Andhi Jazbatiat
اندھی جذباتیت
یہ سطور لکھتے وقت حماس اسرائیل جنگ کا پانچواں دن ہے۔ اس عرصے میں 1100 سے زائد اسرائیلی اور 850 فلسطینی جاں بحق ہوئے۔ غزہ کی ناکہ بندی کے دوران ہوئے اسرائیل حملے پچھلے پچھتر برسوں کے سب سے ہولناک حملے ہیں۔
اسرائیل نے حماس کے سینکڑوں جنگجووں کی نعشیں ملنے کا دعویٰ کیا ہے لیکن آزاد ذرائع سے اس کی تصدیق نہیں ہوپارہی۔ گزشتہ دو دنوں میں اسرائیل نے لبنان پر بھی حملے کئے۔ شامی میڈیا کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوجیوں نے سرحدی خلاف ورزی کی ہے۔
سادہ لفظوں میں غزہ میں اس وقت بارود کا رقص ہے۔ بھوک ہے، ملبے کے ڈھیر، 2 لاکھ 60 ہزار کے قریب لوگ اپنی چھتوں سے محروم ہوچکے ہیں۔ اقوام متحدہ نے خبردار کیاہے کہ بے گھر ہونے والوں کی تعداد بڑھ سکتی ہے۔
اقوام متحدہ نے غزہ کے محاصرہ کو عالمی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ چالیس کلومیٹر طویل اور 10کلومیٹر چوڑی غزہ کی پٹی کی مجموعی آبادی 22 لاکھ کے قریب ہے۔ غزہ کے ایک طرف اسرائیل دوسری جانب بحیرہ روم اور تیسری سمت میں مصر جبکہ چوتھی سمت میں ویسٹ بینک (محمود عباس کی سربراہی والی فلسطینی اتھارٹی کا علاقہ) اس جنگ کا انجام کیا ہوگا۔ مزید تباہی و بربادی اور پھر مذاکرات کی میز۔
اس وقت فریقین اور ان کے حامی دعووں کے ساتویں آسمان پر ہیں۔ طاقت کا پلڑا اسرائیل کے حق میں ہے۔ غزہ کے فلسطینیوں کے پاس صرف اسرائیل سے لڑتے رہنے کا جذبہ ہے۔ ان (حماس) کی حالیہ کامیابیوں پر تالیاں پیٹنے والوں کے ہاتھ تالیاں بجارہے ہیں اور دہنوں سے جنگ بازی کے مخالفین کے لئے نفرتوں کے گولے نکل رہے ہیں۔
حماس کے پاکستانی حامیوں کے خیال میں حماس کا ساتھ نہ دینے والے منافق ہیں۔ سوشل میڈیا کے پاکستانی حصے میں ایک تصویر گردش کررہی ہے تصویر کے کیپشن میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ جماعت اسلامی کے شعبہ الخدمت کے نصف درجن سامان سے بھرے ٹرک غزہ کے لئے سفر میں ہیں۔
یہ نصف درجن ٹرک کس راستے سے غزہ جائیں گے یہ سوال اس لئے اہم ہے کہ مصر میں جنرل سیسی کی حکومت نے غزہ سے ملحقہ سرحد بند کردی ہے۔ اسرائیل اور بحیرہ روم کے ذریعے جماعت اسلامی کے ٹرک غزہ پہنچ نہیں سکتے۔
حماس اسرائیل جنگ کا ایک نقشہ وہی ہے جو بالائی سطور میں عرض کیا اس میں یہ اضافہ کرلیجئے کہ حماس نے اسرائیل سے کہا ہے کہ وہ عسقلان شہر کو خالی کردے۔ اسرائیلی شہر عسقلان کو اس جنگ میں خاصا نقصان پہنچا ہے۔
یہ جنگ سوشل میڈیا پر بھی مذہبی جوش و جذبہ سے لڑی جارہی ہے۔ سوشل میڈیا کے پاکستانی حصے میں دو طرح کے لوگ سرگرم ہیں اولاً وہ جو فلسطینی تحریک کو قومی آزادی کی جنگ سمجھتے ہیں۔ اس گروہ کے دو حصے ہیں ایک حصہ مسئلہ فلسطین کا حل 2 قومی ریاستوں کی صورت میں دیکھتا ہے دوسرا حصہ صرف فلسطینی ریاستی میں۔
