Kash Bhutto Sahab Ye Na Karte
کاش بھٹو صاحب یہ نہ کرتے
اے این پی، پیپلزپارٹی اور قوم پرستوں کے لئے اپنی محبت اور نرم گوشے کو کبھی چھپایا نہ اس پر شرمندگی محسوس کی۔ گاہے ان تینوں سے بعض امور پر اختلاف بھی کرلیتا ہوں۔
مثلاً مجھ سے طالب علم کو اس بات کا شدید دکھ ہے کہ ایک سیکولر جماعت نیشنل عوامی پارٹی کی سیاسی اور تاریخی وراثت تھامے کھڑی اے این پی آج صرف پشتون قوم پرست جماعت کی شہرت رکھتی ہے اور بسا اوقات اس کے کچھ رہنما ایسی بات کہہ جاتے ہیں جس سے ایسا لگتا ہے کہ وہ شدت پسند مذہبی کارکن ہیں۔
مثال کے طور پر مردان یونیورسٹی والے مشال خان کیس کو دیکھ لیجئے اے این پی کے بعض رہنما قاتلوں کے ساتھ کھڑے دیکھائی دیئے گو بعدازاں پارٹی نے اس صورتحال کا نوٹس لیا مگر تیر کمان سے نکل چکا تھا۔ بعض افراد کی کمزوریوں کے نتائج بہرطور ان افراد کی جماعت کو بھگتنا پڑتے ہیں۔
قوم پرستوں (اس میں انڈس ویلی کی قدیم قومی شناختوں کے حامل تمام قوم پرست شامل ہیں) کے لئے نرم گوشہ اس لئے ہے کہ کم از کم وہ اپنی زمین، تاریخ، شناخت اور ورثے تو جڑے کھڑے ہیں۔ حملہ آوروں کو نجات دہندہ نہیں سمجھتے مقامیت پر فخر کرتے ہیں۔
پیپلزپارٹی دستیاب سیاسی جماعتوں بالخصوص وفاقی سیاست کرنے والی جماعتوں میں سے نسبتاً بہتر جماعت ہے (یہ میری رائے ہے آپ پر مسلط نہیں کررہا) لیکن کبھی یہ نہیں کہا کہ اس کی لیڈر شپ سے غلطیاں سرزد نہیں ہوئیں۔
میں اب بھی اپنے عصری شعور کے ساتھ یہ سمجھتا ہوں کہ بھٹو صاحب کو قرارداد مقاصد کا اونٹ دستور کے خیمے میں نہیں بٹھانا چاہیے تھا۔ وہ جتنے بڑے رہنما تھے اگر چاہتے تو 1973ء کے دستور کو ایک سیکولر جمہوری دستور بناسکتے تھے نیز یہ کہ بعد میں ان کے دور میں ہوئی بعض دستوری ترامیم بھی اگر نہ ہوتیں تو اچھا تھا۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ بھٹو مادر زاد ولیء کامل اور آسمانی اوتار نہیں تھے۔ گوشت پوست کے انسان تھے خوبیوں اور خامیوں میں گندھے ہوئے۔ کسی کو ان میں خوبیاں زیادہ اور کسی کو خامیاں زیادہ دیکھائی دیتی ہیں۔
یہاں ان سیاسی مہاجروں کے تازہ موقف کا ذکر نہیں جو آجکل نئی محبت کی سچائی ثابت کرنے کے لئے لڑکپن اور جوانی کی محبت کو سنگین غلطی قرار دے کر 1970ء کی دہائی کے رجعت پسندوں کی طرح بھٹو کو انسانی تاریخ کا سب سے بُرا آدمی ثابت کرنے میں جُتے رہتے ہیں۔
ایسے لوگوں پر اب ترس بھی نہیں آتا جو اندھی شخصیت پرستی کو سیاسی شعور کی معراج قرار دیتے ہوئے عمران خان کو ایک نجات دہندہ کے طور پر پیش کرکے دیگر سیاستدانوں کے لئے واہی تباہی کی اُلٹیاں کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔
ہم اگر اس رویہ کو مسلم تاریخ سے سمجھنے کی کوشش کریں تو سمجھ سکتے ہیں یہ رویہ کسی نظریاتی تفہیم سے تشکیل نہیں پاتا بلکہ وقتی مفادات اور ذاتی نفرتوں پر عبارت ہے۔ لمبے چوڑے شکوے کیا کرنے، جن کا لیڈر دوپہر کی بات سے سپہر میں"کلٹی" مارجائے اس کے محبین کیا ہوں گے۔ خیر اس تذکرہ کو الگ سے اٹھارکھیئے۔ ہم اصل موضوع پر بات کرتے ہیں۔
