Baatein Faqeer Rahmon Ki Aur Iske Sabiqon Ki
باتیں فقیر راحموں اور اس کے "سابقوں" کی
فقیر راحموں کی ایک "سابق عزیزہ" کافی عرصے سے سوشل میڈیا کی مختلف "والز" پر کھجل ہورہی ہیں۔ اس معاملے پر فقیر راحموں سے جانکاری چاہی تو جواب ملا "وہ" جو کہتی لکھتی پھر رہی ہیں اس کے "زندہ ثبوتوں" کے بغیر تو کوئی اتنا بڑا "دعویٰ" نہیں کرسکتا۔
فقیر راحموں اصل بات بتاتے نہیں اور اس کی سابق عزیزہ تلوار بدست ہے۔ لگتا ہے کہ وہ اپنے سابق "بوڑھے" عزیز فقیر راحموں کی شہادت کے درپے ہے۔ اس کے غصہ اور نفرت دونوں نے قلعہ الموت کے "حشیشن" کی یاد دلادی۔ وہ بھی اپنے حاضر امام کی محبت عقیدت اور بھاشنوں کے ایسے ہی اسیر تھے۔
فرق بس اتنا ہے کہ قلعہ الموت والے خنجر سے شہ رگ کاٹتے تھے یہ گالیاں دیتے ہیں اور گاہے پرانی عزیز داری کے دنوں کے "بھید" سوشل میڈیا پر کھولتے ہیں۔ حالانکہ اچھے خاندانوں میں تعلقات اور رشتوں کے خاتمے پر زبان بندی کو عبادت سمجھا جاتا ہے۔ خیر ان کے بکھیڑے میں الجھنے کی ہمیں کیا ضرورت پڑی ہے۔
ہم نے برسوں بلکہ عشروں سے یہ طے کررکھا ہے کہ حاضر و سابق دوستوں اور رشتوں کے نجی معاملات میں مداخلت کی جائے نہ ان کے نجی قصوں کو چوپالوں کی زینت بنایا جائے۔ کبھی کبھی جی چاہتا ہے کہ "تسلی" کروادی جائے پھر سوچتا ہوں اس کا فائدہ ہاں یہ ضرور ہے کہ اگر فقیر راحموں کی سابق عزیزہ نے ان کے بوڑھاپے بارے کوئی "کتاب شتاب" لکھ ماری تو پھر کیا ہوگا۔
فقیر راحموں کا کہنا ہے کہ کمپنی معاف کیجئے گا آستانہ عالیہ ڈن ہل شریف کی مشہوری ہوجائے گی۔ ایک تو یہ فقیر بھی عجیب بلکہ بہت ہی عجیب بندہ ہے اسے کسی چیز کی پروا ہی نہیں۔ بس "جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے " والی صورتحال ہے۔ ان داستانوں کی رونق چاردیواری میں اچھی لگتی ہے گھر کی باتیں ہوں یا پرانے رشتوں کی بازاروں میں لے آئیں تو پھر یہ دہنوں کا چسکہ بن جاتی ہیں۔
دنیا چسکے بازوں سے بھری پڑی ہے۔ چسکے دار باتیں ایف 17سے زیادہ تیزرفتاری سے پرواز کرتی ہیں۔ کم از کم ہم نے تو یہی دیکھا ہے۔ آپ کسی سابق تعلق دار یا سابق رشتے بارے غیرمحتاط انداز میں زبان کھولیں پھر زبان آپ کی نہیں رہتی۔
ہمارے نزدیک یہ اکیسویں صدی کا المیہ ہے کہ کسی سیاسی رہنما یا جماعت کی اندھی محبت میں تعلق اور رشتے خراب کئے جائیں یا سابق رشتوں پر کیچڑ اچھالا جائے۔ بھرم کی بہت اہمیت ہے حاضر اور سابق دونوں طرح کے تعلقوں اور رشتوں میں بعض لوگ اسے قائم نہیں رکھ پاتے۔ خسارے کا سودا کرتے ہیں۔ حالانکہ اس کی ضرورت نہیں۔