یہ ایک ہی حصے کے دو گروہ ہیں۔
دوسرا گروہ فلسطینی مسئلہ کو اسلام اور یہودیت کے تناظر میں دیکھتا ہے۔ یہودیوں کے لئے اس گروہ کے خیالات ویسے ہی ہیں جیسے خود اس گروہ میں شامل مختلف الخیال مسلم فرقوں کے ایک دوسرے کے بارے میں ہیں۔ اس گروہ میں مختلف الخیال مسلم فرقوں کے وہ لوگ شامل ہیں جو ہر چیز اور معاملے کو مذہب اور عقیدے کی آنکھ سے دیکھتے ہیں اور مذہب و عقیدے میں سے ہی حل پیش کرتے ہیں۔
اس کے خیال میں یہودی کرہ ارض کی سب سے بڑی برائی ہیں۔ یہ وہی گروہ ہے جس کے مذہبی رہنما (مولوی، پیر وغیرہ وغیرہ) صدیوں تک اس غلط فہم کو پروان چڑھاتے رہے کہ یہودی خدا کی دھتکاری ہوئی مخلوق ہیں انہیں قیامت تک دربدر رہنا اور ذلیل ہونا ہے۔ زمینی حقائق اس فہم کے یکسر برعکس ہیں۔ آپ جدیدیت کے مختلف شعبوں میں یہودیوں کی تحقیق کا حصہ سامنے رکھیں تو صاف پتہ چلتا ہے کہ مسیتڑ مارکہ جھوٹ بولتے رہے۔
فی الوقت ہم طویل المدتی منصوبے کے تحت یہودیوں کی فلسطینیوں سے اراضی کی خریداری، اسرائیلی ریاست کے قیام ان دونوں باتوں کو ذرا اٹھارکھتے ہیں۔ البتہ آپ قیام اسرائیل کے بعد سے حالیہ حماس اسرائیلی جنگ تک کے درمیانی عرصہ میں عرب اسرائیل اور فلسطین اسرائیل جنگوں کے نتائج کا تجزیہ کیجئے۔ ہر ایک جنگ میں اسرائیل نے مقبوضہ جات میں اضافہ کیا۔
ساعت بھر کے لئے رکئے۔ یمن کے اقتدار اعلیٰ سے علی ابوالصالح کو نکال کر منصور ہادی کو لابیٹھانے والوں نے ایک چالیس ملکی فوج بنائی تھی۔ عملی طور پر یہ تیس ملکی اتحاد تھا اس میں امریکہ بھی شامل تھا اس اتحاد نے جس کی قیادت سعودی عرب کے پاس تھی اور یمن میں منصور ہادی و اتحاد مخالف حوثیوں کے ساتھ ایران، حزب اللہ لبنان، شام اور عراق کے اہل تشیع تھے۔ عرب اتحاد کی وجہ سے صرف 2015ء سے 2018ء کے درمیان 85ہزار بچے بھوک سے جاں بحق ہوئے۔ اقوام متحدہ کے مطابق یمن کی سات سالہ جنگ میں 4 لاکھ افراد جاں بحق ہوئے اس میں سے ایک لاکھ 50ہزار براہ راست جنگ کا نشانہ بنے۔
عرب اتحاد اور یمن کی جنگ میں پاکستانی مسلم فرقوں کے سارے عرب نواز عرب اتحاد کے حامی تھے۔ صوفی سنیوں یعنی بریلویوں کا ایک محدود طبقہ یمن کے حوثیوں کی اخلاقی حمایت کرتا دیکھائی دیا۔ اہل تشیع کی اکثریت حوثیوں کی حمایتی رہی کیونکہ ایران حوثیوں کے ساتھ تھا۔ اس وقت حماس اسرائیل جنگ میں شیعہ مذہبی و سیاسی جماعتوں کے علاوہ بھی اہل تشیع کا بڑا حصہ حماس کا حامی ہے۔
اس کی اہم ترین وجہ ایران کے نظام ولایت فقیہہ کی جانب سے القدس کی آزادی کو شیعہ مسلک کے واجبات کے حصے کے طور پر منوالینا ہے۔
یمن اور القدس کے حوالے اس لئے عرض کئے ہیں کہ ہم یہ دیکھ سمجھ سکیں کہ ہمارے ہاں کتنے لوگ فکری آزادی کے ساتھ علاقائی و عالمی معاملات کو دیکھتے تجزیہ کرتے اور رائے قائم کرتے ہیں، کتنے صرف عقیدوں کی محبت میں گندھے غلط درست کے چکر میں نہیں پڑتے اور کتنے ہیں جو مذہب کی آنکھ سے معاملات کو دیکھتے ہیں اور انہیں لگتا ہے کہ ساری دنیا اسلام اور مسلمانوں کے خلاف متحد ہے۔
