Wednesday, 15 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Ibn e Fazil/
  4. Zar Zair e Aab

Zar Zair e Aab

زر زیرِ آب

آپ کسی اچھی کمپنی کی جیلی کے اجزاء ترکیبی دیکھیں گے اس میں چینی، رنگ اور ذائقہ کے ساتھ ایک جزو ملے گا کیراجینان carrageenan کیرا جینان جسے کیراگینن بھی کہا جاتا ہے۔ بالکل مکئی کے نشاستہ کی طرح کا نشاستہ ہوتا ہے جو پانی اور دیگر مشروبات کو بالکل اسی اصول پر گاڑھا کرتا ہے جس طرح کسٹرڈ دودھ کو۔ حتی کہ اس کی زیادہ مقدار پانی کے ساتھ مل کر سخت جیلی کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ کیراجینان جیلی اور مشروبات کے علاوہ دودھ اور اس سے بنی اشیاء آئسکریم، ملک شیکس، چاکلیٹ شیکس، پڈنگ، پنیراور دہی وغیرہ میں بھی ڈالا جاتا ہے۔ خاص طور پر مصنوعی دودھ اور سویا ملک آلمنڈ ملک وغیرہ کا لازمی جزو ہوتا ہے۔

دودھ اور جیلی کے علاوہ اس کا سب سے بڑا استعمال گوشت سے بنی اشیاء ہیں۔ کم چکنائی والے چکن نگٹس کا اس کے بنا بننا محال ہے۔ کھانے پینے کی اشیاء کے علاوہ کیراجینان دیواروں پر کیے جانے والے واٹر ایملشنز، ٹوتھ پیسٹ، شیمپو، باڈی لوشنزاور کریمز، اور اس طرح کی دیگر صنعتی مصنوعات میں بھی بکثرت استعمال ہوتا ہے۔ پاکستان میں کیراجینان نہیں بنتا لہذا ہم اپنی ضرورت کا سارا کیراجینان درآمد کرتے ہیں۔ کیراجینان سمندر میں پیدا ہونے والی مختلف الجیز algeas، کیٹونی cottonii اور سپینوسم spinosum میں سے نکالا جاتا ہے۔ کیٹونی کی سب سے پہلے دریافت آئرلینڈ کے ساحلوں پر ہوئی تھی اس نسبت سے اسے آئرش موس Iris moss بھی کہتے ہیں۔

کیٹونی اور اپینوسم کی مانگ میں پچھلے چند سال میں بڑی تیزی سے اضافہ ہوا ہے اس کی ظاہر ی وجہ کیراجینان کے استعمال میں اضافہ ہے۔ پچھلے کچھ سالوں میں اس کی دنیا میں سالانہ فروخت بیس کروڑ ڈالر سے قریب ایک ارب ڈالر سالانہ تک جاپہنچی ہے اور اس میں اوسطاً پانچ فیصد سالانہ کا اضافہ ہورہا ہے۔ کیٹونی کی سب سے زیادہ پیداوار انڈونیشیا، فلپائن اور چین میں ہوتی ہے۔ جبکہ بھارت بھی اب اس کی پیداوار کی دوڑ میں شامل ہوا کا ہے۔ بھارت کے جنوب مغربی سمندر میں لاکا دیو جزیروں laccadives میں بھارتی ادارے انڈین کونسل آو ایگریکلچر ریسرچ کے ذیلی ادارے میرین فشفیز ریسرچ انسٹیٹیوٹ نے اس کی کامیابی سے کاشت کی ہے بلکہ وہاں کے لوگوں کو تربیت دے کر بڑے پیمانے پر اس کی تجارتی پیداوار شروع کردی ہے۔ انہوں نے اس کو "بلیو ریولوشن" یعنی نیلے انقلاب دیا ہے۔

سال 2022 میں کیٹونی اور دیگر قابل استعمال قیمتی جڑی بوٹیوں کی کاشت کا تیس ہزار ٹن کا ہدف مقرر کیا ہے۔ کیٹونی کی افزائش کے لیے بہترین راہنمائی تو سمندری حیات کے ماہرین ہی کرسکتے ہیں۔ مگر میرے محدود علم کے مطابق اسے اُگانا دشوار نہیں، ایسے ساحل سمند پر جہاں پانی کی گہرائی ڈیڑھ فٹ سے سات فٹ تک ہو وہاں اسے اُگایا جاسکتا ہے۔ ہمارے خیال میں تو پاکستان کے ہزاروں میل لمبے ساحل کے ساتھ لاکھوں ایکڑ زیرِ آب اراضی اور علاقے کا درجہ حرارت ان کی افزائش کے لیے انتہائی موزوں ہے۔ کیٹونی کی کاشت زمین میں نہیں ہوتی۔ بلکہ پچیس تیس فٹ لمبے چار بانس آپس میں جوڑ کر چارپائی کی شکل بنالیتے ہیں۔ جن میں رسیاں باندھ کر ایک جال کی شکل دی جاتی ہے جس پر اس کی پنیری لگا دی جاتی ہے اور اس پورے جال کو اٹھا کر پانی میں رکھ دیتے ہیں۔

تقریبا پندرہ سے بیس دن میں اس کا وزن دوگنا اور چالیس سے پینتالیس دن میں چارگنا ہوجاتا ہے۔ پینتالیس دن بعد ایک تہائی کاٹ لیا جاتا ہے یوں ہر پینتالیس دن بعد آپ کو فصل ملتی رہتی ہے۔ ایسی زبردست کھیتی جس میں نہ دوبارہ بیج بونا ہے۔ نہ کبھی کھاد دینا ہے نہ پانی دینے کی مشقت بس ایک بار بانس کے کھیت بنالیں پھر وقت مقررہ پر فصل اتار کر بیچتے رہیں۔ ہمارے ساحلوں پر ماہی گیروں کی بستیاں دیکھیں تو عسرت ویاس کی ایسی ایسی داستانیں آپ کو ملیں گے کہ خدا کی پناہ۔ ہم ایسے سب ماہی گیروں کو یہ کام سکھا کر باآسانی خوشحال کرسکتے ہیں۔ میری سمندری حیات کے ماہرین سے درخواست ہےکہ فوری طور پر کیٹونی اور اس طرز کی دوسری جڑی بوٹیوں کی پاکستانی سمندری حدود میں افزائش پر کام کریں۔

کیونکہ دستیاب معلومات کے مطابق پاکستان بننے سے قبل انگریز دور میں موجودہ پاکستان کی سمندری حدود میں موجود مفید پودوں کا ایک سروے ہوا تھا اس کے بعد اس میدان میں نہیں معلوم کوئی کام ہوا یا نہیں۔ ہم چشم تصور سے دیکھتے ہیں تو بہت بھلے مناظر دکھائی دیتے ہیں۔ پاکستان کے ساحلوں پر میلوں میل کم گہرائی والے حصہ میں لاکھوں ڈالر کیٹونی اور دوسری آبی نباتات کی افزائش ہورہی ہو اور زیادہ گہرائی میں سیپیوں کے ہزاروں فارم ہوں، جہاں کروڑوں سیپیوں میں اربوں روپے کے موتی پرورش پارہے ہوں۔ اللہ کرے وہ دن جلد آئے جب"میرے ایک بھی ہم وطن کے لیےحیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو"

Check Also

Jis Par Ehsan Karo Uske Shar Se Bacho

By Syed Mehdi Bukhari