میری اب بھی یہ رائے ہے کہ پی ڈی ایم اور اتحادیوں کو کسی بھی قیمت پر اسٹیبلشمنٹ کو محفوظ راستہ نہیں دینا چاہیے تھا۔ انہیں ریاست کی محبت کے "وارے کے بخار" نے جہاں لاکھڑا کیا اس مقام عبرت پر ان سے ہمدردی بھی نہیں کی جاسکتی۔
پی ڈی ایم اور اتحادیوں نے یہ مہنگا سودا کیوں کیا۔ کیا انہیں معلوم نہیں تھا کہ باجوہ رجیم اور عمران خان نے مل کر اس ملک کے لئے جو کھائیاں کھود دی ہیں یہ کسی بھی وقتی اقدام سے بھرنے والی نہیں بلکہ انجام کار ان کھائیوں میں"انتم سنسکار" ہی ہے۔
ایک ایسی اسٹیبلشمنٹ جس کے دامن پر صرف کہہ مکرنیوں، خود پرستی، ہیرو پنتی اور وسائل کا بڑا حصہ ڈکار جانے کے داغ ہی نہ ہوں بلکہ ہزاروں بے گناہ مقتولین کے خون کے چھینٹے بھی ہوں اسے محفوظ راستہ دینے کا جواز سمجھ میں نہیں آتا۔
جو جواز پی ڈی ایم اور اتحادی پیش کرتے ہیں اس پر صرف ہنسا جاسکتا ہے۔ افغان پالیسی کے دونوں ادوار بلوچستان کے حوالے سے اس کی اجتماعی سوچ اور پھر اس سوچ پر عمل کے نتائج یہ سب ہمارے سامنے ہیں۔ کڑوا سچ یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے "اس حصے" نے اپنے سوا سب کو کمزور کیا اور خود کو ایسے مسیحا و محافظ کے روپ میں پیش کروایا جس کا وجود آسمانی رحمتوں کے نزول مسلسل کی طرح حقیقت ہے۔
حالانکہ حقیقت نہ صرف مختلف ہے بلکہ بہت تلخ اور بھیانک بھی۔ آپ اسے سمجھنا چاہتے ہیں تو ٹھنڈے دل سے بٹوارے کے بعد اس نفرت کی ترویج سے سمجھنے کی کوشش کیجئے جس میں اسٹیبلشمنٹ نے خود کو ناگزیر کے طور پر پیش کیا منوایا۔ بدقسمتی سے ہم میں سے کسی میں اتنی ہمت نہیں کہ ہم ان رویوں پالیسیوں اقدامات اور نتائج پر مکالمہ اٹھاسکیں۔
سیاسیات اور صحافت کے ایک طالب علم کی حیثیت سے جب اپنے ملک کی پچھتر برسوں کی تاریخ کے اوراق الٹتا ہوں تو رونا آتا ہے پھر جی بہلانے کے اسباب بارے سوچتا ہوں۔
ایسے ہر موقع پر فقیر راحموں مجھے سمجھانے لگتا ہے کہتا ہے "یار شاہ نفرت پر ہوئے بٹوارے کے کھیتوں میں محبتوں کے سرخ گلاب نہیں اگائے جاسکتے ان میں خاردار جھاڑیاں ہی اگتی ہیں"۔ قریب قریب کی سچائی یہی ہے۔
ہم اس سے کیسے منہ موڑ لیں۔ ہم (یہاں ہم سے مراد 23کروڑ لوگ ہیں)
آج جہاں کھڑے ہیں اس مقام تک لانے کے ذمہ دار صرف سیاستدان ہرگز نہیں۔ ججوں، مولویوں، تاجروں، فوجی افسروں اور بیوروکریسی سب نے اپنا اپنا حصہ ڈالا۔ کم از کم میں اس حصے داری میں بھٹو صاحب کو بری الذمہ قرار نہیں دے پاتا۔ بنگلہ دیش کے قیام کے بعد بچے کھچے پاکستان میں زمینی حقائق کی روشنی اور مستقبل کی ضرورتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے قومی جمہوری سیکولر ریاست بنانے کی طرف سفر شروع کیا جاسکتا تھا۔
بدقسمتی سے ہوا اس کے برعکس۔ پہلے ہم نے مسلم امہ کے خواب دیکھے پھر اسلامی کانفرنس تنظیم کی "ہٹی" کھول کر بیٹھ گئے۔ شرف انسانی اور شخصی آزادی سے متصادم قانون سازی کی۔ بنگلہ دیش کے قیام کی وجوہات تلاش کرنے اور مستقبل کے لئے لائحہ عمل وضع کرنے کی بجائے ایک بار پھر اس ملک کو سکیورٹی اسٹیٹ بننے کے راستے پر دھکیل دیا۔
