Imran Khan Kal Aur Aaj
عمران خان کل اور آج
یہ سطور 14مارچ کی شام میں لکھ رہا ہوں۔ پچھلے تین چار گھنٹوں سے لاہور میں عمران خان کی زمان پارک والی قیام گاہ کے باہر پولیس اور تحریک انصاف کے کارکنوں میں ہلکی پھلکی جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے۔ پی ٹی آئی کے کارکن لاٹھوں اور پتھروں سے اپنے "لیڈر" کے گھر کا دفاع کررہے ہیں۔ پولیس جوابی طور پر لاٹھی چارج اور آنسو گیس کے "گُر" استعمال کررہی ہے۔
عمران خان نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے فراہم کردہ ریلیف کے حساب سے 13مارچ کو توشہ خانہ کیس میں اسلام آباد کی ایک عدالت میں پیش ہونا تھا۔ پچھلی بار جب اسلام آباد پولیس ان کے وارنٹ گرفتاری لے کر لاہور آئی تو اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا اس سے اگلے روز اسلام آباد ہائیکورٹ نے وارنٹ گرفتاری 13مارچ تک کے لئے معطل کرتے ہوئے ان کے وکیل کو ہدایت کی کہ وہ 13مارچ کو عدالتی پیشی یقینی بنائیں۔
وہ 13مارچ کو عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔ عدم پیشی کی دو وجوہات وہ اور ان کے وکیل اور پارٹی کے دیگر رہنما پیش کرتے ہیں۔
اولاً وہ بیمار ہیں (وزیر آباد والے مبینہ قاتلانہ حملے میں زخمی ہوئی ٹانگ ابھی ٹھیک نہیں ہوئی) ثانیاً انہیں جان کا خطرہ ہے البتہ 13مارچ کو ہی وہ زخمی ٹانگ اور جان کی پروا کئے بغیر ایک بلٹ پروف گاڑی میں سوار ہوکر لاہور میں ایک ریلی کی قیادت کرتے رہے۔
کچھ دیر قبل فواد حسین چودھری اور سینیٹر شبلی فراز نے تقریباً ایک جیسی بات میڈیا سے گفتگو میں کی دونوں رہنمائوں کا کہنا تھا کہ "وارنٹ گرفتاری پر بنی گالہ کا پتہ لکھا ہوا ہے پولیس کس قانون کے تحت زمان پارک آئی ہے"۔ سینیٹر شبلی فراز نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ "عمران خان توشہ خانہ کیس میں عدالتی ضمانت پر ہیں ہمارا خیال ہے کہ ضمانت ختم نہیں ہوئی"۔ اس معاملے میں سینیٹر شبلی فراز کو غلط فہمی ہوئی ہے اسلام آباد ہائیکورٹ نے 13مارچ تک وارنٹ گرفتاری معطل کرکے عدالتی حاضری یقینی بنانے کا حکم دیا تھا نہ کہ ان کی ضمانت لی تھی۔
کہنے کو تو ہمارے مخدوم شاہ محمود قریشی نے بھی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ "پولیس مجھے وارنٹ دیکھائے ہم اس پر غور کرتے ہیں ممکن ہے کوئی درمیانی راستہ نکل آئے"۔
زمان پارک کے باہر پی ٹی آئی کارکنوں اور پولیس میں جھڑپیں جاری ہیں۔ سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کی اتحادی ایک مذہبی جماعت کے پرجوش کارکن حضرت امام علیؑ اور امام حسینؑ کے اقوال کے ساتھ عمران خان کا ساتھ دو کا ٹرینڈ چلائے ہوئے ہے۔ ایم ڈبلیو ایم کا تازہ جذبہ ایمانی غالباً اپنے ایک رہنما کی قم ایران میں گرفتاری کی وجہ سے جوش سے بھرا ہوا ہے جن کے بارے میں دعویٰ کیا جارہا ہے کہ انہیں پاکستانی حکومت کی درخواست پر گرفتار کیا گیا ہے۔
حقیقت کیا ہے یہ گرفتار ہونے اور گرفتار کرنے والوں کو معلوم، پاکستانی "راوی" اس بارے ابھی خاموش ہیں۔ کوئی آواز بھی سنائی نہیں دے رہی کہ سن سناکر وجہ گرفتاری کا مرثیہ لکھا جائے۔
کئی برسوں تک ملک میں ایک نہیں دو قانون کی گردان کرنے والے عمران خان خود کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہی نہیں بلکہ اس کا عملی مظاہرہ بھی کررہے ہیں۔ 14مارچ کو انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان کے خلاف تمام مقدمات ایک جگہ یکجا کردیئے جائیں۔ مناسب ہوتا وہ اس جگہ کی بھی نشاندہی کردیتے جہاں مقدمات منتقل ہونے چاہئیں۔ مقدمات سچے ہیں۔ جھوٹے یا سیاسی انتقام کا حصہ ہیں۔ ان میں سے درست بات کون سی ہے فیصلہ تو بہرطور عدالت نے ہی کرنا ہے۔
