PTI Ki Appeal Se Mufti e Azam Seminar Ke Elamiya Tak
پی ٹی آئی کی اپیل سے مفتی اعظم سیمینار کے اعلامیہ تک
تحریک انصاف کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر اطلاعات فواد حسین چودھری نے عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ دنیا شہباز حکومت کا بائیکاٹ کرے اور مودی کی طرح ویزے مسترد کردے۔ ان کاکہنا ہے کہ یہ فاشسٹ حکومت ہے اس کے خلاف ہر عالمی فورم پر آواز اٹھائی جائے گی۔
یہ بھی کہا کہ طاقتور حلقوں نے معیشت مسخروں کے حوالے کردی۔ اس سے قبل سیلاب زدگان کے لئے فنڈ ریزنگ کے مرحلہ میں تحریک انصاف نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو خط لکھا تھا کہ سیلاب زدگان کے لئے فنڈ موجودہ کرپٹ ٹولے کو نہ دیئے جائیں۔
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان بھی آئی ایم ایف سے کہہ چکے کہ وہ موجودہ حکومت کو قرضہ نہ دے ملک کے پاس ادائیگیوں کے لئے رقم نہیں ہے۔ یہ بیانات اور اپیلیں دلچسپ ہیں۔ ان سے تحریک انصاف کی سیاسی فہم اور عزائم کو سمجھنے میں آسانی رہے گی۔
یقیناً پی ٹی آئی کے حامیوں کے پاس ان بیانات کے دفاع کے لئے مضبوط دلائل ہوں گے۔ جیسا کہ ماضی میں یہ تاثر دیا جاتا رہا کہ نظام مملکت حکومت اور فوج کی شراکت داری سے ہی چل سکتا ہے اور آج کل کہا جارہا ہے کہ ہمارے دور میں آرمی چیف سپر کنگ بن کر بیٹھا ہوا تھا۔
دونوں باتوں سے چند سال پیچھے چلیں تو خان کے ایک انٹرویو کا کلپ مل سکتا ہے جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ فوج اسے اقتدار میں لاتی ہے جو احکامات پر دُم ہلاتا ہے۔ میں ایسا آدمی نہیں ہوں۔ کہنے کو تو انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے کی بجائے خودکشی کرلوں گا۔ پھر خودکشی کے بغیر آئی ایم ایف کے پاس چلے گئے۔ ایک معاہدہ بھی کیااور پھر یہ معاہدہ عوام کے وسیع "مفاد" میں توڑا بھی۔ آجکل عوام اس مفاد کے حلوے کھارہی ہے۔
گزشتہ روز انہوں نے سپریم کورٹ کے جج صاحبان کو حالیہ آڈیو لیکس کے حوالے سے خط لکھا اور کہا کہ اس کا نوٹس لیا جائے۔ ان دنوں وہ تقریباً روزانہ یہ پوچھتے دیکھائی دیتے ہیں کہ کیا ایجنسیوں کا یہی کام رہ گیاہے کہ وہ ٹیلفیون ٹیپ کریں۔
ماضی میں بطور وزیراعظم ایک انٹرویو میں ارشاد کررہے تھے، خفیہ معلومات حاصل کرنا اور ٹیلیفون ٹیپ کرنا ایجنسیوں کا کام ہے مجھے کوئی ڈر نہیں کیونکہ میں غلط کام ہی نہیں کرتا۔ ماضی کے حکمران اپنی چوریوں کی وجہ سے پکڑے گئے اس لئے ایجنسیوں اور فوج کے خلاف پروپیگنڈہ کرتے ہیں۔
سیاست کا میدان مزید گرم ہورہا ہے۔ موسم میں بھی فروری کے مہینے میں ایسی تبدیلی آئی ہے جو پہلے مارچ میں آتی تھی۔ تحریک انصاف اس تحریر کی اشاعت کے ایک دن بعد 22فروری کو جیل بھرو تحریک شروع کرنے جارہی ہے۔
سیاسی جدوجہد میں تھانے حوالاتیں جیل اور عدالتیں سبھی راستے میں آتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے قائدین اور کارکنوں کو بھی ان راہوں کا مسافر بننا چاہیے تاکہ انہیں معلوم ہو کہ سوشل میڈیا پر گالم گلوچ، نعرے بازی اور حرام حلال کے فتوے دینا بہت آسان ہے اور عملی جدوجہد پُرخار۔
