Anjuman Janam Dehar 25 December
انجمن جنم دیہاڑ 25دسمبر
ارادے باندھنے سے زیادہ اہم یہ ہے کہ جس کام کے لئے ارادہ باندھا وہ درست ہے یا نہیں۔ ویسے تو ہر شخص خودکو کبھی نا درست نہیں سمجھتا۔ درست و نادرست کی بحث بھی یہاں ایسے ہی ہے جیسے "اپنا اپنا ظالم اور مظلوم"۔
فی الوقت تو اپنے ایک مہربان دوست کا شکریہ ادا کرنا ہے جن کے توسط سے چند کتابیں گزشتہ دوپہر مجھ تک پہنچ گئیں۔ پروفیسر ڈاکٹر اشتیاق احمد کی تصنیف "پنجاب کا بٹوارا" (ایک المیہ ہزار داستان) مرزا جعفر حسین کی "قدیم لکھنؤ کی آخری بہار" ڈیوڈ بیتم اور کیون بابلے کی مشرکہ تصنیف "جمہوریت کیاہے؟" اس کا ترجمہ انصار حسین نے کیا ہے۔
پروفیسر اڈورڈ جنکس کی تصنیف "قدیم سیاست کی تاریخ" عبدالقوی فانی نے اس کا ترجمہ کیا ہے۔ گزشتہ سپہر ہی فیصل آباد میں مقیم ایک عزیزہ حنا سرور کی بھجوائی ان کی تصنیف "نامکمل زندگی" بھی ملی۔
حنا سرور کی تصنیف "نامکمل زندگی" پر فی الوقت یہی عرض کرسکتا ہوں کہ "عزیزہ نے کمال مہارت سے ایک آئینہ بصورت کتاب رکھ دیا ہے۔ اپنی معذوری کوعملی جدوجہد کے آڑے نہیں آنے دیا بلکہ زندگی کے تجربات اور تلخیوں سے رہنمائی لے کر کتاب لکھنے کا سوچا اور لکھ دی۔
ایک معذور معاشرے کو اس سے بہتر انداز میں آئینہ نہیں دیکھایا جاسکتا تھا"۔ مندرجہ بالا کتابوں کو پڑھنے کے بعد آپ کو شریک مطالعہ کروں گا۔ برادرِ عزیز شاکر حسین شاکر کی کتاب "علی منزل" پر عرض کرنا ادھار ہے۔
پچھلی شب سے فقیر راحموں سر کھائے ہوئے ہے ارشاد ہورہا ہے کہ (آپ مطالبہ بھی کہہ سکتے ہیں) 25دسمبر کے حوالے سے کچھ لکھا جائے۔ ہر سال 25دسمبر کو لاہور پریس کلب کے الیکشن ہوتے ہیں۔ لاہور میں ہوتا ہوں تو ووٹ ڈالنے کے لئے جاتا ہوں۔ اس بہانے بہت سارے دوستوں سے سالانہ ملاقات ہوجاتی ہے۔
لاہور میں پچھلے چند دنوں سے جاڑے اور دھند کے ڈیرے ہیں۔ پریس کلب کے الیکشن کے حوالے سے متعدد دوستوں کے پیغامات بھی موصول ہورہے ہیں۔ امیدواروں کی ایک لمبی فہرست ہے۔ ظاہر ہے کہ کسی نہ کسی کو تو ووٹ دینا ہی ہے۔
25دسمبر کا ایک تعارف تاریخی طورپر حضرت مسیحؑ ہیں۔ دنیا بھر کی مسیحی برادری جوش و خروش سے یہ دن مناتی ہے۔ یورپ، امریکہ، آسٹریلیا اور دیگر ملکوں میں سنا ہے کہ دسمبر کے آخری عشرے (دس دنوں) میں اور کہیں پورا ایک ماہ قیمتیں کم کردی جاتی ہیں سیل لگتی ہے نچلے طبقات اس سے بہت فائدہ اٹھاتے ہیں۔
یہ سیل ہمارے ہاں کی "لوٹ سیل" کی طرح نہیں ہوتی کہ 700 سو روپے والی چیز 1500 روپے قیمت کا سٹکر لگاکر سیل میں 900روپے کی فروخت کرلی جائے۔ ہم تو خیر تجارت کو سنتؐ سمجھنے والی مخلوق ہیں۔ رشوت کی کمائی سے بنائی بلڈنگ پر "ہذا من فضل ربی" لکھواکر شیطان اوراس کے چیلوں کا منہ چڑاتے رہتے ہیں۔
محرم الحرام اور ربیع الاول میں قیمتیں بڑھالیتے ہیں۔ رمضان المبارک میں شیطان اور شتونگڑوں کی قید کے قصے خود شیطان اور شتونگڑے ایک دوسرے کو سناتے ہیں۔
سادہ انداز میں یہ کہ ہمارے ہاں منافع کمانے کے بہانے نہیں ڈھونڈے جاتے بلکہ منافع کمایا جاتا ہے۔ اس پر یہ زعم بھی ہے کہ ہم کوئی پسندیدہ امت وغیرہ ہیں اور کسی دن غالب بھی آئیں گے۔ حالانکہ مرزا اسداللہ خان غالب کو گزرے صدیاں بیت چکیں۔
