Aik Mard e Qalandar Ki Yaad
ایک مرد قلندر کی یاد
آج سے پینسٹھ سال پہلے کی بات ہے ایک مضبوط جسامت اور گہری سانولی رنگت والا کوٹ پینٹ اور ٹائی میں ملبوس بہت ہی اسمارٹ شخص اپنی ایک ایسی سایکل پر سوار جس کے کیریر پر ایک بکس بندھا تھا اور جس سایکل کے درمیان کپڑے کا ایک تھیلا بندھا تھا، اس بکس اور اس تھیلے میں گرم تندور کی روٹیاں بھری ہوتی تھیں، جو صبح تہجد کے وقت ریاست بہاولپور کے لنگر خانے سے پکوا کر لاتا تھا اور پھر ڈیرہ نواب صاحب کے اردگرد تقریبا" ایک سو آنکھوں، پیروں، ہاتھوں اور ذہنی معذوروں کو ان کے گھروں پر پہنچاتا تھا اور یہ کام وہ صبح آٹھ بجے سے قبل اپنی اصل ڈیوٹی شروع کرنے سے پہلے انجام دیتا تھا اور تعجب کی بات یہ ہے کہ یہ کام وہ اپنی خواہش اور بلاکسی معاوضے کے روزآنہ انجام دیتا تھا۔
یہ کوئی معمولی آدمی نہ تھا یہ پاکستان آرمی کا رئٹائرڈ آفسر تھا۔ جس نے پاکستان کے سب پہلے فرسٹ او ٹی ایس منگلا سے کمیشن حاصل کیا تھا (یاد رہے کہ ہمارے موجودہ آرمی چیف صاحب بھی سترہ آو ٹی ایس سے تعلق رکھتے ہیں ) فرسٹ آو ٹی ایس کے بہترین کیڈٹ قرار پاے اور فرسٹ پوزیشن کا اعزاز اپنے نام کیا وہ پاکستان کے پہلے کمیشنڈ آفسرز میں شامل تھے۔ پاکستان آرمی سے رئٹائرمنٹ کے بعد وہ اس وقت ریاست بہاولپور کی فوج کے جنرل جے ایچ مارڈن کا پرسنل سکریٹری ہونا بڑا اعزاز تھا یہ وہ بہادر شخص تھا جس نے آزادی کشمیرکے لیے لڑتے ہوے شجاعت کی اعلیٰ مثال قائم کی اور اسکے زیر کمانڈ لڑنے والے شہید نائیک سیف علی جنجوعہ کو کشمیر کا سب سے بڑا اعزاز ہلال کشمیر دیا گیا۔
جو بعد میں ان ہی کی کوشش سے نشان حیدر قرارپایا پھر 1965ء کی جنگ میں دوبارہ کشمیر کی جنگ کا حصہ بنا اور پھر 1971ء کی جنگ میں مشرقی پاکستان میں جیسور کے محاذ پر بہادری سے لڑتے ہوے زخمی ہو کر دو سال بھارتی جنگی قیدی رہا ملک کے خلاف تمام جنگوں میں حصہ لیکر بےشمار جنگی اعزازت سے نوازا گیا۔ جی ہاں لوگ انہیں مجاہد کشمیر لفٹیننٹ رئٹائرڈ محمدایاز خان کے نام سے آج بھی جانتے ہیں، جنہیں بابا سماج کا خطاب بھی دیا گیا تحریک قیام پاکستان کی جدوجہد میں اپنے بیوی بچوں کی شہادت اور اپنے گھر بارکی تباہی کے صدمے اٹھانے کے باوجود ان کا پاکستان اور یہاں کے غریب لوگوں کی خدمت کا جذبہ کبھی سرد نہ پڑسکا تھا علاقے بھر کے معذور اور مساکین صبح اپنے دروازوں پر ان کے منتظر رہتے تھے۔