ایک سادہ سوال ہے "بالکل سادہ" خان صاحب نے اپنے دور میں سیاستدانوں اور شہریوں کے ٹیلیفون ٹیپ کرنے پر پابندی کیوں نہ لگائی؟
خیر تحریک انصاف کے فواد چودھری نے عالمی برادری سے شہباز کی فاشسٹ حکومت کے بائیکاٹ اور مودی کی طرح انہیں ویزے نہ دینے کی جو اپیل کی ہے اس پر داد اور مذمت دونوں نہیں بنتیں۔ یہ سطور لکھنے سے کچھ دیر قبل سوشل میڈیا پر فواد چودھری کا ایک پرانا کلپ دیکھنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ شاہ زیب خانزادہ کے پروگرام میں فواد چودھری، عارف علوی اور فرید پراچہ موجود ہیں۔ فواد چودھری کہہ رہے ہیں کہ پروگرام کے پروڈیوسر کو چاہیے تھا کہ تحریک طالبان کا صرف ایک نمائندہ بلاتا عارف علوی یا فرید پراچہ لیکن ایک پروگرام میں ٹی ٹی پی کے دو نمائندے بلاکر ناانصافی کی گئی اس ارشاد پر ان کی عارف علوی سےمنہ ماری بھی ہوئی۔
اس ویڈیو کلپ کا ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہر پانچ سال بعد سیاسی جماعت تبدیل کرنے والے کسی بھی شخص کی کسی دور کی بات کو سنجیدہ نہیں لینا چاہیے جو لوگ سنجیدہ لیتے ہیں وہ بھی خاطر جمع رکھا کریں۔
کالعدم تحریک طالبان کا ذکر آہی گیا ہے تو اس حوالے سے دو تین اہم خبریں ہیں پہلی یہ کہ وفاقی وزیر ریاض حسین پیرزادہ نے بتایا ہے کہ آئی ایس آئی کے سابق چیف جنرل (ر) فیض حمید ٹی ٹی پی کے جنگجوئوں کو افغانستان سے واپس پاکستان لاکر انہیں مرکزی دھارے میں شامل کرنے کے خواہش مند تھے۔ اس تجویز کے حوالے سے انہوں نے ایک اِن کیمرا اجلاس کا بھی ذکر کیا۔
کیا ہی اچھا ہوتا اگر ریاض حسین پیرزادہ اسی اجلاس میں پیش کی گئی جنرل فیض حمید کی اس تجویز کا بھی ذکر کردیتے کہ لگ بھگ 10سے 12ہزر جنگجوئوں کو مرکزی دھارے میں شامل کرنے کے لئے وفاق اور صوبوں کے کن کن محکموں میں ملازمت دی جائے گی۔
غالباً اسی اجلاس میں ریاض حسین پیرزادہ کے علاوہ فواد حسین چودھری نے ٹی ٹی پی کے جنگجوئوں کو نیم سکیورٹی اداروں میں کھپانے کی تجویز کی مخالفت کی تھی۔
خیر اس معاملے میں جناب عمران خان کی فکر بہت واضح ہے اور ایک سے زائد بار اعتراف کرچکے کہ ان کی حکومت ٹی ٹی پی کے جنگجوئوں اور ان کے خاندانوں کو افغانستان سے واپس لاکر ان کی آبادکاری کامنصوبہ بناچکی تھی۔
پہلے جنرل باجوہ اس سے اتفاق کرتے تھے پھر اچانک وہ پیچھے ہٹ گئے۔ تحریک انصاف اور اس کے سربراہ عمران خان کی طالبان سے ہمدردی کبھی بھی ڈھکی چھپی نہیں رہی۔
یہ بھی بدقسمتی ہی ہے کہ اس وقت ملک کا وزیراعظم وہ شخص (شہباز شریف) ہے جس نے پنجاب کے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے طالبان سے اپیل کی تھی کہ وہ پنجاب میں کارروائیاں نہ کریں کیونکہ طالبان اور ہمارے نظریات ایک جیسے ہیں۔
شہباز شریف کا قصہ ضمناً یاد آگیا چلیں خیر ہے تاریخ کا ریکارڈ ہے اس سے وہ انکار نہیں کرسکتے۔
