Rab Ki Atta Aur Bande Ki Khata
رب کی عطا اور بندے کی خطا
انسان کتنا ہی مہربان کیوں نہ واقع ہوا ہو، مگر جب بھی وہ کسی پر پے در پے احسانات کرتا ہے، تو کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی موڑ پر غصہ، خفگی، طیش یا عداوت کے جذبات میں بہہ کر یا یوں ہی بلا سوچے سمجھے اپنی زبان، لہجے یا انداز سے اپنا احسان جتا ہی جاتا ہے۔مگر میرا خدا جس کے کرم، مہربانی اور احسان مندی کی نہ کوئی حد مقررہے نہ کوئی انتہا، جو بندوں کوااپنی نافرمانیاں کرتے ہوئے دیکھتا ہے اور دیکھتا جاتا ہے، مگران پرعطائیں و مہربانی روکتا نہیں ہے، انکی آخری سانس تک پلٹ آنے کا انتظار کرتا ہے، مہلت پر مہلت دیتا رہتاہے، کبھی درد، چبھن، اذیت ٹھوکراور محرومی دے کرانھیں اپنی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہے، تاکہ اس کا بندہ سنبھل جائے، لوٹ آئے۔
پر اسکا بندہ، ڈھیر ساری عنایتیں پاکر ممنون ہونے اور سجدہِ شکر بجا لانے کے، طرز عمل کیااختیار کرتا ہے؟
اپنی بداعمالیوں پرشرمسار ہونےعاجزی اختیار کرنےکے بجاۓ، زمین پر فساد برپا کرتا گناہوں میں مشغول رہتااکڑتارہتا ہےخلافِ شریعت احکام میں اپنی آسانی یا خواہشات کے پیش نظر کیوں، کیسے، کس لئے جیسے، بے بنیاد جواز و دلیلوں میں الجھ کر یہ اپنے رب کےحکم کے آگے اپنی چاہت کوبالاتر سمجھتا اور اپنی مرضی کو فوقیت دیتا ہے، وہ کہتا رک جاؤ! یہ مصالحت کی تلاش شروع کردیتاہے، مخالفت کویہ مجبوریوں کانام دے ڈالتا ہے، لامتناہی خواہشوں کے سمندر میں ڈوب کراطاعت ِالہی کویکسر فراموش کررہا ہے۔
اپنے رب کی جو ان گنت وسائل، نعمتیں، مہربانیاں اسے میسر ہیں، اگر وہ خفاہوجاۓ، غضب میں آکر اپنی کسی ایک عطاکو بھی اس سے چھین ڈالے، تو ایسی صورت میں زندگی کا تصور بھلا کیا رہ جائے گا، بالفرض جسم میں موجود رگوں کا جال جو اس نے اپنی حکمت سے بچھا رکھا ہے کسی ایک رگ ہی کو وہ منجمد کردے، بنااسکی حرکت کہ کوئی عضو اگر ناکارہ ہوجاۓ، توانسان کیا کرسکتا ہے؟ اسےسوچنا چاہیے؟ اسے ضرورخوف سے لرزناچاہیے؟
کیا ہے انسان اور کس لیۓ ہے وجود انسانی؟ اسے اپنی حقیقت کو پہچاننا چاہیے؟ اپنی کسی چیز کا بھی تو یہ مالک نہیں، نہ عقل اسکی نہ دانائی اسکی، نہ مال اسکا نہ شہرت اسکی، نہ علم اسکا، نہ کوشش اس کی، سب رب کی کرم نوازیاں ہیں بہت مجبور اور محتاج ہے، مگر رب نے اسے عظمت بخشی ہے، ساری مخلوق پرفضیلت بخشی ہے، دانائی کی اسے قوت بخشی ہے، پوشیدہ اس میں صلاحیتیں بخشی ہیں، تاکہ یہ اپنی عظمت جانے اپنے مقصد پہچانے، اس کا سکون چین آرام اور نفع اپنے رب کے احکامات کی بجاآوری ہی میں پنہاں ہے، مگر یہ نادان کم ہی سمجھتا ہے، اندھی تقلید، مخالف سمت، بےمقصد دوڑ کی جانب رواں دواں من چاہی نفسانی خواہشوں کے سراب میں گم بھاگتا چلا جا رہا ہے، یہ دوڑ بھی پھر ایسی ہے کہ سانسوں کے تھمنے پر ہی ختم ہوتی ہے، اور تب تک افسوس بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔
اے خدا ہمیں دیر سے پہلے اپنی طرف پلٹ آنے کی توفیق عطا فرما اور ہم سے راضی ہوجا آمین۔