Istefa, Purani Sazish, Jehad Aur Reference
استعفیٰ، پرانی سازش، جہاد اور ریفرنس
نیب کے چیئرمین آفتاب سلطان مستعفی ہوگئے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں مداخلت قبول نہیں کرسکتا، مجھے کہا گیا کہ فلاں کے بھائی کو چھوڑدو اور فلاں کو پکڑلو یہ میرے لئے ممکن نہیں تھا میں قانون پر عمل کو ترجیح دیتا ہوں اس لئے مداخلت کے ماحول میں کام نہیں کرسکتا۔
پی ٹی آئی دعویٰ کر رہی کے آفتاب سلطان پر دبائو تھا کہ عمران خان کے خلاف مقدمے بنائیں انہوں نے دبائو قبول نہیں کیا۔ ایک حد تک تو یہ بہت اچھی بات ہے کہ آفتاب سلطان، جسٹس جاوید اقبال نہیں بنے ان کی عمومی شہرت بھلے مانس افسر کی رہی۔
وہ 2014ء کی دھرنا برانڈ سازش کو ناکام بنانے کے مرکزی کردار تھے۔ یہ آفتاب سلطان ہی تھے جنہوں نے دھرنا سازش کے پیچھے موجود چودھری ظہیر الاسلام اور شجاع پاشا اینڈ کو کے کرداروں کو بے نقاب کیا۔
اس وقت کی بعض اپوزیشن جماعتیں پیپلزپارٹی سمیت (ن) لیگ حکومت کے ساتھ ڈٹ کر کھڑی تھیں۔ انہی دنوں جناب نوازشریف کی دعوت پر ہوئی اپوزیشن رہنمائوں سے ملاقات میں آصف علی زرداری، محمود اچکزئی اور خورشید شاہ نے نوازشریف کو تجویز دی کہ چودھری و پاشا اینڈ کو کی سازش کے ثبوت پارلیمنٹ کے خصوصی اجلاس میں رکھے جائیں۔
اجلاس میں آرمی چیف اور آئی ایس آئی چیف دونوں کو بلایا جائے۔ پارلیمنٹ سازش کے کرداروں کے مستقبل کا فیصلہ کرے۔ راوی کہتا ہے کہ میاں نوازشریف اس کے لئے آمادہ تھے لیکن وہ دو وجوہات کی بنا پر پیچھے ہٹ گئے۔
پہلی وجہ اس دھرنا سازش میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا پرجوش کردار تھا انہیں خدشہ تھا کہ اگر معاملہ من و عن پارلیمنٹ میں لے جایا گیا تو فوج سے اختلافات بڑھیں گے اس صورت میں اکتوبر 1999ء جیسی صورتحال پیدا ہونے کا خطرہ ہے۔
دوسری وجہ دھرنے والوں کو حاصل امریکی حمایت تھی جو درحقیقت سی پیک منصوبے کو دفن کرنے کی امریکی خواہش سے عبارت تھی۔
نوازشریف سمجھتے تھے کہ اگر پارلیمان کوئی قدم اٹھاتی ہے تو فوج براہ راست مداخلت کرے گی۔ سی پی کو لے کر امریکہ فوجی اقدام کی حمایت کرے گا۔
ایک رائے یہ بھی سامنے آئی کہ اس وقت کے وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے وزیراعظم نوازشریف اور عسکری قیادت کی ملاقات کا اہتمام کیا اس ملاقات میں گلے شکوے ہوئے اور ٹائیں ٹائیں فش۔
طالب علم کی آج بھی یہی رائے کہ اگر اس وقت میاں نوازشریف اپوزیشن رہنمائوں کی تجویز مان لیتے اور دھرنا سازش کے کرداروں کو پارلیمنٹ کے کٹہرے میں لایا جاتا تو لُولی لنگڑی جمہوریت کے ساتھ 2017ء اور پھر 2018ء میں بلاتکار نہ ہوتا۔
خیر ہم نیب کے مستعفی چیئرمین آفتاب سلطان کی بات کررہے تھے۔ ان کے استعفیٰ پر پی ٹی آئی کا موقف ممکن ہے درست ہو لیکن کیا پی ٹی آئی نے اپنے دور میں نیب چیئرمین کو "نکے تھانیدار" کی طرح استعمال نہیں کیا؟ یہ درست ہے کہ جو کام کل غلط تھے وہ آج درست نہیں کہلائیں گے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ نیب سابق چیئرمین جسٹس جاوید اقبال ایک خودپسند اور حرص کے مارے شخص ہیں۔
