1.  Home/
  2. Blog/
  3. Hussnain Nisar/
  4. Umra Ki Fazeelat

Umra Ki Fazeelat

عمرہ کی فضیلت

مخصوص عبادات کے ساتھ ﷲ تعالیٰ کے گھر کی زیارت کرنے کو عمرہ کہتے ہیں۔ ہم پر ہماری خواہشات کی حکمرانی نہیں، بلکہ خدا کی حکمرانی ہے کے وہ جس اندا ز میں ہمیں اپنے در پر بلانا چاہے بلا لیتا ہے۔ خانہ کعبہ کی زیارت بھی اتنی اہم ہے کہ وہ بھی ایک عبادت ہے اور اس سے بھی اللہ کا قرب نصیب ہوتا ہے، عمرہ کا معنی زیارت ہے، یہ پوری عمر میں ایک مرتبہ سنت مؤکدہ ہے۔ ایک صحابیؓ نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ کیا عمرہ واجب ہے؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ واجب نہیں ہے البتہ تم عمرہ کرو کیونکہ عمرہ کرنا افضل ہے۔

ہمیں حج اور عمرہ بار بار کرتے رہنا چاہیے کیونکہ یہ دونوں غربت اور گناہوں کو اس طرح دور کرتے ہیں جیسے آگ کی بھٹی لوہے اور سونے اور چاندی کے میل کچیل اور زنگ کو صاف کرتی ہے"۔

مسجد حرام میں داخل ہوتے وقت درود شریف پڑھی جائے اور پھر عام مساجد میں داخل ہونے کی دعا: "اللہم افتح لی ابواب رحمتک"۔

حرم شریف میں داخل ہونے کے بعد جب پہلی نظر خانہ کعبہ پر پڑتی ہے تو وہ وقت دعا کی قبولیت کا ہوتا ہے اس لئے اس موقع کو قیمتی جانتے ہوئے اپنے لئے اور اعزہ واقارب اور تمام مسلمانوں کے لئے دنیاوی و اخروی فوز وفلاح اور رشد وہدایت کی دعا کی جائے اور یہ دعا کی جائے کہ اللہ تعالیٰ اپنے اس مقدس گھر کی حاضری کی سعادت بار بار عنایت فرمائے، بہتر یہ ہے کہ اس قیمتی وقت کے لئے پہلے سے ہی دعا سوچ لی جائے۔ یا سب سے بھر کر یہ کہ اپنے رب سے یہ دعا کی جائے کہ میں جب بھی اپنی یا کسی کے لیے نیک اور جائز دعا مانگنے کے لیے ہاتھ اٹھاؤ تو وہ ضرور قبول ہو۔

عمرہ حج کے علاوہ دوسری عبادت ہے جس میں انسان کو زیارت حرم شریف کی سعادت حاصل ہوتی ہے، آپﷺ نے ارشاد فرمایا، "جو بیت اللہ شریف کو آئے اور کوئی شیطانی کام اور گناہ نہ کرے تو وہ اس طرح لوٹتا ہے کہ جس طرح ماں کے پیٹ سے پیدا ہونے کے دن تھا۔ آپ ﷺ نے یہ بھی ارشاد فرمایا، کہ "ایک عمرے کے بعد جب انسان دوسرا عمرہ کرتا ہے تو یہ دونوں عمرہ کے درمیان کے گناہوں کے لیے کفارہ بن جاتا ہے۔۔

یہ تو عمرہ کی عمومی فضیلت ہے، لیکن رمضان المبارک میں چوں کہ ہر عمل کا ثواب بڑھ جاتا ہے، اس لیے رمضان میں عمرہ کرنے کا اجر بھی زیادہ ہے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس نے رمضان میں عمرہ کیا اسکا ثواب میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے۔

عمرہ کی ادائیگی میں محض چار کام ہیں۔ پہلا کام میقات سے احرام باندھنا، دوسرا کام مکہ پہنچ کر کعبہ کا سات چکر طواف کرنا (اور رکعت نفل نماز مقام ابراہیم پر پڑھنا)، تیسرا کام صفا ومروہ کی سات چکر سعی کرنا اور چوتھا و آخری کام سر کے بال کٹوانا اور افضل ہے کے مکمل گنج کروایا جائے اور عورتوں کے حق میں انگلی کے ایک پور برابر بال کاٹنا۔ ان چار کاموں کے احکام جاننے سے قبل عمرہ کے ارکان، واجبات اور سنت کو جاننا ضروری ہے تاکہ اس بات کا یقین کیا جاسکے کہ آپ نے واقعی سنت کے مطابق عمرہ کیا ہے، اس میں نہ کوئی رکن چھوٹا، نہ کوئی واجب ترک کیا اور سنت چھوٹ جانے سے عمرہ کی صحت پر اثر نہیں پڑتا پھر بھی سنت کو بغیر عذر کے نہیں چھوڑنا چاہئے۔

حالت احرام میں دس کام ممنوع ہیں۔ بال کاٹنا، ناخن کاٹنا، مرد سلا ہوا کپڑا پہننا، خوشبو لگانا، مرد کا سر ڈھنپنا، عورت کے لئے دستانہ اور برقع و نقاب لگانا (منع ہے تاہم اجنبی مردوں سے دوپٹہ کے ذریعہ اپنے ہاتھ و چہرہ کا پردہ کرےگی)، بیوی کو شہوت سے چمٹنا، عقد نکاح کرنا، جماع کرنا اور شکار کرنا۔