حالانکہ ہمارے پاس سنہری موقع تھا سکیورٹی سٹیٹ کی ٹوٹی ہوئی زنجیروں کو سمندر میں پھینکنے کا۔ یہ موقع گنوادیا صرف گنوایا ہی نہیں بلکہ ایسی پالیسیاں بھی بنائیں جن سے اسٹیبلشمنٹ پھر سے طاقتور ہوئی۔ اس طاقتور اسٹیبلشمنٹ نے اپنے ہی محسن کو قتل کے ایک جھوٹے مقدمے میں پھانسی چڑھادیا۔
کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ بھٹو صاحب جیسا نابغہ عصر آخر یہ بات کیوں نہ سمجھ پایا کہ "سکیورٹی سٹیٹ ایسی بھوکی ڈائن ہوتی ہے جو اپنے ہی بچے کھاتی ہے؟"
آج ہمارے سامنے دیوار پر لکھا سوال یہ ہے کہ ہماری آئندہ نسلوں کا مستقبل کیا ہے؟ معاف کیجئے کچھ ایسا ہی مستقبل ہے جیسا ہمارا حال ہے۔ وجہ یہی ہے کہ 1971ء کے بعد پچھلے برس دوسری بار موقع ملا تھا سکیورٹی سٹیٹ سے نجات کا لیکن پی ڈی ایم اور اتحادیوں نے وہ گنوادیا۔
آپ تحریر نویسی سے اختلاف کرسکتے ہیں لیکن میری رائے یہی ہے کہ جن حالات کا آج ہمیں سامنا ہے یہ حالات اس طور پر بھی ہمیں دیکھنا پڑتے اگر عمران خان کی حکومت رہتی۔ ایسا ہوتا تو 2018ء میں الیکشن مینجمنٹ کے سارے شراکت دار نہ صرف بے نقاب ہوتے بلکہ ان کے تجربوں کا شوق اور بالا دستی دونوں ہوا ہوجاتے۔
اچھا زیادہ سے زیادہ کیا ہوتا، ڈیفالٹ کرجاتے۔ ایسا ہوتا تو ہماری کمروں سے بہت سارا بوجھ اتر جاتا ہم ان بھاری بھرکم اخراجات سے جان چھڑالیتے جو ہر سال اعلانیہ اور غیراعلانیہ کرتے ہیں۔ نجات دہندوں کی حقیقت کی ہنڈیا بھی بیچ چوراہے کے پھوٹتی۔ لیکن کم حوصلہ سیاستدانوں نے موقع گنوادیا اب صورت یہ ہے کہ دوسروں کے حصے کی کالک بھی ان کا انعام ہے۔
اس پر طرفہ تماشا یہ ہے کہ سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی جگہ شاہراہ دستور کی ایک عمارت میں بیٹھے صاحبان لے رہے ہیں۔ کیا یہ تاریخ سے بلاتکار نہیں کہ پچھتر برسوں کے دوران دستور سے ماوراء اقدام کرنے والوں کو قانونی تحفظ فراہم کرنے والے کہہ رہے ہوں کہ ملک کی تاریخ میں صرف ایک وزیراعظم دیانتدار تھا۔
بات کرنے سے پہلے اپنے دامن نظریہ ضرورت پر ہی نگاہ ڈال لی جاتی تو مناسب تھا۔ میری دانست میں یہ دوسرا انتہائی رویہ ہے ویسا ہی جیسا پہلے سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کا ہوتا تھا۔ صرف ہم ایماندار، محب وطن، صاحب فہم ہیں باقی کسی کو کچھ نہیں پتہ۔
یہ رویہ بھی درست نہیں کڑوا سچ یہ ہے کہ جب کسی کو آزادانہ ماحول میں اس ملک کی تاریخ لکھنے کا موقع ملا تو ایمانداری کے سرٹیفکیٹ بانٹنے والے بھی مجرم کی طرح کٹہرے میں کھڑے ہوں گے۔
ان معروضات کے بعد مکرر یہ عرض کرتا ہوں کہ کاش بھٹو صاحب یک قومی نظریہ کے علمبردار بن کر پھر سے سکیورٹی سٹیٹ کو دانت تیز نہ کرنے دیتے۔
آخری بات یہ ہے کہ کیا آنے والے ماہ و سال میں بھی یہی کھیل جاری رہے گا یا کچھ بدلائو کی امید ہے؟ آیئے اس سوال پر غور کرتے ہیں اور ہم کر بھی کیا کرسکتے ہیں۔