آفتاب سلطان کے مستعفی ہونے کی ایک وجہ یہ بھی بتائی جارہی ہے کہ ان کے چند قریبی عزیز تحریک انصاف میں ہیں اور وہ اصل میں اپنے خاندان کے دبائو پر مستعفی ہوئے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ ایسا نہ ہوا ہو اوروہ واقعی اپنی اصول پسندی کی بدولت مستعفی ہوئے ہوں مگر سچ یہ ہے کہ پورا سچ وہ بھی نہیں جو آفتاب سلطان بیان کررہے ہیں کیونکہ اہم منصبوں پر فائز درجنوں افراد ایسے ہیں جو اپنے خاندانوں کی عمران خان سے محبت میں بدنامیاں سمیٹ رہے ہیں۔
مثلاً دو تین دن قبل خود عمران خان نے لاہور ہائیکورٹ میں اعتراف کیا کہ خواجہ طارق رحیم کی جانب سے دائر کی گئی درخواست ان کی مرضی سے دائر نہیں ہوئی۔ یہ وہی درخواست ہے جس پر عمران خان کے دستخطوں میں فرق کے باعث عدالت اور وکیل کے درمیان ہوئی گفتگو میڈیا پر رپورٹ ہوئی۔
قصہ یہ ہے کہ خواجہ طارق رحیم نے عمران خان کے جعلی دستخطوں سے درخواست دائر کی۔ قانون یہ کہتا ہے کہ درخواست گزار وکیل کے خلاف فوجداری قانون کے تحت جعلسازی کا کیس ہوتا مگر عدالت نے عمران خان کے منہ سے یہ سن کر کہ "درخواست میری رضامندی سے دائر نہیں ہوئی" معاملہ نمٹادیا۔
پوچھا تو یہ جانا چاہیے تھا کہ درخواست پر آپ کے دستخط ہیں یا جعلسازی کی گئی؟ یہ نہیں پوچھا گیا، کیوں؟ اس کیوں کا ایک مخصوص پس منظر ہے۔ اس پس منظر کی وجہ سے ہی کچھ باخبر لوگ جو باتیں کررہے ہیں وہ یہاں لکھنے سے قاصر ہوں البتہ بہتر ہوگا کہ لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نہ صرف وضاحت کریں بلکہ باتیں اگر غلط ہورہی ہیں تو کہنے اور آگے بڑھانے والوں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کریں۔
فقیر راحموں کا کہنا ہے کہ وضاحت اور کارروائی دونوں نہیں ہوں گے کیونکہ اگر ایسا ہوا تو پھر معاملہ شاہراہ دستور والی عدالت کے ایک محترم شاہ صاحب جیسا نکل سکتا ہے۔ معاف کیجئے گا تحریر نویس عامل صحافی ہے یوٹیوبر نہیں اس لئے اشاروں میں بات کرنا مجبوری ہے۔
اب آیئے اس آڈیو لیکس پر بات کرلیتے ہیں جس پر پاکستان بار کونسل سمیت 5دیگر بار کونسلوں نے متفقہ طور پر سپریم کورٹ جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کرنے کا اعلان کیا ہے۔
یہاں بھی معاملہ محض 2عدد آڈیو کی گفتگو کا ہرگز نہیں بلکہ اس سے آگے کے کچھ معاملات ہیں مثلاً لاہور کینٹ میں 4 کنال کے ایک پلاٹ کا معاملہ بھی ہے۔ یہ پلاٹ ایک شخص نے خریدا پھر ایک دن بعد نئے خریدار نے اس سے خرید لیا۔ نئے خریدار کے طور پر عزت مآب جج صاحب کا نام آرہا ہے جن کے خلاف بار کونسلیں ریفرنس دائر کرنے کا اعلان کرچکی ہیں۔
ایک عدد ویڈیو اور چند دستاویزات ایک نئے ریفرنس کی بنیاد بھی بن سکتی ہیں یہ غالباً لاہور کی ایک اعلیٰ عدالتی شخصیت کے خلاف ہوگا۔
