Wednesday, 01 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Farzana Khursheed/
  4. Hazrat Hassan Basri

Hazrat Hassan Basri

حضرت حسن البصری

خلافت فاروقی ۱۲ہجری میں ام المومنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہ کی محبوب خادمہ سید خیرہؒ کے یہاں سیدالتابعین حضرت حسن البصری رحمہ اللہ کی ولادت ہوئی۔ آپ ان خوش نصیب ہستیوں میں شامل ہیں جنہیں صحابہ کا دور اور اصحاب کرام کی روشن صحبت ملی اور پرورش وتربیت کا آغاز ام المومنین ام سلمہؓ نے اپنے گھربیت نبوی میں اپنی گود اپنے زیر سایہ کی، نام مبارک حسن بھی انہوں نے خود ہی منتخب کیا آپ کے والد محترم حضرت یسارؒ بھی مشہور صحابی حضرت زید بن ثابتؓ کے غلام تھے جو سرور کونین حضرت محمد ﷺ کے کاتب وحی تھے، اورحضرت یسارؒ انھیں بہت عزیز تھے۔

آپ بہت حسین وجمیل تھے خوبصورت صاف شفاف بڑی بڑی آنکھیں کشادہ پیشانی لب نازک، رنگ گلابی اور پرکشش چہرہ ظاہر کی طرح آپ کا باطن بھی روشن اور قول و عمل یکساں تھا آپ صاف اور حق گو تھے اللہ کے ڈر کے سوا کسی بڑی سے بڑی طاقت، اس وقت کا ظالم و جابر حکمران حجاج بن یوسف کے ظلم و ستم دور نے بھی آپ کو حق اور سچ چھپانے سے کبھی نہ جھکایا۔

صحبت خود انسان کو بہت کچھ سیکھا دیتی ہے اور آپ کے علم و کمال کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ آپ کو ابتدا ہی سے معزز ترین ادبی و علمی شخصیات کا ساتھ حاصل ہوا، آپ کی ابتدائی تربیت ام المومنین سیدہ ام سلمہ ؓجوازواج نبیؐ میں علم و عمل عقل و فہم میں ممتاز شمار کی جاتی تھیں کی، سرپرستی میں ہوا اور آگے چل کر بھی آپ کو ان اصحاب رسولؐ کی صحبت حاصل ہوئی سیدنا عثمان بن عفان ؓ، علی بن ابی طالبؓ، ابو موسی اشعریؓ عبداللہ ابن عمرؓ، عبداللہ بن عباس ؓ، انس بن مالکؓ، جابر بن عبداللہؓ آپکے استاتذہ رہے۔

حضرت حسن بصریؒ کی عمر عزیز جب چودہ برس ہوئی تو آپ اپنے والدین کے ساتھ شہر بصرہ تشریف لے گئے اور وہاں مستقل قیام فرما لیا اسی وجہ سے آپ بصری کے لقب سے مشہور ہوئے ان دنوں شہر بصرہ علم و فضل کا مرکز تھا یہاں آپ حضرت عبداللہ بن عباسؓ کے حلقہ درس سے وابستہ ہوگئے، تفسیر قرآن و حدیث وقرات کا علم حاصل کیا اور ان علوم میں اتنے مشہور ہوئے کہ حضرت امام حسن بصریؒ کا حلقہ درس دعوت و تبلیغ علم و فضل کا مرکز قرار پایا۔

آپ علم وعمل کا پیکر تھے اورزہد و تقوی، اخلاقی و روحانی فضائل سے مالامال تھے، علامہ نوویؒ لکھتے ہیں کہ "وہ مشہور عالم تھے ان کی جلالتِ علمی پر سب علماء کا اتفاق تھا "۔امام شعبیؒ کہتے ہیں کہ "ملک عراق میں کسی عالم کو ان سے افضل نہ پایا"۔ امام قتادہؒ لوگوں کو ہدایت کرتے تھے کہ حسن بصری کا دامن پکڑے رہنا میں نے رائے اور فیصلے میں ان سے بڑا کسی شخص کو سیدنا عمر فاروقؓ کے مشابہ نہ دیکھا حافظ ذہبی لکھتے ہیں امام حسن بصریؒ حافظ، علّامہ، فیقہہ النفس، کبیر الشان، عدیم النظر، بلیغ التذکیر تھے۔

