Jail Bharo Tehreek Aur Mukhtar e Millat
جیل بھرو تحریک اور "مختارِ ملت"
آگے بڑھنے سے قبل دوباتیں عرض کردوں اولاً یہ کہ "تحریک انصاف کے ذمہ داران نے وضاحت کی ہے کہ ان کی جیل بھرو تحریک ملک گیر نہیں تھی یعنی شہر شہر گرفتاریاں دینے کا پروگرام ابھی نہیں بنا۔ فی الحال چند بڑے شہروں تک یہ پروگرام محدود ہے۔
23فروری کو صرف پشاور میں گرفتاریاں دینے کا پروگرام تھا۔ سوات، سیدو شریف، مردان، ڈیرہ اسماعیل خان وغیرہ میں نہیں اس لئے ان شہروں میں پولیس کا گاڑیاں لے کر سابق وزراء، ارکان اسمبلی اور رہنمائوں کے گھروں کے دروازوں پر گرفتاریاں دینے کے اعلانات کرنا بوکھلائی حکومت کے پروپیگنڈے کا حصہ ہے"۔
ثانیاً یہ کہ نیب کے سابق چیئرمین آفتاب سلطان کے استعفے کی منظوری کا نوٹیفکیشن جاری ہوگیا ہے۔ مناسب ہوتا کہ اگر آفتاب سلطان، سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کے بھائی کامران کیانی اور بحریہ ٹائون والے معاملے کے ساتھ ان چند معاملات پر بھی لب کشائی کردیتے جن کے حوالے سے عمومی تاثر یہ ہے کہ وہ ان معاملات میں کارروائی کر کے بڑے لوگوں سے پنگا نہیں لینا چاہیے تھے۔
خیر ہم اصل موضوع پر بات کرتے ہیں۔ 24فروری جیل بھرو تحریک کے لئے راولپنڈی کا دن تھا نماز جمعہ کے بعد مری روڈ کے مشہور زمانہ کمیٹی چوک پر تحریک انصاف کے لگ بھگ اڑھائی تین سو کارکن جمع ہوئے۔ فیاض چوہان، زلفی بخاری، صداقت عباسی سمیت چند مقامی رہنمائوں اور ایک سو کےقریب کارکنوں نے گرفتاری دی۔ غلام سرور خان، شیخ رشید اور واثق قیوم کمیٹی چوک پر دیکھئے گئے۔ شیخ نے تو تقریر بھی کی مگر تینوں گرفتاری سے قبل اپنی گاڑیوں میں بیٹھے اور "نکل لئے"۔
شیخ رشید نے چند دن قبل 10ہزار جانبازوں کی لال حویلی میں رجسٹریشن کا اعلان کیا تھا یہ بھی کہا کہ راولپنڈی سے میں سب سے پہلے گرفتاری دوں گا کیونکہ میں ڈرتا ورتا نہیں ہوں۔شیخ کتنے بہادر ہیں۔ پرانی باتیں چھوڑیں حالیہ جیل قیام بارے معلومات حاصل کیجئے ان کی بہادری کے قصے سر دُھننے پر مجبور کردیں گے۔ موصوف گرفتاری کے بعد بلڈ اور یورین ٹیسٹ کروانے سے انکاری ہوئے وجہ شیخ اور بہت سارے لوگ جانتے ہیں۔
شیخ کے سامنے فواد چودھری کی مثال تھی ان کے گرفتاری کے بعد ہوئے ٹیسٹ گلے پڑگئے تھے ایک نئے مقدمہ کے اندراج کی صورت میں۔غلام سرور خان کہتے ہیں میں جیل بھرو تحریک میں گرفتاری نہیں دوں گا۔ واثق قیوم موقع سے کیوں"نکل" گئے وہی بتاسکتے ہیں۔
خیر اب صورت یہ ہے کہ زلفی بخاری، فیاض چوہان، صداقت عباسی، اعجاز جازی، ساجد محمود، لطافت ستی وغیرہ کو 3ایم پی او کے تحت ایک ماہ کے لئے نظربند کرکے راولپنڈی سے شاہ پور جیل بھجوادیا گیا ہے۔
جمعہ 23فروری کو ہی پی ٹی آئی کی اتحادی مذہبی سیاسی جماعت ایم ڈبلیو ایم کے سربراہ راجہ ناصر عباس جعفری نے بھی کمیٹی چوک پر ہی اپنے "وفد" کے ہمراہ جیل بھرو تحریک کے لئے گرفتاری دی۔
