھولنے کی عادت اس قدر بڑھ چکی ہے کہ رقم گم ہونے کا گمان ہونے لگتا ہے اور یاد داشت میں دن بدن کمی ہوتی چلی جارہی ہے دروازہ لاک کرکے دو بار چیک کرکے ہی چین آتا ہے۔ روزآنہ کی اپنی دوائی تک کھانا اکثر بھول جاتا ہوں اور بعض اوقات تو بھول کر دوسری مرتبہ بھی کھا لیتا ہوں۔
گاڑی پارک کرنے کے بعد ایک گھنٹے تک یہی وہم ستاتا رہتا ہے کہ ہیڈ لائٹس کھلی ہیں یا پھر گاڑی کا گیٹ صیح بند نہیں ہوا؟ ایک موزہ کالا اور ایک گہرا نیلا پہن کر لگتا ہے کہ کسی کو فرق محسوس نہیں ہوگا۔ بسا اوقات تو سویٹر الٹا پہن کر پورا دن گزار لیتا ہوں۔ جی ہاں بچپن جوانی سے بڑھاپے تک کا یہ سفر بڑا دلچسپ ہے بچپن اور جوانی تو لمحوں میں گزر گئے وقت کا پتہ ہی نہ چلا مگر بڑھاپے کے دن رات لگتا ہے بڑے طویل ہوتے ہیں اور سفر بھی لمبا لگتا ہے لیکن آخر کار اس سفر کا اختتام ہونا ہی ہے دور سے آخری اسٹیشن کی مدہم مدہم روشنیاں آخری منزل کی نشاندہی کر رہی ہیں، جہاں بزرگوں کے چند ہیولے ہمارے منتظر ہیں۔