Aur Farrukh Habib Bhi
اور فرخ حبیب بھی
سابق وفاقی وزیر مملکت اور تحریک انصاف کے رہنما فرخ حبیب جو ستمبر کے آخری ہفتے میں گوادر سے "غائب" ہوئے تھے گزشتہ روز تخت لاہور میں منظرعام پر آئے اور ایک دھواں دار پریس کانفرنس میں استحکام پاکستان پارٹی میں پناہ گزین ہوگئے۔ طارق متین نامی ایک اینکر نے پھبتی کسی کہ 2018ء میں ایک شخص (فرخ حبیب) نئی پراڈو گاڑی لئے اسلام آباد میں پی ٹی آئی کا ٹکٹ لینے کے بدلے گاڑی دینے کی پیشکش کے ساتھ گھومتا رہا پھر اسے فیصل آباد سے ٹکٹ دلوانے والا مل گیا۔
سوشل میڈیا کی سائٹ "ایکس" پر ایک خاتون نے دعویٰ کیا کہ "فرخ حبیب کی ہمشیرہ ہفتہ بھر سے ریاست کی تحویل میں تھی اس گرفتاری نے اسے توڑ کر رکھ دیا بہن کی خاطر اس نے پارٹی چھوڑدی"۔
اس ٹیوٹ سے کچھ دیر قبل اسی خاتون نے فرخ حبیب کی بزدلی پر بھاں بھاں کی تھی۔ ایک اور صاحب ہیں شاہین صہبائی، معروف صحافی ہیں آجکل امریکہ میں مقیم ہیں انہوں نے چند دن قبل اپنے ایکس اکائونٹ (ٹیوٹر) پر دعویٰ کیا تھا کہ فرخ حبیب اغوا کئے جانے کے بعد تشدد کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہوگئے ہیں۔
بہرحال شہید زندہ ہوتاہے والی بات گزشتہ روز اس وقت سچ ثابت ہوئی جب فرخ حبیب عون چودھری کے ساتھ لاہور میں پریس کانفرنس کررہے تھے۔ اس پریس کانفرنس میں انہوں نے جو کہا اس پر آگے چل کر بات کرتے ہیں۔
پہلے بالائی سطور میں تین مختلف افراد کی باتوں یا دعوئوں پر بات کرلیتے ہیں۔ طارق متین الیکٹرانک میڈیا سے منسلک اینکر ہیں۔
انہیں غالباً یہ معلوم نہیں کہ فرخ حبیب انصاف اسٹوڈنٹس فیڈریشن سے تحریک انصاف میں شامل ہوئے تھے۔ آئی ایس ایف کے رہنما اور پھر فیصل آباد میں پی ٹی آئی کو فعال بنانے کے لئے اپنی خدمات پر وہ عمران خان کے سیاسی رفقا میں شامل ہوئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اینکر صاحب جس شخص بارے دعویٰ کررہے ہیں کہ وہ 2018ء میں پی ٹی آئی کا ٹکٹ لینے کے لئے نئی پراڈو گاڑی دینے کے لئے تیار تھا اس شخص پر 2018ء کے انتخابی عمل میں ہی یہ الزام لگایا گیا کہ اس (فرخ حبیب) نے فیصل آباد میں پارٹی ٹکٹ دلوانے کے لئے بعض امیدواروں سے پیسے پکڑے ہیں۔
عمران خان نے اس الزام پر سیف اللہ نیازی اور فیصل جاوید خان کو چھان بین کی ذمہ داری سونپی اس دو رکنی کمیٹی نے فرخ حبیب پر الزامات کو ذاتی عناد کی وجہ قرار دیا تھا۔
سوشل میڈیا صارف بٹ نامی خاتون جنہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ فرخ حبیب کی ہمشیرہ ہفتہ بھر سے ریاست کی تحویل میں تھی اس لئے فرخ ٹوٹ کر بکھر گیا۔ یہ خاتون پی ٹی آئی کی شاندار حامی ہی نہیں ممکن ہے رکن بھی ہوں۔ انہوں نے قبل ازیں مراد شہید کی شہادت کے ساتھ اپنے ٹیوٹر اکائونٹ پر کچھ مزید دعوے بھی کئے تھے۔ بعض دعوے بیٹیوں اور اہلیہ کے اغوا کے بھی تھے۔