طالبانائزیشن کے حوالے سے دوسری خبر یہ ہے کہ کراچی پولیس کے صدر دفتر پر حملہ کرنے والے دہشت گرد تین نہیں پانچ تھے، تین کارروائی کے دوران مارے گئے "دو زخمی حالت میں فرار یا گرفتار ہوئے" تحریر نویس کی اطلاع اخبارات میں شائع ہونے والی اس خبر سے مختلف ہے کہ "2دہشت گرد پولیس دفتر کے باہر موجود تھے وہ ریسکیو آپریشن کی کامیابی کو بھانپ کر فرار ہوگئے"۔
ذرائع کا کہناہے کہ دو دہشت گرد زخمی حالت میں گرفتار ہوئے ہیں ان سے ابتدائی تفتیش کے دوران ملنے والی معلومات کی بنیاد پر ہی شب بھر میں قانون نافذ کرنے والے ادارے ایک مرنے والے دہشت گرد کفایت اللہ کے گھر لکی مروت تک پہنچ پائے۔
کراچی پولیس کے دفتر پر دہشت گردوں کے حملے کے دوران موقع پر چار اہلکار شہید ہوئے تھے ایک شدید زخمی اتوار کو راہی ملک عدم ہوئے۔ اس طرح شہداء کی تعداد 5ہوگئی۔
ملک میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کا ذکر گزشتہ روز پاکستان میں دینی تعلیم کے معروف ادارے جامعہ نعیمیہ لاہور میں منعقد ہونے والے مفتی اعظم پاکستان سیمینار میں بھی ہوا۔ سواد اعظم اہلسنت کی معروف دینی درسگاہ جامعہ نعیمیہ میں منعقدہ سیمینار کے اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ
"ریاست میں ریاست بنانے والے جتھوں کو سختی کے ساتھ کچل دیا جائے۔ شدت پسندی کسی بھی طرح قابل قبول نہیں، اسلامی تعلیمات کی من پسند تشریح کو دہشت گردی کے لئے جواز بنانے والے کسی رعایت کے مستحق نہیں"۔
جامعہ نعیمیہ کے ہی ایک سربراہ ڈاکٹر سرفراز حسین نعیمی شہید، طالبانی دہشت گردی میں شہید ہوئے تھے۔ ڈاکٹر سرفراز حسین نعیمی شہید ان چند علماء میں شامل تھے جنہوں نے دہشت گردوں کو خوارج کی باقیات قرار دیتے ہوئے طالبانائزیشن کو اسلام اور پاکستان پر کھلا حملہ کہا لکھا تھا۔
جن دنوں انہوں نے طالبانی دہشت گردی کے خلاف کلمہ حق بلند کیا ان دنوں بڑے بڑے مشائخ و حق پرستوں کو جان کے لالے پڑے ہوئے تھے۔
خوش آئند بات ہے کہ ان کے جانشینوں نے ان کی فکر کے علم کو بلند کررکھا ہے۔ گزشتہ روز منعقد ہونے والے مفتی اعظم پاکستان سیمینار کا اعلامیہ اس کا زندہ ثبوت ہے۔
اس سے قبل مفتی تقی عثمانی دوٹوک اندز میں دہشت گردی کے خلاف اپنی رائے دے چکے۔ اسلام آباد کی اسلامی یونیورسٹی میں منعقد ہونے والی وحدت کانفرنس کا اعلامیہ بھی امید افزا ہے۔ انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف معاشرے کے تمام طبقات کو متحدہ ہونا ہوگا۔
یہ عرض کرنا بھی ضروری ہے دہشت گردی اور انتہاپسندی کی مذمت کے ساتھ ساتھ چاروں مسلمہ مسلم مکاتب فکر کے ذمہ داران کو اپنے اپنے مکتب فکر کے نظام ہائے تعلیم کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے ساتھ ساتھ تکفیر و تضحیک کی بھی کھل کر حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔
چاروں مکاتب فکر کے اندر سے اٹھنے والی شدت پسندی سے عبارت آوازوں کے پیچھے موجود لوگوں کا ہر مکتب فکر کو محاسبہ کرنا چاہیے۔ تبھی ملک سے انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خاتمے کا خواب شرمندہ تعبیر ہوپائے گا۔