Jis Par Ehsan Karo Uske Shar Se Bacho
جس پر احسان کرو اس کے شر سے بچو
جس پر احسان کرو اس کے شر سے بچو۔۔ حضرت علی ابن ابی طالبؑ کا یہ فرمان ہے۔ شجاعت، خطابت، فصاحت و بلاغت حضرت علی کی ذات مبارک کا خاصہ رہی۔ آپ کے خطابت و ارشادات پر جامع الازہر مصر نے "نہج البلاغہ" کی صورت کتاب شائع کی۔
یہ جس ارشاد کو سرنامہ مضمون بنایا ہے اس کو پڑھ کر اکثر لوگ سوچ میں پڑ جاتے ہیں۔ ایک عامی کو جب یہ قول سنایا جاتا ہے تو وہ فوراً اس سے یہ مطلب کشید کرتا ہے کہ کسی پر احسان کرنے سے گریز کرنا چاہیئے۔ بادی النظر میں یہ قول عجب سا لگتا ہے مگر یہ اپنے اندر ایک جہاں کی وسعت سمیٹے ہوئے ہے۔
نیکیوں میں سب سے بلند تر نیکی کا نام احسان ہے۔ یہ اس نیکی کا نام ہے جو فرض بھی نہ تھی۔ اپنی کسی ذمہ داری کو احسان کا نام دینا کم ظرفی ہے۔ فرض تو فرض ہے، اگر فرض ادا کیا تو کیا احسان کیا؟ احسان کرنے والا غالب ہوتا ہے اور احسان وصول کرنے والا مغلوب۔ یہ کلیہ طے ہے کہ دینے والا ہاتھ اوپر والا ہاتھ ہوتا ہے، اور اوپر والا ہاتھ از روئے حدیث نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہوتا ہے۔ جب کوئی شخص مغلوب ہوتا ہے تو اس کی نظر نیچی ہوجاتی ہے۔ قدرتی طور پر وہ اپنی اس حالت کر رفع کرنا چاہتا ہے۔ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی کسی ایسے موقع کی تلاش میں ہوگا کہ اس مغلوبیت اور احسان مندی کی حالت سے باہر آجائے۔
یہاں پر ظرف کا امتحان شروع ہو جاتا ہے۔ عالی ظرف احسان کا بدلہ اقرار اور احسان کی صورت میں دے گا اور کم ظرف انکار اور برائی کی صورت میں دینے کی کوشش کرے گا۔ دونوں صورتیں احسان کرنے والے کے حق میں ایک شر کا پہلو رکھتی ہیں۔ اگر وہ احسان کا بدلہ احسان کی صورت میں قبول کر لیتا ہے تو وہ اپنے منصبِ احسان سے معزول ہو جاتا ہے، دوسری صورت میں اگر وہ احسان کا انکار کرنے والے کے رویے سے حالت اشتعال میں آ جاتا ہے تب بھی وہ درجہء احسان سے گر جاتا ہے۔ یعنی پہلی صورت میں وہ صلہ وصول کرنے کی وجہ سے درجہء احسان سے معزول ہوا اور دوسری صورت میں اپنے احسان کا سلسلہ منقطع کرنے کی وجہ سے محسنین کی فہرست سے خارج ہوا۔ جتلایا ہوا احسان یوں بھی ضائع ہو جاتا ہے۔
مراد یہ کہ اپنے احسان کی حفاظت ہر صورت کرنا لازم ہے۔ جس پر آپ نے احسان کیا اس نے اس احسان کے جواب میں جب اپنی فطرت کے مطابق احسان کا جواب بجائے احسان کے ناشکرگزاری کے کلمات سے دیا تو اس نے دراصل اپنے رویئے سے آپ کے اندر چھپے ہوئے شر کو بیدار کرنے کی کوشش کی۔ یہی اُس کا شر ہے جس سے بچنا ضروری ہے۔ اگر اس شر سے نہ بچ سکے تو سمجھیں کہ خوار ہوئے۔ یعنی وقت، وجود اور وسائل بھی برباد ہوئے اور اس کے صلے میں رب کی رضا بھی حاصل نہ ہوئی اور یوں"نیکی برباد گناہ لازم" والا معاملہ ہوگیا۔
زندگی میں ناں بہت سے لوگ مجھے ایسے ٹکرے ہیں جنہوں نے صلے میں مجھ سے احسان فراموشی کی ہے اور آج تک میں نے ان سے نہ کوئی گلہ کیا اور نہ ہی کبھی ان کے سامنے آنے پر منہ بسور کے بیٹھ گیا۔ اور یقیناً یہ معاملات زندگی آپ سب کے ساتھ بھی ہوتے ہیں۔ آپ کو کسی انسان کی بوقت ضرورت اپنی بساط کے مطابق مدد کرنا ترک نہیں کرنا چاہئیے اور ایسے انسانی رویوں سے دلبرداشتہ بھی نہیں ہونا چاہئیے۔ یہی تو وہ دائرہ ہے جو انسان کو انسان سے جوڑتا ہے۔ ہاں اُدھار اور مالی لین دین کے معاملے میں ذاتی طور پر بہت دلبرداشتہ ہوں اور اس بارے اصولی فیصلہ کر چکا ہوں کہ اُدھار بند ہے۔ چاہے کوئی جتنا بھی قریب ہو یہ کام نہیں ہو سکتا۔ اس سے تعلق بھی جاتا ہے اور اُدھار تو جاتا ہی ہے۔ واپسی اس معاشرے میں ناممکن حد تک مشکل ہو جاتی ہے۔
ایک دوست نے مجھے ایک میوچوئل دوست کے ساتھ برتے میرے حسن سلوک کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ تجھے کہا تھا اس کا کام نہ کرنا۔ اس نے تمہیں اپنی اوقات دکھا دی ناں۔ مہدی جس پر احسان کرو اس کے شر سے بچو۔ میں نے سوچا کہ اس قول کی تشریح کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ ہمارے معاشرے میں یہ قول ایسے مواقعوں پر عام ہو چکا ہے اور بالکل غلط سمجھا گیا ہے۔