اپنے ہم خیالوں میں"مختارِ ملت اور ناصر ملت" کے القاب سے یاد کئے جانے والے راجہ ناصر عباس جعفری کو جہاں اس معاملے پر اپنے ہی لوگوں کے ایک بڑے طبقے کی تنقید کا سامنا ہے وہیں حکومت نے بھی ان سے اچھا سلوک نہیں کیا۔
انہوں نے گرفتاری دی تھی تو اسے "نیاز" کے طور پر قبول کیا جانا چاہیے تھا لیکن پتہ نہیں کیوں انہیں رات گئے ایک ویرانے میں (بقول ان کی جماعت کے) لے جاکر چھوڑدیا گیا۔کیا کوئی جیل ان کے "دبدبے" کا بوجھ اٹھانے سے قاصر تھی؟
اطلاع یہ ہے کہ وزیر داخلہ اور چند سینئر وزراء کی مشاورت کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ راجہ عناصر عباس جعفری گرفتاری دینے آئیں تو انہیں موقع سے تو گرفتار کرلیا جائے لیکن چند گھنٹوں کے بعد رہا کردیا جائے۔ مشاورت کرنے والوں کی سوچ یہ تھی کہ ان کی گرفتاری نظر بندی میں تبدیل کی گئی تو اہل تشیع کا ایک دھڑا اسے مذہبی مسئلہ بنالے گا جس سے نقص امن کا خطرہ پیدا ہوگا۔
خیر انہیں رہا تو کردیا گیا لیکن "ویرانے" میں لے جاکر رہا کرنا اچھی بات نہیں۔ راجہ ناصر عباس جعفری مقامی اور عالمی سطح پر دشمن دار آدمی ہیں ویرانے سے گھر واپسی کے عمل میں انہیں کوئی نقصان پہنچ جاتا تو حکومت کے لئے مسئلہ پیدا ہوسکتا تھا۔ ابھی چند دن قبل وفاقی وزیر مذہبی امور کی موجودگی میں ایک کالعدم تنظیم کے اجتماع میں فورتھ شیڈول میں شامل چند مقررین نے جن "زریں خیالات" کا اظہار کیا وہ یقیناً وزارت داخلہ کے ماتحت محکموں کے ریکارڈ پر ہوں گے۔
پھر ان کا نام کالعدم تنظیموں کی ہٹ لسٹ پر بھی ہے۔ عام حالات میں حکومت نے انہیں نجی سکیورٹی رکھنے کی اجازت جن وجوہات پر دے رکھی ہے یہی وجوہات اس امر کی متقاضی تھیں کہ اگر گرفتاری کے بعد رہائی ضروری تھی تو پولیس کی گاڑی میں انہیں ان کی قیام گاہ تک پہنچادیا جاتا۔
یہ ویرانے میں"جبری رہائی" اچھی بات نہیں بلکہ اس سے ثابت ہوگیا کہ آئین شکن مقامی قوتوں کے ساتھ عالمی سامراج ڈرے ڈرے سے ہیں۔
جیل بھرو تحریک والوں کے لئے ایک اچھی خبر یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے شیخ رشید احمد سمیت 32ارکان قومی اسمبلی کو بحال کردیا ہے۔ عمران خان کو 6نشستوں سے ڈی نوٹیفائی کرتے ہوئے کرم سے قومی اسمبلی کا رکن رہنے دیا گیا ہے جبکہ بتایا گیا ہے کہ اسلام آباد میں ضمنی انتخابات ہوں گے۔
کیا اب امید کی جائے کہ یہ ا رکان واپس قومی اسمبلی جاکر اپنا جمہوری کردار ادا کریں گے یا ابھی بھی یہی کہیں گے کہ ہم امریکی سازش کے مہروں کے ساتھ نہیں بیٹھیں گے؟
یہ سطور 25فروری کی صبح لکھ رہا ہوں اس دن جیل بھرو تحریک کا ملتانی دن ہے یعنی ملتان میں پی ٹی آئی نے گرفتاریاں دینی ہیں۔
مخدوم شاہ محمود قریشی پہلے ہی اٹک جیل میں 30دن کے لئے نظربند ہیں۔ ان کے جانشین اول و آخر زین قریشی نے والد کی بازیابی کے لئے لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی ہے۔ گزشتہ روز اس درخواست کی سماعت کے دوران کمرہ عدالت قہقہوں سے گونجتا رہا۔ مزید سماعت اب سوموار کو ہوگی۔
