Aisa Kyun Karen
ایسا کیوں کریں
کبھی یوں ہی دل کرتا ہے جو ہم سے بیزار اور ہم جن سے نالاں ہیں انہیں مزہ چکھائیں دل کی بھڑاس نکالیں، انہیں خوب سنائیں، جو طرزِ برتاؤ ان کا ہے انہیں اسی طرزِ عمل میں اپنی بات سمجھائیں، مگر پھر اگلے چند لمحے ہی میں یہ سوچ بدل جاتی ہے جب یہ سوال ذہن میں ابھرنے لگتا ہے کہ ایسا کرکے کیا حاصل ہوناہے؟
کیا گلے شکوہوں سے کبھی مسائل ُسلجھیں ہیں؟ کیا کبھی سختی ودرشتی سے رشتے نبھیں ہیں؟ کیا نفرت سے حسد کی آگ کو بجھایا جا سکتا ہے؟ کیا لاحاصل بحث و مباحثوں سے محبت کبھی بڑھتی ہے؟ کیا بدلہ مزاج اور عادتوں کو بدل سکتا ہے؟ بدگمانی کے داغ کوکیامٹا سکتا ہے؟
اگر نہیں تو پھر ہم ایسا کیوں کریں، ہم "بدلے" کو لوگوں کے مزاج بدلنے کا پیمانہ بنا کر اپنی ترجیحاتِ اول میں شامل کرلیں ِ ہم اپنے آقؐا کی معافی اور نرمی کی سنت کو اپناکر صبر و استقامت کا دامن تھام کر کچھ وقت چیزوں اور انسانوں کے رویوں کو اپنے آپ بدل جانے کا انتظار کیوں نہیں کر لیتے۔
ہم بے صبرے کیوں ہیں فوری نتائج چاہتے ہیں بدلہ لے کر معاملے کی فوری پکڑ دھکڑ چاہتے ہیں، ہر شخص کا مزاج اور عادت منفرد اس کی فکر و نظریات کا نتیجہ ہے، وہ اپنی طرز فکر کی بنیاد پر دوسروں کو تولتا ہے اور غلط اور صحیح کا ٹھپہ لگا دیتا ہے، کیا ضروری ہے کہ جو چیزیں اور نظریات، ہماری نظر میں ٹھیک ہوں وہ دوسروں کی نگاہ میں بھی درست ثابت ہوں، ہم پھر کیوں اپنے مزاج میں دوسروں کو ڈھالناچاہتے ہیں، اختلاف کوکدورت بنالیتے ہیں توقعات کا بوجھ ان پر لاد کربدگمانی کاطوفان پالتے ہیں، ہر باردوسرا غلط ہو کبھی ہم بھی غلط ہوئے ہونگیں، اور ہو بھی تو سکتے ہیں، کوئی کمی یا کوتاہی ہماری طرف سے رہتی ہوگی، ہم ایسا کیوں نہیں سوچتے؟
سیکھنے کی ضرورت تو ہر انسان کوہے اور مرتے دم تک رہتی ہے ہم، اگر غلط کو صحیح کرنا چاہتے ہیں، لوگوں کے دلوں میں محبت چاہتے ہیں، حالات، عادات و مزاجوں کواپنے موافق چاہتے ہیں تو اس کے لیے پہلے ہمیں خود بدلنا ہوگا منفی مزاجوں میں تبدیلی کیلئے مثبت مزاج اپناناہوگا خودسہتے سہتے ناقابلِ برداشت نہ بن جائیں، کہ مخالف جیساہو بدلے میں اس سے بھی چار ہاتھ آگے نکل جائیں، اس طرح کچھ نہیں بدلتا اور نہ ہی بدلے گا۔
حالات اور انسانوں کے مزاج صرف اسی وقت تک ہمارے حق میں ہو سکتے ہیں جب تک ہم انکے دل فتح کرنے کی تگ ودو نہ کریں، اور دلوں پر حکومت نرمی سے ملتی ہے تاریخ میں رقم ان گنت واقعات ایسے ہیں جہاں رحم و نرمی سے لوگ بدلے ان کے مزاج بدلے، پھرچند کے بدلنے سے پوری قوم بدلی ہے مگر سختی نے ہمیشہ کھیل بگاڑا ہے، نفرتوں کو اور پھیلایا ہے۔
محبت، مسکراہٹ، ہمدردی، صبر و تحمّل مزاجی والی، مہارتیں خود میں پیدا کرکے ہی انسانوں کے دل جیتے جاتے ہیں۔ اس راہ میں کی جانے والی کوششیں ومشقت بھی عبادت ہے ہم حسن اخلاق کے طریقوں کو عبادت کی طرح اپنائیں۔ ترش روئی چھوڑکر، اپنے غصے اور جذبات پر قابو پائیں، انھیں بردباری میں بدل ڈالیں، فوری ردعمل کے بجائے خود میں ٹھہراؤ لائیں، کم از کم مشق و کوشش تو کریں انسانوں وحالات کو بدلنے کے لیے تھوڑا وقت دیں، یہ سفر طویل بھی ہوسکتا ہے حوصلہ پیدا کریں، سب خود ہی ٹھیک ہو جانے ہیں۔ اگر وہ نہیں بھی بدلتے تو بھی حسنِ اخلاق نایاب خوبی و افضل نیکی ہے۔ بدخلقی کو کبھی نہ اپنائیں۔ اگر آپ واقعی اچھے ہیں تو بروں کے ساتھ بھی اچھا بن کر دیکھائیں یہی آزمائش و کمال ہے۔ لوگوں کے ساتھ اچھا برتاؤ رب کی رضا کی نیت سے کریں، وہ راضی نہ بھی ہو تو ہمارا مہربان رب کوششوں کو رائیگاں نہیں کرتا، ضرور راضی ہوگا اور اس کی رضا ہی ہمارا بنیادی مقصد ہے۔ اللہ ہم سب سے راضی ہو آمین۔