25دسمبر ہمارے ہاں پہلے گورنر جنرل قائداعظم محمدعلی جناح جو بابائے قوم بھی کہلاتے ہیں کے یوم ولادت کے طور پر "سرکاری جذبہ ایمانی" سے پرجوش انداز میں منایا جاتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس تاریخ پیدائش اور مقام پیدائش کے حوالے سے اسناد کے ساتھ تنازع موجود ہے۔
خیر ہمیں ان تنازعات سے کیا لینا دینا۔ ہم پہلے کون سے سیدھے کام کرتے ہیں۔ قرارداد لاہور کی منظوری کا اصل دن 24مارچ کی بجائے 23مارچ کرلیا۔ آزادی ملی یا بٹوارہ ہوا 15اگست 1947ء کو، منا 14اگست کو رہے ہیں۔
فقیر راحموں کے بقول "ہوتا ہے ایسے ہی ہوتا ہے بڑے شہروں میں" پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ ہمیں پریشان ہونے کی ضرورت کیا ہے ہم تو خوش ہوتے ہیں کیونکہ 25دسمبر ہمارے یارِ دلدار، ارشاد امین کا جنم دن ہے۔ کچھ اور دوستوں کا جنم دن بھی یہی ہے جیسے ماضی کی معروف اداکارہ نیلی، وہ بھی 25دسمبر کو ہی دنیا میں تشریف لائیں۔ جنم بھومی ان کی حیدر آباد ہے۔ حیدر آباد دکن نہیں اپنے سندھ والا حیدر آباد۔
ہمیں یہ شہر ارجمند لاکھیو مرحوم اور واجد علی سیلانی کی وجہ سے اچھا لگتا ہے اور رسول بخش پلیجو کی وجہ سے محبوب بھی۔ سندھ دریا کے کنارے ہزاریوں سے آباد اس شہر کی اپنی تاریخ ہے۔
اپنے سول سپر میسی کے مجاہد اعظم جنہیں فقیر راحموں محبت سے کامریڈ چنگچی گویڑا بھی کہتا ہے دعویدار ہیں کہ وہ 25دسمبر کو ہی دنیا میں تشریف لائے۔ اب آپ اتنے بھولے بھی نہیں کہ نہ جانتے ہوں کہ 25 دسمبر کو مسلم لیگ کے قائد میاں نوازشریف کی سالگرہ منائی جاتی ہے۔
میاں صاحب دو بار پنجاب کے وزیراعلیٰ اور تین بار اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیراعظم رہ چکے ہیں آج کل بغرض علاج معالجہ لندن میں مقیم ہیں انہیں علاج کے لئے سابق وزیراعظم عمران خان نے کابینہ کے اجلاس میں لندن جانے کی اجازت اپنے مشیر صحت ڈاکٹر فیصل کی رپورٹ پر دی تھی۔
ہارون الرشید کہتے ہیں کہ میاں صاحب 5یا 6ارب ڈالر دے کر ملک سے گئے۔ یہ ڈالر کس نے لئے عمران خان نے، جنرل قمر جاوید باجوہ نے یا پھر حکومتی خزانے میں جمع ہوئے؟ فقیر راحموں نے روشنی "پاتے" ہوئے کہا ہے کہ ڈالروں والے ٹرک پر ہارون الرشید گارڈ کے طور پر سوار تھے۔ اصل حقیقت انہیں ہی پتہ ہوسکتی ہے کہ وہ ٹرک کس کے گھر چھوڑ کر آئے تھے۔ عمران کے یا باجوہ کے۔
عمران خان تو نوازشریف کے بیرون ملک جانے کے چند ماہ بعد سے شور مچامچاکر کہہ رہے تھے لوگو! نوازشریف کی بیماری جھوٹی تھی۔ جعلی رپورٹوں سے مجھے دھوکہ دیا گیا۔ دھوکہ کس نے دیا ڈاکٹر فیصل نے یا محترمہ ڈاکٹر یاسمین راشد نے؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب خود عمران خان بھی نہیں دیتے پتہ نہیں کیوں۔ وجہ وہی جانتے ہوں گے۔