ان کی پوری زندگی یا تو پاکستان کی حفاظت کے لیے جنگ کے میدانوں میں گزری یا پھر دکھی انسانیت کی خدمت میں بسر ہوئی۔ میرے لیے یہ اعزاز بہت ہے کہ وہ محب وطن انسان میرے والد بزرگوار تھے۔ جن کی جنگی اور سماجی خدمات کی ایک طویل داستان ہے جو ہندوپاکستان کی تاریخ کا حصہ بن چکی ہیں ان کے جنگی کارنامے اور سماجی خدمات ہماری تاریخ کا وہ زریں باب ہیں جس پر جتنا بھی فخر کیا جاے کم ہوگا، انہوں نے اپنی پوری زندگی دکھی انسانیت کے لیے وقف کردی تھی ان کی زندگی کے ہر ہر پہلو پر لکھنے کے لیے مضمون یا کالم نہیں بلکہ کئی کتابیں درکار ہیں وہ ایک عام آدمی کی زندگی گزارنے والے درحقیت اتنے ہی خاص تھے۔
آج ان کی اٹھارویں برسی کے موقع پر بطور باپ ان کو خراج تحسین پیش کرنا اپنا فرض سمجھتا ہوں اور کہتے ہیں والد کے دوست بھی والد کی جگہ ہوتے ہیں، اس لیے ان چند قریبی دوستوں کے ان کے بارے میں تاثرات بھی لکھوں گا یوں تو ان کے بےشمار دوست اور چاہنے والے تھے مگر کچھ کا تذکرہ ان کی زبانی سنا اور کچھ سے مجھے ذاتی طور پر ملنے کی سعادت حاصل ہوئی جن میں حکیم محمد سعید دہلوی شہید ہمدرد ٹرسٹ، سردار عبدالقیوم خان مرحوم صدر آزاد کشمیر جو جہاد کشمیر میں ساتھ رہے، سید نزہت حسین جعفری مرحوم چیرمین واپڈا جو اباجی کے پہلی جماعت سے کلاس فیلو اور لنگوٹیے دوست تھے۔
حکیم محمدسعید دہلوی صاحب ہر سال یا تو خود تشریف لاتے یا پھر اباجی کو کراچی بلواتے ایک مرتبہ جناح ہال احمدپور شرقیہ میں اپنے خطاب میں انہوں نے فرمایا "ایاز خان میرے لیے خدمت انسانیت کا رول ماڈل ہیں" سرادر عبدالقیوم خان مرحوم تین مرتبہ اباجی سے ملنے ہمارے گھر تشریف لاے اور قیام کے دوران مجھے ان کی خدمت کا موقع ملا وہ کشمیر کی آزادی تک فرش پر ہی سوتے تھے وہ فرمایا کرتے تھے"ایازخان کی آزادی کشمیر کے لیے خدمات کی کوئی مثال نہیں ملتی "سید نزہت حسین جعفری مرحوم چیرمین واپڈا بھی رہے ان سے خانیوال میں ملاقات ہوئی وہ اباجی کے کلاس فیلو اور قریبی دوست تھے انہوں نے مجھے بتایا کہ "ایازخان مجھ سے بھی بہت زیادہ قابل اور ذہین اور دوستوں سے بہت مخلص اور محبت کرنے والا تھا۔
اباجی کے ایک ساتھی جنرل برکت صاحب سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا جاوید تمہارا باپ بہترین آرمی آفسر اور کمانڈر تھا۔ آزاد کشمیر رجمنٹ کے بریگیڈیر (ر) دلاور صاحب انہیں اپنا بہتریں ساتھی بتاتے ہیں۔ سید یاسر حسین جعفری مرحوم بانی پاکستان سوشل ایسوسی ایشن فرماتے تھے" ایاز خان میرے سگے بھائٰی کی طرح ہے "نواب صلاح الدین عباسی امیرآف بہاولپور اب بھی انہیں اپنا چچا اور استاد کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔ شہزادہ سعید الرشید عباسی مرحوم انہیں اپنا استاد اور اتالیق کہتے تھے۔ ان کے دوستوں میں لفٹیننٹ راوُ سلیمان آف کالہنور نواب سجاد علی خان نواب آف کرنال، کرنل شیر محمد سلوہ، سردار ابراہیم خان آف کشمیر، جنرل احمدعلی، جنرل سوار خان، جنرل عتیق الرحمان، نواب اورنگزیب خان نواب آف سوات اور محمودعلی چیرمین نیشنل کونسل مرحوم کے نام بھی شامل تھے۔