آپ اگرچہ علوم اسلامی میں شیخ الاسلام کا درجہ رکھتے تھے لیکن ان کا حقیقی مزاج و ذوق وہ علوم تھے جو قلب وروح سے تعلق رکھتے ہیں۔ جس کو بعد میں علمِ تصوف کا نام دیا گیا آپ عبادت، ریاضت، زہد وتقویٰ میں اعلی مقام رکھتے تھے آپ پر ہروقت حزن و غمگینی سی چھائی رہتی تھی آپ فرماتے تھے کہ مومن کی ہنسی قلب کی غفلت کا نتیجہ ہے زیادہ ہنسنے سے دل مردہ ہوجاتا ہے قرآن پاک کی آیت مبارکہ جب پڑھا کرتے زاروقطار رویا کرتے تھے۔

خشیتِ الہی کے یہ آثار تھے کہ آپؒ جب بیٹھے ہوتے تو اس قیدی کی طرح لگتے، جسے قتل کیےجانے کا حکم دیا جا چکا ہو اور جب وہ جہنم کا ذکر کرتے تو ایسا معلوم ہوتا کہ دوزخ صرف ان کے لیے بنائی گئی ہے اور خوفِ خدا آپ پر اس قدر غالب تھا کہ آپ کی مجلس میں عالم آخرت کے علاوہ کسی اور شے کا ذکر نہ ہوتا تھا۔ آپ فرمایا کرتے تم اس دنیا کا تعارف چاھتے ہو؟ میں ایسے مقام کا کیا حال بیان کروں جس کا اول حصہ تعب و مشقت ہے اور آخر ی حصہ موت و فنا۔ اقوالِ حسن البصریؒ۔۔۔

۱۔ تواضح کی یہ علامت ہے کہ جس کسی سے بھی ملے اس کو اپنے سے افضل و برتر سمجھے۔

۲۔ جب بندہ توبہ کرتا ہے تو اس سے خدا کے ساتھ اس کی قربت میں اضافہ ہوتا ہے۔

۳۔ اگر اپنی موت کی رفتار پر نظر ہوتی تو وہ اپنی امیدوں اور آرزوؤں کا دشمن ہوجاتا۔

۴۔ اسلام یہ ہے تم اپنے قلب کو اللہ کے حوالے کردو۔

۵۔ جب تم کسی شخص سے دشمنی کرنا چاہو تو پہلے اس پر نظر کرو کہ اگر وہ اللہ کا مطیع و فرمانبردار ہے تو اس سے بچو، کیونکہ اللہ اس کو کبھی تمہارے قبضے میں نہ دے گا اور اگر وہ نافرمان ہیں تو اس سے عداوت کی ضرورت نہیں کیونکہ اللہ کی عداوت اس کو کافی ہے وہ خود ہلاک ہو جائے گا۔

زندگی کے آخری لمحات میں کاتب کو بلا کر لکھوایا حسن اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ لَاَ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَاَشھَدُاَنَّ مُحَمَّدُارَّسُولُ اللہ، جس نے موت کے وقت صدقِ دل سے اس کی شہادت دی وہ جنت میں داخل ہو گا۔ یکم رجب (اسی بناپر ماہ رجب کے خاص مضامین میں یہ مضمون شاملِ خاص ہے) 110 ہجری شب جمعہ 89 سال کی عمر میں یہ علم و فضل کا چراغ گل ہوگیا، مگر ان کے ارشادات و ہدایت کی روشنی قیامت تک سارے عالم میں یوں ہی روشن رہے گی۔

Check Also

Science Aur Mazhab

By Muhammad Saeed Arshad