عدالتی فیصلوں اور انصاف کے حوالے سے وہ برسوں لمبے لمبے بھاشن دیتے رہے ہیں لیکن خود پر آن پڑی ہے تو وہ تاثر دے رہے ہیں کہ ریاست، قانون اور عدالتی نظام تینوں"حقیر" ہیں۔
چند دن قبل انہوں نے کہا تھا میں 72سال کا بوڑھا شخص ہوں یہ مجھے گرفتار کرنا چاہتے ہیں۔ خان صاحب کے پرانے بیانیہ کے حساب سے 72سال والے سارے قیدی اور زیرسماعت مقدمات کے ملزمان کو رہا کردیا جانا چاہیے کیونکہ وہ اور ان کے ساتھی ماضی میں اپنے سیاسی مخالفین کی ضمانتوں یا بیماری پر ملنے والے عدالتی ریلیف کا تمسخر اڑاتے ہوئے یہی کہا کرتے تھے کہ پھر جیلوں میں بند تمام چھوٹے چوروں اور بیمار قیدیوں کو رہا کردیا جائے۔
خان صاحب گرفتاری سے گریزاں کیوں ہیں؟ اس سوال کا ایک جواب تو وہ ہے جو ان کے سیاسی مخالفین اپنے بیانات میں دیتے ہیں۔ ان کے سیاسی مخالفین کے بیانات ہوں یا خود ان کے، اپنے سیاسی مخالفین بارے ماضی کے بیانات ان سے "حظ" تو اٹھایا جاسکتا ہے سنجیدہ نہیں لیا جاسکتا۔
وہ اپنے سوا سب کو چور کہتے آئے ہیں اس کے باوجود کہ وہ اعتراف کرچکے کہ سیاسی مخالفین کی کرپشن کی فائلیں انہیں ایجنسیوں نے دیکھائیں۔ اب ان کے خلاف بھی چوری، کرپشن، اقربا پروری اور چند دیگر الزامات کے تحت مقدمات ہیں جو بقول ان کے سیاسی انتقام کا حصہ ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ وہ اور ان کے حامی مخالفین کے خلاف مقدمات کو درست اور اپنے خلاف مقدمات کو جھوٹ، انتقام اور بہت کچھ کہتے ہیں۔
یوٹرن ان کی سیاست کا خاصا ہے اور یہ بھی کہ وہ مخالفین کے خلاف زہر بھرے لہجے میں نفرت آمیز تقاریر کرتے ہیں اور خود دیوتا جیسا تقدس چاہتے ہیں۔ سادہ سی بات ہے اگر ان کے خلاف مقدمات جھوٹے ہیں تو پھر انہیں تو انصاف کے عمل پر پورا یقین ہے عدالتی عمل کا حصہ بنیں اور جھوٹ و انتقام کا پردہ چاک کردیں۔
"ہاتھ کنگن کو آرسی کیا"
وہ خود کہتے رہے ہیں کہ میری جدوجہد مافیاز کو قانون کے نیچے لانے کے لئے ہے مگر اب وہ قانون کا سامنا کرنے کی بجائے گھر کے اندر تشریف فرما ہیں اور کارکنوں کو باہر کھڑا کررکھا ہے۔ ایک ثابت قدم رہنما اور بہادر شخص کی طرح انہیں قانون اور حالات کا سامنا کرنا چاہیے۔
ساعت بھر کےلئے رکئے۔ سیاسی عمل سیاسی عمل ہے، نظریات اور آراء کا اختلاف ہی سیاسی جماعتوں کی تشکیل کا باعث بنتا ہے۔ خان بھی اپنے نظریات کو دوسروں سے مختلف بتاتا آیا ہے۔ سیاسی اختلافات میں کسی ایک فریق کو حسینی اور دوسرے کو یزیدی قرار دینا صریحاً غلط ہے بالخصوص اس صورت میں تو بالکل غلط جب مسلم تاریخ کی شخصیات کے کردار و عمل کو سمجھے اور عمل کئے بغیر من پسند تقسیم کے فتوے جاری کئے جائیں۔ خان صاحب چونکہ اپنے موقف کے حق میں اسلامی ٹچ روا سمجھتے ہیں اور پھر خیر سے انہیں اب ایک "خاص" مذہبی جماعت کا قرب بھی حاصل ہے جس کا روزگار ہی حسینیت و یزیدیت پر چلتا ہے اس لئے ایسے ایسے اقوال پیش کئے جارہے ہیں جن پر عمل کرنا پڑے تو ان سب بلکہ سبھی کی چیخیں نکل جائیں۔
خان ایک سیاسی جماعت کا سربراہ ہے اڑھائی عشرے تک وہ خود کو دوسروں سے مختلف کے طورپر پیش کرتا رہا اب بھی کردار و عمل میں انفرادیت کے مظاہرہ کی ان سے توقع کی جارہی ہے مگر اس کا کیا کیجئے کہ وہ بھی بس زبان دانی کے ماہر نکلے۔
اصولی طور پر انہیں سیاسی جدوجہد کے مراحل میں فخر اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ ان کے خلاف درج مقدمات جھوٹے ہیں تو اس جھوٹ کا پردہ عدالتوں میں فاش کریں نہ کہ عدالتی عمل کا سامنا کرنے سے گریز کی حکمت عملی اپناکر۔
پسِ نوشت:آخری بات یہ ہے کہ تحریک انصاف کے کارکنوں نے زمان پارک کے باہر پٹرول بم سے حملہ کرکے پولیس کی واٹر کینن جلادی ہے۔