وہ بہترین فوجی آفیسر، بہترین منتظم، بہترین صحافی، بہترین سماجی لیڈر، بہترین مذہبی سکالر، بہترین مقرر، بہترین مصنف اور بہترین سوشل ورکر تھے۔ مسز جنرل مارڈن، عبدالستارایدھی مرحوم اور بیگم وقارالنسانون صاحبہ کے ساتھ کام کرنے کا شرف بھی حاصل رہا اور ان کے تعاون سے احمدپورشرقیہ میں زنانہ ہسپتال، مویشی ہسپتال اور ٹی بی ہسپتال قائم کیا۔ ریڈکراس (ہلال احمر) اور پاکستان ٹی بی ایسویشن کے عہدیدار بھی رہے نواب بہادر جنگ اور قائداعظم کی تنظیم پاکستان سوشل ایسوسی ایشن کے تاحیات صدر رہے۔ پاکستان میں پہلے بیت المال کا قیام ان ہی کہنے پر جنرل ضیاالحق صاحب نے بہاولپور سے ہی کیا۔
پاکستان میں پہلی سوشل ویلفیر اورگنائزیشن قائم کی اور پاکستان میں محکمہ سوشل ویلفیر کے قیام میں اہم کردار ادا کیا۔ اپنے ایک ساتھی نائیک سیف علی جنجوعہ شہید کو نشان حیدر کا اعزاز دلانے کے لیے تیس سال تک طویل جدوجہد کی اور کامیاب ہوے۔ سولجر بورڈ وزارت دفاع کے ویلفیر آفیسر رہے اور سابق فوجیوں کے لیے خدمات انجام دیں بےشمار نوجوانوں کی رہنمائی کرکے پاکستان فوج میں کمیشن دلایا۔ پورے پاکستان میں ان کے پرستار آج بھی انہیں یاد کرتے ہیں۔ ضلعی امن کمیٹی اور عیدمیلاد کمیٹی کے مرکزی عہدیدار ہوتے تھے۔ جب نواب امیرآف بہاولپور گورنر پنجاب بنے تو ان کے ساتھ بطور سوشل سیکریٹری کام کرتے رہے۔ صحافت سے گہری دلچسپی تھی روزنامہ زمیندار لاہور، اورتجدید عہد سے وابستہ رہے احمدپورشرقیہ سے پہلا روزنامہ "روہی " شائع کرتے رہے۔
مشہور صحافی مرزا منصور یاور مرحوم انہیں درویش صحافی کہتے تھے اور ان کی زندگی پر ایک کتاب بھی لکھی تھی۔ انہیں اردو، عربی، فارسی اور انگریزی زبان کی تقریر اور تحریر پر مکمل عبور حاصل تھا۔ ان کی ملک اورقوم کے خدمات کی ایک طویل داستان ہے جسے کسی ایک مضمون میں بیان کرنا ممکن نہیں ہوسکتا۔ ان کے اور ان سے منسوب واقعات کے بارے میں بہت سے مضامین اور کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ ان کے بارے میں مجھ سے بھی زیادہ معلومات ان کے قریبی ساتھیوں مشہور صحافی اور کالم نگار شیخ عزیزالرحمان صدر میڈیا کلب احمدپور شرقیہ اور رحیم طلب سابقہ ڈائریکٹر انفارمیشن پنجاب کے پاس ہیں جو وہ اپنی تحریروں ورتقاریر میں بیان کرتے رہتے ہیں۔ ان کے بھتیجے شاہ نواز خان کواڈینیٹر پی ایس آو پنجاب سید عمار حسین جعفری بانی پاکستان ڈیجیٹل اور صدر پی ایس اے پاکستان اور ڈاکٹر عبدالرحمان ناصر صدر پی ایس اے ساوتھ پنجاب جو ان کے فرزند روحانی اور خصوصی شاگرد ہیں ان کے بعد آج بھی ان کا یہ فلاحی مشن جاری رکھے ہوے ہیں۔
اباجی، باپ، والد جس نام سے بھی یاد کیا جاے تو ایک ایسی شخصیت کا روپ سامنے آتا ہے جو اپنی اولاد کے لیے شفقت، پیار، محبت اور تحفظ کی سب سے بڑی علامت ہوتا ہے بےشک باپ اللہ کی عظیم ترین نعمت ہوتے ہیں اور اولاد کے لیے ایک سایہ دار درخت جس کے سایہ میں بچے نہ صرف محفوظ بلکہ ہر غم اور ستم سے آزاد ہوتے ہیں، نہ کوئی فکر ہوتی ہے، نہ ہی کسی کاڈر، باپ حوصلہ ہوتا ہے ایک ایسا حوصلہ جو صرف اور صرف باپ کے ہونے تک ہی ہوتا ہے سترہ مارچ 2006ء وہ سیاہ دن تھا جب میں اس عظیم حوصلے، گھنے ساےُ، اور نعمت خداوندی سے محروم ہوگیا محسوس ہوتا تھا کہ مجھ بدنصیب پر آسمان ٹوٹ پڑا یا پاوں تلے سے زمین نکل گئی ہے وہ زندگی جہاں بہاریں ہی بہاریں تھیں وہاں ایک ایسی خزاں نے ڈیرہ ڈالا کہ خوشیاں روٹھ گئیں۔
زندگی میں وہ پل کبھی نہیں بھولتا جب کوئی اتنی محبت کرنے والا جدا ہوجاے جسکا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا پھر وہ باپ جو ایسا درخت ہو جو آگ اور دھوپ کو خود برداشت کرتا ہو اور اپنی اولاد کو سخت ترین گرمیوں میں بھی ٹھنڈک اور راحت فراہم کرتا ہو جو اولاد کو تمام آسائشیں دینے کے لیے اپنی زندگی اور اپنی جان کی پرواہ نہ کرے اور جسکی شفقت بھری نظر اولاد کو یک دم تروتازہ کردیتی تھی۔ اباجی وہ درویش صفت باپ تھے جو بےشمار دنیاوی اہم ترین عہدوں پر فائز رہنے کے باوجود کسی بھی انسانی تکبر سے بہت دور رہتے تھے جن کی ساری توجہ اپنی اولاد کے لیے رزق حلال کمانے اور رزق حلال سے پرورش کرنے پر تھی پوری زندگی اپنا ذاتی مکان نہ بناسکے کھانے پہننے اور رہن سہن میں صحابی رسول حضرت ابوذر غفاریؒ کے پیرو کار تھے۔
کہتے ہیں کہ کچھ لمحات ایسے ہوتے ہیں جو زندگی میں آنا ضروری ہوتے ہیں مگر وہی لمحات انسانی ذہن پر انمٹ نقوش چھوڑ جاتے ہیں اگر قدرت نے اس جہان میں امید، صبر کی نعمت نہ رکھی ہوتی تو انسان جیتے جی مر جاتا۔ اباجی کی جدائی ایک ایسا ہی دکھ ہے جو بھلاے نہیں بھولتا۔ اباجی ریڈیو کے مستقل سامع تھے ریڈیو پاکستان اور بی بی سی اپنے چھوٹے سے ریڈیو پر اہتمام سے سنتے تھے اخبار پوری زندگی منگواتے اور پڑھتے تھے بڑوں سے سنا ہے کہ عہد جوانی میں بڑے رعب داب والے تھے مگر میں نے انہیں رات کی تاریکی میں بارگاہ خداوندی میں جھکے آنسو بہاتے پایا لیکن عام زندگی میں کسی دکھ یا غم کی حالت میں کبھی روتے نہ دیکھا۔