آثار یہی ہیں کہ زین قریشی گرفتاری نہیں دیں گے کیونکہ بڑے مخدوم صاحب نے جو گرفتاری دیدی وہی "کافی و شافی" ہے۔ ملتان میں پی ٹی آئی کتنی رونق لگاپائے گی اس کے کارکنوں کے علاوہ سوشل میڈیائی مجاہدین میں سے کتنے گرفتاری دیتے ہیں یہ ان سطور کی اشاعت سے قبل آپ جان چکے ہوں گے۔
ہماری رائے یہی ہے کہ تحریک انصاف جیل بھرو تحریک کو ملک گیر وسعت دے مہنگائی اور دوسرے مسائل کی وجہ سے بے رونق ہوئے چہروں پے ان کے لگائے گرفتاریاں میلوں کی وجہ سے مسکراہٹیں بکھرتی ہیں تو برائی کیا ہے۔
یہ سطور لکھے جانے کے دوران مخبر نے اطلاع دی ہے کہ فقیر راحموں نے اپنے برادر عزیز اور دوست پیر سید ضامن علی شیرازی کو فون کرکے بتایا ہے کہ زلفی بخاری کو شاہ پور جیل بھیج دیا گیا ہے اس کا خیال رکھیں گے۔ ہم نے مخبر کی اس اطلاع پر فقیر راحموں کی طرف دیکھا تو کہنے لگے اگر تمہیں اپنے ملتانی بھائی مخدوم شاہ محمود قریشی کی عزت نفس کا خیال ہوسکتا ہے تو ہمیں اپنے بخاری بھائی کی فکر کیوں نہ ہو۔
اب بتائیں اس برادری پرستی کا کیا جواب دیا جائے۔ حالانکہ یہی فقیر راحموں اپنے مختار ملت کا ٹھٹھہ اڑانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ ستم یہ ہے کہ وہ جنرل پیر سید پرویز مشرف کاظمی کو بعدازمگر بھی معاف کرنے کو تیار نہیں۔ مگر زلفی بخاری کے لئے محبتوں کا "چناب" ٹھاٹھیں مار رہا ہے۔
چلیں اب کچھ باتیں مہنگائی کے حوالے سے ہوجائیں۔ مہنگائی کی مجموعی شرح 41فیصد سالانہ سے بڑھ گئی ہے۔ پچھلے ہفتے کے دوران گھی، مرغی، کیلے، دالوں، چینی، دودھ اور دہی کی قیمتیں مزید بڑھ گئیں۔
شریکوں کی نظر لگ گئی ہے کہ فقیر راحموں کا ڈن ہل بھی 500روپے کا ہوگیا۔ پچھلے چند دن سے گن کر دس سگریٹ پی رہے ہیں۔ موصوف برانڈ بدلنے کا مشورہ مسترد کرچکے فرماتے ہیں مرنا ہی ہے تو آکڑ کے ساتھ مریں گے۔
مہنگائی جس حساب سے بڑھ رہی ہے اس سے عام اور متوسط طبقات کے شہریوں کو جان کے لالے پڑگئے ہیں۔ دوسروں کا کیا کہوں اور بیان کروں خود اگر ہماری خاتون اول کی پنشن نہ ہوتی تو سفید پوشی کا بھرم پھوٹ جانا تھا۔ مکان کا کرایہ اور یوٹیلٹی بل ہر ماہ خون نچوڑ لیتے ہیں۔
معاملہ صرف مہنگائی کا نہیں بیروزگاری بھی دن بدن خوفناک انداز میں بڑھ رہی ہے۔ مشترکہ دوستوں سے جب بھی اس موضوع پر بات ہوتی ہے ہر شخص اس عذاب سے پریشان ہے۔ اس پر ستم یہ ہے کہ ادویات بھی مہنگی ہوتی جارہی ہیں۔ بتایا جارہا ہے کہ ادویات کی تیاری میں استعمال ہونے والے خام مال کی قلت ہے۔
یہ قلت بھارت سے خام مال منگواکر دور کی جاسکتی ہے لیکن سرحد کے دونوں اور بھڑکتی نفرتیں کون کم کرے جو دونوں طرف کی اسٹیبلشمنوں کا دھندہ ہیں۔ بہرحال مہنگائی میں کمی کا جلدازجلد حل تلاش کرنا ہوگا۔ واحد اور فوری حل پڑوسیوں سے تجارت کو فروغ دینے میں ہے۔ بھارت، ایران اور چین تینوں سے مقامی کرنسی میں تجارت کی جاسکتی ہے اور کی بھی جانی چاہیے۔