Audio Leaks Ka Daur
آڈیو لیکس کا دور
آڈیو اور ویڈیو لیکس کے اس موسم میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی ساس صاحبہ بیگم ماہ جبین نون اور مفکر پاکستان علامہ اقبال کے قریبی مگر جونیئر ساتھی بیرسٹر خواجہ عبدالرحیم کی بہو رافعہ طارق رحیم کے مابین ٹیلی فونک گفتگو کا منظر عام پر آنا میرے لیے ہرگز باعث حیرت نہیں۔
نوجوان نسل کو علم نہیں کہ خواجہ طارق رحیم کے والد بیرسٹر عبدالرحیم چودھری رحمت علی کے ساتھ کیمبرج یونیورسٹی میں زیر تعلیم رہے اور اسلم خٹک سمیت تین لوگ تھے جو1940ء کی قرارداد پاکستان سے کئی سال قبل "پاکستان" کے تصور کا پرچار کرتے رہے۔ لفظ پاکستان کی تخلیق و ترویج بھی ان تینوں کا کارنامہ ہے۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ایوان صدر، وزیراعظم ہائوس میں ہونے والی گفتگو کی ریکارڈنگ ایک سے زیادہ بار منظر عام پر آ چکی ہے۔ 1999ء میں کارگل جنگ کے ہنگام آرمی چیف جنرل پرویز مشرف اور اس وقت کے چیف آف جنرل سٹاف جنرل محمد عزیز کی ٹیلی فونک گفتگو منظر پر عام پر آئی تھی اور کل عالم میں ہم تماشہ بنے تھے، یہ گفتگو کارگل آپریشن کو ملک کے وزیراعظم میاں نوازشریف سے چھپائے رکھنے کے حوالے سے تھی، یعنی کارگل آپریشن کی مکمل تفصیلات کا وزیراعظم کو نہ علم ہونے پائے مگر بھارت پر ہر چیز الم نشرح تھی حتیٰ کہ دونوں فوجی رہنمائوں کی خفیہ گفتگو بھی۔ انتہائی حساس آڈیو ریکارڈنگ بھارت تک کیسے پہنچی؟ راز آج تک نہیں کھلا کہ 12 اکتوبر ہوگیا اور ہر بات پر پردہ پڑ گیا۔
1996ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت برطرف ہوئی تو عدالت عظمیٰ کے روبرو صدر سردار فاروق احمد خان لغاری کی پیش کردہ چارج شیٹ میں ایک یہ جرم بھی درج تھا کہ محترمہ ملک کے مختلف صحافیوں کے ٹیلیفون ٹیپ کراتی ہیں، درجنوں اخبار نویسوں میں مدیران جرائد، کالم نگار اور اداریہ نویس شامل تھے۔ گویا پاکستان میں 1996ء تک کسی کی ذاتی یا پیشہ وارانہ گفتگو ٹیپ کرنا جرم تھی اور یہ کسی حکومت کی معزولی کا معقول جواز۔
گزشتہ ایک سال کے دوران مگر تسلسل سے اہم سرکاری عہدیداروں، سیاستدانوں، ججوں اور ان کے عزیز و اقارب کی محفوظ اور عام ٹیلی فون پر ہونے والی گفتگو منظر عام پر لائی جا رہی ہے۔ کوئی اس ریکارڈنگ کو جرم سمجھ رہاہے نہ معیوب اور نہ اس بے ہودہ کدوکاوش کو باعث شرم۔ الٹا جن کی نجی زندگی میں غیر آئینی، غیر قانونی، غیر اخلاقی اور غیر شرعی انداز میں داخل اندازی جاری ہے انہیں ہی مورد الزام ٹھہرایا جارہا ہے۔ جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔
محترمہ ماہ جبین نون اور رافعہ طارق حیم کی آڈیو لیکس پر جاری ناروا بحث سے قطع نظر بنیادی سوال یہ ہے کہ ریکارڈنگ کس نے کی؟ کس قانون اور جواز کے تحت کی؟ لیک کرنے والا کون ہے؟ کیوں؟ اور ایسی ریکارڈنگ کے افشا اور بحث کے حوالے سے قانون کیا کہتا ہے؟ یہ سوال بھی اہم ہے کہ آیا یہ آڈیوز جینئن ہیں یا فیک؟ ٹکڑے جوڑ کر بنائی گئی ہیں یا واقعتاً ایک؟ کسی نے فرانزک کرایا؟
ایک لمحے کے لیے فرض کرلیا جائے کہ تازہ آڈیو اصل ہے اور دونوں خواتین اسے درست تسلیم کرلیتی ہیں تو اس سے کیا ثابت ہوتا ہے؟ یہی کہ بیگم ماہ جبین نون اپنے داماد چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے حوالے سے فکر مند ہیں، وہ ان لاکھوں لوگوں کی طرح جو چیف جسٹس سے درست فیصلہ کرنے اور ہر طرح کے دبائو کے سامنے ثابت قدم رہنے کی دعا کر رہے ہیں۔ ساس صاحبہ بھی ان کے لیے دعا گو ہیں اور اپنی سہیلی کو ایک اجتماع کے بارے میں بتا رہی ہیں جہاں انہوں نے لوگوں کو دعائیں کرتے دیکھا اور سنا، دو پڑھی لکھی خاندانی خواتین موجودہ سیاسی صورتحال سے دیگر کروڑوں پاکستانیوں کی طرح پریشان ہیں اور باہم محو گفتگو۔