چونکہ فرخ حبیب کے خاندانی ذرائع اس "معزز" خاتون کے دعوے کی تائید نہیں کررہے اس لئے ان کے باوثوق ذرائع پر تبصرہ الفاظ ضائع کرنے جیسا ہے۔
اب آیئے معروف صحافی اور اب امریکہ میں مقیم شاہین صہبائی کے غلط ثابت ہوئے دعوے پر انہوں نے چند دن قبل اپنے اکائونٹس پر لکھا کہ فرخ حبیب تشدد سے شہید ہوگئے ہیں۔ سادہ لفظوں میں تو یہ ہے کہ شاہین صہبائی صحافیوں کے میجر عادل راجہ ہیں لیکن ایک عام رپورٹر سے انگریزی اخبار کی ادارت تک کا سفر طے کرنے والے سینئر صحافی نے اس طرح کا بھونڈا دعویٰ کیوں کیا۔ اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے حامی یوٹیوبرز اور صحافی (خواتین و حضرات دونوں) ایک سے بڑھ کر ایک دعویٰ ٹھوک رہے ہیں۔
ہم اگر صرف میجر عادل راجہ اور شاہین صہبائی کے دعوئوں کو لے لیں تو اب تک پاکستان میں ایک کائونٹر انقلاب نے "جل تھل" کردیا ہوتا۔ ہزاروں مخالفینِ عمران خان۔ بجلی کے کھمبوں پر لٹک رہے ہوتے اور ملک کے ہر بڑے چوک پر انقلابی عدالتیں 24 گھنٹے فیصلے کررہی ہوتیں۔
مسلح افواج کی کمان بطور کمانڈر انچیف سابق جنرل فیض حمید کررہے ہوتے۔ ملک میں اسلامی صدارتی نظام کا دوردورہ ہوتا۔
ایک بات بہرطور تسلیم کرنا پڑے گی کہ تحریک انصاف پروپیگنڈہ کرنے اور رات کو دن منوانے میں ماہر ہے۔ مثال کے طور پر پی ٹی آئی کے پروپیگنڈہ باز منواچکے تھے کہ عمران خان اڈیالہ جیل میں ایک ایسے سیل میں بند ہیں جو 6 فٹ لمبا اور پانچ فٹ چوڑا ہے لیکن گزشتہ روز وہ 35 فٹ والا سیل عدالتی حکم پر توسیع کے بعد 60 فٹ کا بنادیا گیا ہے۔
خصوصی عدالت نے یہ بھی حکم دیا ہے کہ گھر کے کھانے اور ورزش کے لئے سائیکل کی فراہمی کو جیل مینول کی روشنی میں دیکھا جائے۔
اب آیئے فرخ حبیب کی سیاسی قلابازی پر۔ آئی ایس ایف سے پی ٹی آئی، قومی اسمبلی کی رکنیت اور پھر وزیر مملکت بننا اور بعدازاں پی ٹی آئی شمالی پنجاب کا صدر نامزد ہونا ایک سیاسی کارکن کے لئے یہی سیاسی معراج ہوتی ہے۔ کوئی بھی پارٹی زیادہ سے زیادہ اپنے دیرینہ کارکن کو اس سے زیادہ کیا دے سکتی ہے۔
فرخ حبیب پر ان کی جماعت کے دور اقتدار میں کرپشن اور اقربا پروری کے کچھ الزامات لگتے رہے درست تھے یا غلط یہ ہمارا موضوع ہی نہیں۔ ان پر ایک الزام اشتہاری ایجنسیوں سے حق خدمت لینا تھا یہ الزام عملی طور پر یہ ثابت نہیں ہوسکا۔
اپریل 2022ء کے بعد وہ پارٹی کے انقلابی کیڈر میں شمار کئے جانے لگے۔ اپنی تقاریر، بیانات، انٹرویوز، وی لاگز وغیرہ میں انہوں نے ہر اس شخص اور قوت کو دبنگ انداز میں للکارا جسے وہ عمران خان کا دشمن سمجھتے تھے۔