اپنے پیرصاحب خواجہ حسن نظامیؒ ا اپنے والد مرحوم ور اپنے شہید بیوی بچوں کو بہت یاد کرتے ان کے روزمرہ کے اذکار میں درود پاک کو خصوصی اہمیت حاصل تھی عشق رسول ان کی رگ رگ میں بسا تھا اہل بیت سے محبت کو اپنی زندگی کا حصہ سمجھتے تھے سنی العقیدہ ہونے کے باوجود شہر میں ان کے بغیر نہ کوئی محفل نعت ہوتی اور نہ مجلس حسینؑ ہوتی اس لیے فریضہ حج اور حاضری روضہ رسول کے ساتھ ساتھ زواری کا شرف بھی حاصل ہوا۔ ہر ہفتہ اپنے دوست اور مشہور نعت خوان ملک غلام محمد مرحوم اور حافظ اللہ داد مرحوم سے نعت سننے کا اہتمام کرتے وہ وراثتی طور پر دمے کے مریض تھے مگر جنگی قید کے دوران یہ دمہ ختم ہوگیا مگر عمر کے ساتھ ساتھ کمزوری بڑھتی چلی گئی کئی سال چلنے پھرنے سے محروم رہے لیکن حوصلہ اور ہمت ویسا کا ویسا ہی رہا۔
آخری ملاقات پر کہنے لگے میں اپنی اولاد کے لیے کچھ بھی نہیں چھوڑ کر جارہا تاکہ تمہیں بانٹنے کی ضرورت نہ پڑے میرے پاس میری ایک ہی قیمتی زندگی تھی جو میں نے تمہاری تربیت پرلگا دی البتہ میری باتیں یاد رکھنا اور ان پر عمل کرنا یہی میری وراثت ہے میرے دوستوں کا احترام کرتے رہنا کیونکہ ان کا درجہ بھی والد جیسا ہی ہوتا ہے۔ میرے عہدے، اعزازت، القابات اور میری کسی حیثیت پر فخر نہ کرنا تمہارے لیے یہی سب سے بڑا فخر ہونا چاہیے کہ تمہارا باپ ایک سچا عاشق رسول ہے۔ شہادت کی خواہش دل میں لیے بےشمار اختیارات اور دنیاوی وسائل کے باوجود خالی ہاتھ جاتے ہوے انہیں یہ اطمینان ضرور رتھا کہ وہ اپنا فرض پورا کر چکے ہیں اور اپنے بچوں کو ایسی وراثت دے کر جارہے ہیں جو درویشوں کا ہی خاصہ ہو سکتا ہے۔
باپ کا رشتہ ان کے چلے جانے کے بعد بھی ٹوٹتا نہیں وہ اس دنیا ےُ فانی سے چلے جانے کے باوجود ہم سے وابستہ رہتے ہیں ان کی نیک دعائیں ہمیشہ ہمارے ساتھ رہتیں ہیں اور ان کے اقوال اور ہدایات ہمیشہ اولاد کی زندگی میں مشعل راہ ہوتی ہیں۔ انہیں ہم سے بچھڑے ہوے اٹھارہ سال گزر چکے مگر ان کی یادیں اور ان کی جدائی کا درد آج بھی تازہ ہے آج بھی اشک اور آہیں تنہائی کے لمحوں میں صبر واستقامت کے بندھ توڑ کر بہہ نکلتے ہیں ان کی نصیحت ٓاموز باتیں آج بھی کانوں میں گونجتی ہیں تو ان کا عکس میری آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے اور آج بھی ان کی یاد خوب خوب رلاتی ہے۔ اللہ انکے درجات بلند فرماے آمین!