ایک سے لے کر سات ممنوعات کا حکم یہ ہے کہ جو لاعلمی (انجانے) میں ان سات ممنوعات میں سے کسی کا بھی ارتکاب کرلے تو اس پر کچھ بھی نہیں ہے لیکن اگر عمدا(جان بوجھ کر) کسی کا ارتکاب کیا تو فدیہ دینا ہوگا۔ فدیہ میں یا تو تین روزہ رکھنا ہے یا مکہ میں ایک ذبیحہ دینا ہے یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلانا ہوگا۔

عقد نکاح میں کوئی فدیہ نہیں ہے لیکن دوران عمرہ یعنی احرام کی حالت میں جماع کرنے سے عمرہ فاسد ہو جاتا ہے، وہ فی الحال اپنا عمرہ مکمل کرے گا بعد میں اس عمرہ کی قضا کرے گا اور ایک بکری ذبح کرے گا۔ شکار کرنے کی صورت میں اسی کے مثل جانور ذبح کرنا ہوگا۔

عمرہ کرنے والوں میں ایک ٹرینڈ چلنے لگا ہے بار بار عمرہ کرنے کا، اس کی وجہ یہ ہے کہ وطن واپس ہونے پر فخریہ بیان کیاجاتا ہے کہ میں نے اتنا عمرہ کیا؟ یاد رہے، ایک سفر میں ایک عمرہ کافی ہے، یہی نبی ﷺ اور آپ کے پیارے اصحاب کا طریقہ رہا ہے۔ آپ ﷺ فتح مکہ کے موقع پر انیس دن مکہ میں ٹھہرے، آپ نے بار بار عمر ہ نہیں کیا۔

کوئی مکہ میں ہفتہ دس دن یا کچھ دن ٹھہر کر مدینہ چلاگیا، وہاں سے پھر مکہ آرہا ہے تو یہ ایک دوسرا سفر شمار ہوگا، اس دوسرے سفر میں میقات سے دوسرے عمرہ کا احرام باندھ کر عمرہ کرسکتا ہے۔

میت کی طرف سے عمرہ کرنا جائز ہے اور میت کی طرف سے عمرہ کرنے والے کے لئے ضروری ہے کہ وہ پہلے اپنا عمرہ کر چکا ہو۔ اگر کوئی شخص کسی دوسرے ملک سے آیا ہے اس نے اپنا عمرہ کرلیا ہے اور دو بارہ اسے مکہ آنے کی امید نہیں ہے اور اگر اپنے وفات یافتہ والد یا والدہ کی طرف سے عمرہ کرنا چاہے تو اسی سفر میں وفات یافتہ والد یا وفات یافتہ والدہ، بہن یا بھائی کی طرف سے عمرہ کرسکتا ہے۔

بچہ بھی عمرہ کرسکتا ہے، اس کواس عمرہ کا اجر ملے گا۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ بچے کو غسل کرا کر احرام کا لباس لگا دیں اور میقات پر جیسے سب عمرہ کی نیت کرتے ہیں بچے کو بھی نیت کے الفاظ کہنے کو کہیں بطور خاص بچے کا سرپرست بچہ کی طرف سے احرام کی نیت کرلے اور اس کو ممنوعات احرام سے بچائے، غلطی سے کسی مانع کا ارتکاب کرلے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ مکہ پہنچ کر سرپرست طواف وسعی میں ساتھ رکھے یعنی اپنے طواف و سعی کے ساتھ اس کو بھی طواف وسعی کروائے، پھر اس کا بال کاٹ دے، بچے کا عمرہ ہوگیا۔

عورت کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ عمرہ کرتے وقت کوئی محرم اس کے ساتھ ہو لیکن یہ ضروری ہے کہ ایک جگہ سے دوسری جگہ کا سفر کرنے کے لئے آتے اور آجاتے دونوں طرف کوئی محرم ساتھ ہو۔ جس عورت نے بغیر محرم کے سفر کرکے عمرہ کرلیا تو عمرہ اپنی جگہ صحیح ہے لیکن بغیر محرم کے سفر کرنے کی وجہ سے وہ گنہگار ہوگی اس کے لئے اسے توبہ کرنا چاہئے اور محرم کے ساتھ ہی عمرہ کا سفر کرنا چاہئے

جو مسلمان صاحبِ استطاعت ہیں انہیں چاہیے کے شادی بیاہ میں فضول پیسے ضایع کرنے کے بجائے عمرے کی سعادت حاصل کرنی چاہیے، البتہ یہ بھی ضروری ہے کہ عمرے کو عبادت کا سفر بنایا جائے، نہ کہ تفریح کا۔ آج کل عمرہ کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد اس طرح عمرہ کرتی ہے کہ گویا وہ کسی سیاحتی سفر پر جارہے ہوں، نہ عبادت کا اہتمام، نہ خشوع و خضوع، نہ زندگی میں کوئی تبدیلی، نہ اخلاق و کردار میں کوئی انقلاب، عمرے کے باوجود نماز کی پابندی نہیں، زمینوں پر ناجائز قبضے سے اجتناب نہیں، لوگوں کے ساتھ بد اِخلقی کے رویے میں کوئی فرق نہیں، غرض کہ عمرہ ان کے قلب و رُوح کے لیے کوئی انقلاب انگیز عمل نہیں ہوتا، بل کہ ایک تفریح ہوتی ہے۔ جیسے آگ کی تصویر سے حرارت حاصل نہیں کی جاسکتی، اسی طرح ایسے بے روح عمرے اور بے کیف عبادت سے انسان کی زندگی میں مطلوبہ تبدیلی نہیں آسکتی۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو بار بار اپنے گھر کی سعادت نصیب فرمائے۔

Check Also

Shahbaz Ki Parwaz

By Tayeba Zia