کالم یہاں تک پہنچا تھا کہ فقیر راحموں نے کاندھے جھنجھوڑتے ہوئے اپنا دکھڑا سنانا شروع کردیا۔ ایک دکھ تو یہی ہے کہ ڈن ہل مزید مہنگا ہوگیا ہے۔ اس پر تو ہم دونوں ایک دوسرے کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔ دیگر چند دکھ یہاں لکھے نہیں جاسکتے فساد خلق کا خطرہ ہے۔
ان میں سے ایک دکھ ہمارے محترم خورشید ندیم کے ایک حالیہ کالم کے حوالے سے ہے۔ اس کالم میں انہوں نے تیسرے خلیفہ راشد سیدنا حضرت عثمان غنیؓ کے انتخاب کے مرحلہ بارے تاریخ میں موجود شواہد سے ہٹ کر کچھ لکھا ہے۔ خورشید ندیم اس معاملے میں وہی رائے رکھتے ہیں جوان کے ولی فکر و نعمت جناب جاوید غامدی کی ہے۔
میں کافی دیر سے فقیر راحموں کو سمجھارہا ہوں کہ یہ ہمارا موضوع نہیں ہے کیونکہ اس ملک میں تاریخ عقیدے کا مضمون ہے۔ تاریخ کو بطور تاریخ لکھنے اور تجزیہ کرنے سے اب ڈر لگتا ہے۔ کم از کم مجھے تو بالکل ڈر لگتا ہے۔ وجہ یہی ہے کہ اب یہاں مسلم تاریخ کی کتب میں موجود حوالہ جات کو پیش کرنا توہین کے زمرے میں آتا ہے۔
اس لئے پیارے فقیر راحموں ہمیں تو معاف ہی رکھو اس اوکھلی میں سر دینے کا کوئی شوق نہیں۔ ہمارے اس جواب پر حضرت منہ پھلائے بیٹھے ہیں، بزدلی کا طعنہ دے رہے ہیں لیکن ہم نے بھی فیصلہ کرلیا ہے جان اللہ کو دینی ہے بندوں کے ہاتھ نہیں چڑھنا اس لئے اس کی باتوں میں نہیں آنا۔
ہم پھر سے کالم کے اصل موضوع بلکہ یوں کہہ لیجئے کہ حصہ اول کی طرف پلٹتے ہیں۔ آفتاب سلطان دبنگ آدمی ہیں بہتر ہوتا اگر وہ خود پر دبائو ڈالنے اور فرمائشی پروگرام چلانے پر مجبور کرنے والی شخصیت یا شخصیتوں کے اسمائے گرامی سے بھی اپنے دعوے اور استعفیٰ کے ساتھ آگاہ کردیتے۔
اب چلتے چلتے دو تین خبروں پر بات کرلیتے ہیں۔ پہلی خبر یہ ہے کہ آئی ایم ایف نے بجلی کے صارفین پر 3روپے فی یونٹ سرچارج لگانے کا مطالبہ کردیا ہے یہ اضافی مطالبہ ان پیشگی شرائط سے الگ ہے جس کے نتیجے میں منی بجٹ نے جنم لیا۔ اس منی بجٹ کی وجہ سے لگ بھگ آٹھ سو ارب روپے کا بوجھ فقیر راحموں جیسے کروڑوں ناتواں کاندھوں نے اٹھانا ہے۔ اب اگر 3روپے فی یونٹ سرچارج والا مطالبہ بھی مان لیا گیا تو نتیجہ کیا نکلے گا اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔
دوسری خبر یہ ہے کہ عمران خان اور ان کی تیسری اہلیہ بشریٰ بی بی کو نیب نے توشہ خانہ کیس میں 9مارچ کو طلب کرلیا ہے۔ نیب نے ہی ہمارے مخدوم ملتان قبلہ شاہ محمود قریشی آف دولت گیٹ کو 7مارچ اور فواد حسین چودھری کو 8مارچ کو طلب کیا ہے۔
دونوں صاحبان اگر جیل بھرو تحریک میں پکڑے نہ گئے تو انشاء اللہ نیب میں پیش نہیں ہوں گے۔
تیسری خبر جناب عمران خان کی جیل بھرو تحریک کے حوالے سے پیغام ہے۔ انہوں نے کارکنوں سے کہا ہے کہ "جیل بھرو تحریک ایک جہاد ہے بدی کی قوتوں کے خلاف اس لئے وہ تحریک میں جہادی جوش و جذبہ سے شریک ہوں"۔
یہ بھی کہا ہے کہ "قیادت کا محفوظ رہنا جیل بھرو تحریک کی کامیابی کے لئے ضمانت ہے"۔
لفظ "جہاد" پر فقیر راحموں پوچھ رہے ہیں کہ جہادی جذبہ کے ساتھ پہلے سے "سرگرم عمل" لوگ بھی اس تحریک کا حصہ شمار ہوں گے یا نہیں؟