اب ہمیں نہیں معلوم کہ ان دو سابق رشتوں میں سے ایک میں اتنی نفرت کیسے بھر گئی کہ وہ وال وال کھجل ہوکر فقیر راحموں کے لتے لینے اور ان کی حیات عزیز کے برسوں (صرف 64برس ہی تو ہیں) کو طعنہ بنائے ہوئے ہیں۔ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔
فقیر راحموں بتانے سے اجتناب برت رہا ہے یہ اچھی بات ہے یکطرفہ جنگ اس رویہ کی وجہ سے طول نہیں پکڑے گی۔ ورنہ ایک کتاب بھی لکھی جاسکتی ہے۔ ہم بہرحال دونوں کے لئے دعاگو ہیں اللہ کرے کتاب لکھے جانے کی نوبت نہ آئے۔ آگئی تو تہمینہ درانی کی "مینڈا سائیں" سے زیادہ "فروخت" ہوگی۔
معاف کیجئے گا یہ کالم کا بڑا حصہ فقیر راحموں اور اس کی "سابق عزیزہ" کے معاملے کی بھینٹ چڑھ گیا۔ حالانکہ اس کی ضرورت نہیں تھی لیکن جب کوئی اٹھتے بیٹھتے اور وال وال دربدر ہوکر فقیر راحموں کو بڈھا کھوسٹ قرار دے اور رکیک حملے کرے تو ہمیں فقیر راحموں کا دفاع کرنا ہی پڑے گا۔
آخر چونسٹھ برسوں کا ساتھ ہے ہم تو اتنے کٹھور اور طوطا چشم نہیں کہ اپنے یار کو تنہا چھوڑ کر رفوچکر ہوجائیں۔ اس لئے بالائی سطور کو ہماری جانب سے چیتاونی ہی سمجھا جائے۔ فقیر راحموں کی ذات پر مہامتے کی اندھی محبت میں رکیک حملے بند نہ ہوئے جواب آں غزل ہی نہیں لکھیں گے بلکہ سود سمیت حساب کریں گے نتائج سے بے پروا ہوکر۔
چند ساعتوں قبل حضرت کہہ رہے تھے شاہ جی یہ تمہیں اس سارے معاملے سے اتنی دلچسپی کیوں ہے؟ عرض کیا تعلق خاطر کا احساس ہے اور یہ بھی ہمارے ہوتے ہوئے کس کی مجال ہے کہ وہ آپ کی "پَت رولے"۔ اور جو رولنے میں مصروف ہے اسے ہی اگر ٹوٹے تعلقوں کا احساس نہیں تو جو ہو سو ہو۔
حضرت نے ایک کتاب اٹھائی اور اب سامنے صوفے پر دراز ہیں کتاب کے اوراق الٹ رہے ہیں گاہے گاہے کہتے ہیں"رو نوں سگدی تے کُڑے بھگت ہن"
چلیں کچھ بلکہ ایک آدھ وہ بات کرتے ہیں جس سے اس کو آگ لگتی ہے۔ لگنی بھی چاہیے دیوتا ورثے میں ملا ہو یا ہاتھوں سے تراشا ہو عزیزجاں ہوتا ہے بالکل ایسے جیسے ہمیں فقیر راحموں عزیز بلکہ محبوب ہے۔
حضرت آجکل سرائیکی میں نثری نظمیں لکھ رہے ہیں۔ شاعر بننے کا بھوت سوار ہے یا کتھارسس کررہے ہیں تو وہی جانتے ہوں گے لیکن ان کی نظموں پر واہ واہ ہورہی ہے۔ ان کے ایک دوست جاوید رضا سرائیکی نظم کا اردو میں اور دوسرے محب مبشر علی فاروق ایڈووکیٹ انگریزی میں ترجمہ کردیتے ہیں۔
لگتا ہے فقیر کے دونوں دوست اسے ایک ہی وقت میں اردو اور انگریزی دان طبقوں کا شاعر منوانے پر تلے ہوئے ہیں۔
اے کاش کہ ہمیں بھی جاوید رضا اور مبشر علی فاروق جیسے مہربان اور قدردان مل جاتے وہ ہماری کتاب "قیدی کے خطوط المعروف دل و جاں کی بتیاں" کا انگریزی ترجمہ کردیتے پھر آپ دیکھتے کیسے عالم مغرب، آسٹریلیا اور امریکہ میں ہمیں بھی ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا۔