بالکل ویسے ہی جیسے وہ یہ جانتے ہیں کہ 2019ء کے دورہ امریکہ کے دوران اس وقت جنرل باجوہ بھی امریکہ کے دور پر تھے۔ پینٹاگون اور وائٹ ہائوس میں مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے ان دونوں کو امریکہ نے کیا بریفنگ دی اور دونوں نے کیا یقین دہانی کروائی تھی کہ ان کے دورہ امریکہ کے ایک ماہ بعد ہی بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو اپنی مملکت کا مستقل حصہ بنالینے کا قانون نافذ کردیا۔
کیا ہی اچھا ہو کہ عمران خان جوکہ آج کل جنرل قمر جاوید باجوہ کو اٹھتے بیٹتھے آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں کسی دن تھوڑی سی ہمت دیکھاکر عوام کو مقبوضہ کشمیر پر امریکہ میں طے پائے معاملے بارے بھی بتادیں۔ وہ تو کہتے ہی رہتے ہیں میں بے اختیار وزیراعظم تھا ایک اور بے اختیاری کا اعتراف کرکے "نئی کشمیر پالیسی صرف بیان بازی میں رب تے کشمیری راضی" سے پردہ اٹھاہی دیں۔
مجھے یاد ہے کہ ان (عمران خان کے حاضر اور باجوہ کے سابق) ایک سکہ بند مجاہد نے 2019ء والے دورہ امریکہ پر لکھے گئے ہمارے کالم پر ہمیں آڑے ہاتھوں لیا تھا۔ آئی ایس پی آر والے بھی ناراض شراض ہوئے تھے۔
آج کل چونکہ عمران خان جنرل قمر جاوید باجوہ بارے کہہ رہے ہیں کہ اس نے ملک کے ساتھ جو کیا وہ دشمن بھی نہیں کرسکتا۔ اس پر ایک بھارتی گانے کے بولے یاد آگئے
"دشمن نہ کرے دوست نے جو کام کیا ہے"
معاف کیجئے گا یہ قصہ درمیان میں یونہی آن ٹپکا ہم تو 25دسمبر کے حوالے سے بات کررہے تھے۔ حضرت مسیحؑ، جناح صاحب، ارشاد امین، اداکارہ نیلی سمیت چند اور دوستوں کا جنم دن ہے۔ اپنے قبلہ پیر سید فقیر راحموں بخاری ملتانی حال مقیم لاہور آستانہ عالیہ ڈن ہل والے کا میلادِ مسعود بھی 25 دسمبر ہی ہے۔ 25دسمبر 1958ء جنم شہر ملتان ہے۔
چلیں یہ کوئی اتنا معروف آدمی نہیں جتنے اپنے کامریڈ سول سپر میسی میاں نوازشریف ہیں۔ آپ پہلی بار 1990ء میں وزیراعظم بنے تو ان پر انکشاف ہوا کہ جنم پرچی پر جو تاریخ پیدائش درج ہے وہ کسی کلرک کی غلطی ہے۔
انہوں نے کلرک کی اس غلطی کو درست کروانے کے لئے باضابطہ درخواست دے کر تصحیح کروائی اور "انجمن جنم دیہاڑ 25دسمبر" کے رکن بن گئے۔
ہم ان دنوں ماہنامہ "زنجیر" اور روزنامہ "مساوات" لاہور میں قلم مزدوری کرتے تھے۔ میاں صاحب کو 25دسمبر کلب میں شمولیت پر بہت داد دی ایک کالم میں اور عرض کیا تھا وطن عزیز کو حقیقی قائداعظم ثانی مل گیا ہے۔
یہ سوال بھی کیا تھا کہ آخر ایک بار وزیر خزانہ اور دوبارہ پنجاب کا وزیراعلیٰ بننے کے باوجود وہ تاریخ پیدائش کے حوالے سے کلرکانہ غلطی کیوں نہ جان سکے۔
یاد پڑتا ہے تب فقیر راحموں نے جملہ اچھالا تھا "شاہ جی اصل میں میاں صاحب وزیراعلیٰ کے طور پر رنجیت سنگھ کی جنم پرچی تلاش کرواتے رہے وہ نہیں ملی تھی"
اس جملے کی تشریح اور تفسیر ہر شخص اپنے رسک پر خود کرے۔ بہرحال "انجمن جنم دیہاڑ 25دسمبر" کے جملہ ارکان بالخصوص حضرت مسیحؑ کے محبین، جناح پرستوں، ہمارے دوستوں ارشاد احمد امین اور اداکارہ نیلی کے ساتھ ہمزاد فقیر راحموں کو جنم دن کی خصوصی مبارک۔
قائد سول سپر میسی قائداعظم ثانی کامریڈ میاں نوازشریف کے حئی و بہی خواہوں اور خود ان کو بھی جنم دن مبارک۔