ہر مخالف کو آڑے ہاتھوں لیا۔ 9 مئی کے بعد کے ان کے بیانات وغیرہ بھی پارٹی اور عمران خان سے وفاداری کے اظہار میں اپنی مثال آپ تھے۔
گزشتہ روز پی ٹی آئی چھوڑ کر استحکام پاکستان میں شمولیت کے وقت انہوں نے جو پریس کانفرنس کی سادہ لفظوں میں وہ ایک سیاسی کارکن کے شایان شان ہرگز نہیں۔ غائب یا اغوا ہونے سے قبل ان کا ان تمام امور پر موقف کچھ اور تھا۔
پریس کانفرنس میں ہزار زاویہ کی الٹی زقند بھرتے ہوئے فرخ حبیب نے جو کچھ کہا گو اس میں روایتی روانی ضرور تھی لیکن 25 ستمبر سے قبل وہ ان الزامات کو پاکستانی تاریخ کا سب سے بڑا جھوٹ، عوام دشمنی، اسٹیبلشمنٹ کی چاپلوسی وغیرہ وغیرہ قرار دیتے رہے۔
سیاسی کارکن ابتلا کے دنوں میں جماعت اور قیادت کےساتھ ڈٹ کر کھڑے ہوتے ہیں ہمارے اور آپ کے سامنے چند ایک نہیں ہزاروں مثالیں موجود ہیں۔
فرخ حبیب کی جگہ اگر 2018ء یا اس سے کچھ قبل کسی جانب سے ہانک کر لائے گئے شخص نے یہ سب کہا ہوتا جو اس نے کہا ہے تو ہم کہہ سکتے تھے "جیسی کرنی ویسی بھرنی"۔ ہانک کر لائے گئے لوگوں کو کیسے ان کی جماعتوں سے پی ٹی آئی کی طرف بھیجا گیا یہ کوئی راز نہیں لیکن فرخ حبیب تو پی ٹی آئی کے نظریاتی کارکن تھے۔
گزشتہ شام سے سوشل میڈیا پر ان کے سابق جماعتی ساتھی ان کے بارے میں جو کہانیاں لکھ رہے ہیں وہ اگر درست بھی ہیں تو ان لمحوں ان کی صداقت مشکوک ہوجاتی ہے۔ اسی طرح ان کے عمران خان پر الزامات ہیں ان پر اعتبار کون کرے گا۔
اس صورتحال میں جہاز سے باہر پھینکوائے گئے سردار جی اور طوطے والی کہانی یاد آگئی۔ طوطے نے اپنے ساتھ جہاز سے باہر پھینکوائے جانے پر سردار جی سے پوچھا "سردار جی اڈنا آندا جے؟ سردار جی بولے نئیں، طوطے نے جواب دیا فیر پنگا کیوں لیا سی"۔
یہی بات دوسرے انداز میں فرخ حبیب کے لئے ہے۔ انہیں وہ بات کرنا کہنا چاہئے تھی جس کا بوجھ اٹھانے کی جسم اور نظریہ میں سکت تھی۔
یہ عرض کرنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ ان کا عمل سیاسی کارکنوں کے لئے جگ ہنسائی کے سوا کچھ نہیں۔ ان سے تو پی ٹی آئی کی خواتین کارکنان کروڑہا فیصد بہتر اور پرعزم ثابت ہوئیں۔ یاد رہے کہ موقف کے غلط درست ہونے پر ہم سوال اٹھارہے ہیں نہ رائے دے رہے ہیں۔
فقط یہ عرض کررہے ہیں کہ غلط سمت کھڑے آدمی کو بھی آڑے وقت میں صاحب کردار تو ثابت ہونا چاہیے۔ 9 مئی سے 25 ستمبر کے درمیانی 5 ماہ کے دوران انہوں نے جتنے بیانات دیئے تقاریر کیں انٹرویو اور وی لاگز میں جو باتیں کہیں وہ عمران خان نے ان سے ڈنڈے کے زور پر تو نہیں کہلوائی تھیں۔
آخری بات اگر نظریہ کی بجائے صرف مخالفین سے نفرت ہی سیاست اور ذہن سازی کی بنیاد ہو تو یہی ہوتا ہے جو دیکھنے میں آرہا ہے۔