مارشل لاء کا بھی ذکر ہوتا ہے مگر کیا پاکستان میں نامور سیاستدان ان دنوں ایسی ہی گفتگو نہیں کرتے۔ کیا شاہد خاقان عباسی، آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو مارشل لاء کا ذکر نہیں کر چکے۔ دولے شاہ کے چوہوں کی بات الگ ہے کہ بے چارے سوچ سمجھ اور رائے زنی سے عاری مگر کیا پاکستان کے ہر گھر میں پڑھے لکھے مرد و خواتین آج کل ایسی ہی گفتگونہیں کرتے جیسی اس آڈیو میں سننے کو ملی؟
سیاستدانوں کے مقاصد تو واضح ہیں، انہیں مرضی کے جج چاہئیں جو ان کے حق میں فیصلے کریں اور ان کے مفادات کی آبیاری بھی۔ جو سیاستدان آج کل اس آڈیو لیک پر سیخ پا ہیں وہ جسٹس قیوم کی دو سربر آوردہ سیاسی رہنمائوں کے ساتھ ٹیلی فونک گفتگو پر کبھی غزل سرا ہوئے نہ صحت کارڈ ختم کرنے کی فرمائش والی میاں شہبازشریف اور مریم نوازشریف کی آڈیو پر معترض۔ حیرت مجھے اپنے صحافی بھائیوں پر ہے جو سورنگ کے مضمون باندھ رہے ہیں۔ کیا ان کی ساسیں انہیں دعائیں نہیں بد دعائیں دیتی ہیں؟
صرف ان کی سیاسی وابستگی کو ملحوظ خاطر رکھ کر سیاسی اجتماعات میں شریک ہوتی ہیں؟ اپنی سہیلیوں سے فون پر بات کرنے سے قبل داماد جی سے پوچھتی ہیں کہ میں کیا بات کروں؟ کیا یہ ذہین، فطین اور دبنگ صحافی اپنے پروفیشنل معاملات ساس صاحبہ اور بیگم صاحبہ کی مرضی اور مشاورت سے چلاتے ہیں اور سرمو انحراف نہیں کرتے؟ جن دوستوں کا جواب ہاں میں ہے انہیں پورا اختیار ہے کہ وہ چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کے خلاف پروپیگنڈا مہم جاری رکھیں کہ ؎
رسم دنیا بھی ہے موقع بھی ہے دستور بھی ہے
لیکن جنہیں اللہ تعالیٰ نے عقل سلیم، فکری دیانت و امانت اور حریت فکر و خیال کے جوہر سے نوازا ہے وہ اپنے گریبانوں میں ضرور جھانکیں کہ ہم معاشرے کو کس جہنم میں دھکیل رہے ہیں؟ کیا ہم خود کل اس کا نشانہ نہیں بنیں گے، ماضی میں بنتے نہیں رہے؟ اس آڈیو لیک سے ایک بات تو ثابت ہوگئی کہ حکومت چیف جسٹس عمر عطا بندیال پر کسی قسم کا دبائو ڈال پائی نہ انہیں بلیک میل کرنے کے لیے کوئی ذاتی، مالی اور اخلاقی سکینڈل ملا، وزارت دفاع کے ذریعے مرضی کا فیصلہ لینے کی کوشش بھی ناکام ہوئی تبھی اس قدر کمزور حملہ کیا گیا۔
اسلام اگرچہ ہماری اجتماعی و سیاسی زندگی کا حصہ ہے نہ ہمارے سیاستدان، حکمران اور فیصلہ ساز زبانی کلامی جمع خرچ سے زیادہ کوئی اہمیت دینے کے لیے تیار ہیں مگر نوجوان نسل کی یاددہانی کے لیے قرآن مجید کی ایک آیت کریمہ اور ایک حدیث رسول ﷺ کا ذکر لازم ہے۔ فرمایا: "اے ایمان والو! بہت زیادہ گمان کرنے سے بچو! بے شک بعض گمان گناہ ہو جاتا ہے اور (دوسرں کی) پوشیدہ چیزوں کی جستجو نہ کرو اور ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو۔ (الحجرات)"
حضرت ابو برزہ اسلمی کی روایت، فرمایا "مسلمانوں کی غیبت نہ کرو اور ان کی پوشیدہ باتوں کو مٹ ٹٹولو۔ جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی چھپی ہوئی باتوں کی ٹٹول کرے گا اللہ تعالیٰ اس کی پوشیدہ چیز کی ٹٹول کرے گا (یعنی اسے ظاہر کر دے گا) اور جس کی اللہ تعالیٰ ٹٹول کرے گا اس کو رسوا کردے گا چاہے وہ اپنے مکان میں چھپا بیٹھا ہو"۔
امریکی صدر رچرڈ نکسن اپنے مخالفین کی خفیہ ریکارڈنگ کے جرم میں ایوان صدر سے بصد سامان رسوائی نکلا، یہاں مگر خفیہ ریکارڈنگ کو مخالفین کی تضحیک اور توہین کے لیے استعمال کرنے، کرانے کا رواج ہے، کوئی پوچھنے والا نہیں کہ یہ مکروہ کاروبار کس قانون کے تحت یا کس مقصد کے لیے؟ کون کر رہا ہے؟ کوئی شرم نہ حیا، وہ بھی حاشیہ آرائی میں مشغول ہیں جن کی اپنی خفیہ آڈیوز، ویڈیوز وائرل ہو چکی ہیں۔ عربی کا مقولہ ہے۔ اذافاتک الحیائُ فافعل ماشئت۔
جب شرم رخصت ہوگئی تو جو مرضی کرتے پھرو۔