یہودوہنود سازشیں کرنے سے باز نہیں آتے۔ یہ یہودوہنود اصل میں پسندیدہ اور غالب لائی جانے والی امت سے خوفزدہ ہیں۔
مجھ طالب علم کے نزدیک اسرائیل فلسطین تنازع اسلام و یہودیت کا جھگڑا ہرگز نہیں یہ بنیادی طور پرایک قوم کا اپنے عالمی مربیوں کے تعاون سے دوسری قوم کے بنیادی حقوق پامال کرنے ان کی شخصی و قومی آزادی چھین لینے کا مسئلہ ہے۔ اسی لئے میں کیمپ ڈیوڈ سمجھوتے اور اوسلو معاہدے کو مسئلہ فلسطین کے حل کی طرف پیش قدمی کی صورت سمجھتا ہوں۔ میری رائے میں اسرائیل نے کیمپ ڈیوڈ اور اوسلو معاہدوں سے انحراف کیا۔
ورنہ دو قومی ریاستوں کے فارمولہ پر دستخط کے بعد اگر وہ سنجیدگی سے عمل بھی کرتا تو یہ تنازع حل ہوچکا ہوتا۔
یہاں اس امر پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ خود عربوں نے فلسطینیوں کو بے یارومددگار کیوں چھوڑدیا؟
بے یارومددگار دو معنوں میں اولاً انہوں (عربوں) نے فلسطین کا مقدمہ اس طور عالمی سطح پر نہیں لڑا جس طرح امریکہ برطانیہ وغیرہ نے اسرائیل کا۔ دوسرا جس طرح امریکہ برطانیہ اور ان کے اتحادیوں نے اسرائیل کی تعمیر و ترقی کے لئے تعاون کیا عرب دنیا وسائل رکھنے کے باوجود فلسطینیوں کی اس طرح مدد کیوں نہ کرسکی؟
صرف غزہ کو لے لیجئے پچھلے کم از کم 23 برسوں میں عرب دنیا نے غزہ کی 22 لاکھ کی آبادی کے لئے کتنے تعلیمی ادارے، فنی تربیت گاہیں اور ہسپتال بنوائے؟
اس دوسرے سوال کا تجزیہ کرتے ہوئے عرب دنیا کے 5ملکوں لبنان، مصر، اردن، شام اور عراق جہاں ماضی میں وسیع تعداد میں فلسطینی مہاجرین مقیم تھے بڑی حد تک اب بھی ہیں ان ملکوں کے داخلی معاملات میں فلسطینی مہاجرین کی شرکت کے نتائج کو بھی مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے۔
فلسطینیوں کی جنگ قومی آزادی کی تحریک ہے اسے اسلام و یہودیت کی جنگ بناکر پیش کرنے والے فلسطینیوں کے ہمدرد نہیں ہیں بلکہ یہ ویسی ہی سوچ کے لوگ ہیں جنہوں نے کشمیریوں کی قومی مزاحمت کو مسلم ہندو جنگ میں بدلنے کی روش اپنائی اور پھر مقبوضہ کشمیر میں لوگوں کے عقیدے درست کرنے لگے۔ نتیجہ کیا نکلا تھا؟
ہمارے سامنے مسئلہ فلسطین پر جھاگ اڑاتے کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو پاکستان میں مساوی حقوق اور خصوصاً بلوچ مسئلہ پر بات کرنے کو بھارت نوازی قرار دیتے نہیں تھکتے۔
آخری بات، فلسطینیوں کی قومی مزاحمت ان کا حق ہے دو قومی ریاستوں کے بغیر مشرق وسطیٰ میں امن قائم نہیں ہوسکتا۔ فتوئوں اور طنز وغیرہ کو رزق بنانے کی بجائے اس حقیقت کو تسلیم کیا جانا چاہیے مختلف الخیال لوگوں کے اجتماع کو ہی سماج کہتے ہیں۔