سنا ہے وہاں تو بندے کی ایک آدھ کتاب مقبول ہوجائے تو اگلی سات نسلیں آرام فرماتی ہیں۔ یہاں ہماری حالت یہ ہے کہ مرتب، نظرثانی و تصنیف کردہ 34 کتابیں، مگر "خدا ہی ملا نہ وصال صنم"۔
سادہ انداز میں سمجھاتا ہوں۔ یہ غالباً 2006ء کی بات ہے اپنے دہلوی سرکار اور چوتھے فوجی صدر جنرل پرویز مشرف مدظلہ عالی کی کتاب شائع ہوئی پتہ چلا جنرل صاحب کو اس کتاب "ان دی لائن آف فائر" سے مبلغ 6کروڑ روپے کی آمدنی ہوئی ہے۔
فاطمہ نے جنرل کی کتاب اور 6کروڑ روپے ملنے کی خبر ٹی وی پر سنی ہم اس وقت اپنے ڈرائنگ روم میں دوستوں کی محفل سجائے علم و ادب، سیاست اور تاریخ کے دریائوں میں غوطے لگارہے تھے۔ ڈرائنگ روم کا دروازہ کھلا فاطمہ نے اندر داخل ہوکر کہا
"بابا جان آپ نے سنا جنرل پرویز مشرف کو ایک کتاب کے 6کروڑ روپے ملے ہیں ایک آپ ہیں کہ 34 کتابیں لکھ دیں لیکن پانچ مرلے کا گھر بھی نہیں دے سکے بیٹی کو
(بہت بعد میں اسے سمجھ میں آیا کہ 34میں سے 12 کتابیں ہماری تصنیف کردہ ہیں 2 پر ہم نے نظرثانی کی اور 20مرتب کی ہیں) محفل دوستاں پر سکوت مرگ طاری ہوگیا۔ خود ہمارا جو حال تھا وہ نہ پوچھیں۔
باردیگر معاف کیجئے گا۔ فقیر راحموں کی نثری شاعری کا ذکر ہورہا تھا۔
اس کے ایک ملتانی دوست خواجہ ضیاء صدیقی نے اعلان کیا ہے کہ وہ فقیر راحموں کی کتاب شائع کروائیں گے۔ ہمیں لگتا ہے کہ خواجہ پیا کے اس اعلان پر حضرت کی آجکل حالت یہ ہے کہ "بجلی بھری ہے اپن کے انگ انگ میں" ہر دوسرے تیسرے دن ایک عدد نظم پھڑکاتے ہیں۔
گزشتہ شب بھکر سے ملنے آئے دوست فیاض مبیل کو فقیر نے اپنی شاعری میں سے تبرکاً 2نظمیں سنائیں۔ وہ اصرار کررہے تھے کہ ویڈیو بناتے ہیں۔ وہ تو ہم نے فقیر کی محبت میں منع کردیا کیونکہ جو نظم اس نے گزشتہ روز لکھی ہے وہ مسیتڑوں کو سمجھ میں آگئی تو شہادت پکی ہے۔
صبح بیڈ ٹی سُڑکتے ہوئے ہم نے فقیر راحموں سے پوچھا، یار فقیر یہ شاعری کا شونق کیوں چرایا۔ بولے، آستانے کی مشہوری کے لئے تاکہ عقیدت مند یہ نہ سمجھ لیں کہ "آستانہ عالیہ ڈن ہل شریف" کے بانی مبانی کو آتا جاتا کچھ نہیں، بس اس کا یار شاہ اپنے کالموں میں اس کا ذکر کرکے مشہوری کررہا ہے لیکن ہم تو آپ کے حوالے سے وہی لکھتے ہیں جو آپ بتاتے ہیں۔
سگریٹ کا گوڑا کش لگاکر دھواں کمرے میں اچھالتے ہوئے بولے، یار شاہ یہ بات تو ٹھیک ہے لیکن مجھے اپنی شناخت خود بنانی ہے کب تک تم اپنے کالموں کا پیٹ میری باتوں سے بھر کر روزی روٹی کرتے رہو گے۔
چونسٹھ برس کے ہوگئے ہو اب کچھ تھوڑی بہت محنت خود بھی کرلیا کرو۔
لیجئے قصہ ہی خلاص کردیا حضرت نے۔ اب مزید کیا کہا لکھا جائے۔ اس "بوڑھاپے" میں نیا ہمزاد کہاں تلاش کرتے پھریں گے۔