Friday, 20 September 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Farhat Abbas Shah
  4. Ramz Ashna Aur Maholyati Tanqeed Ki Fareb

Ramz Ashna Aur Maholyati Tanqeed Ki Fareb

رمز آشنا اور ماحولیاتی تنقید کا فریب

ڈاکٹر محمد افضل کا شمار ایسے صاحبانِ اخلاص تخلیقی محققین و ناقدین میں ہوتا ہے جو بغیر کسی صلے کی تمنا کے ادب سے اپنی وابستگی کا سچا اور عملی اظہار جا ری رکھے ہوئے ہیں۔ احمد فراز پر ان کی پی ایچ ڈی کا مقالہ تحقیق کا معیار طے کرنے کی سطح کا مقالہ ہے۔ تحقیقی میدان ہو یا تنقیدی، شاعری ان کا پسندیدہ شعبہ ہے۔

ُ رمز آشنا، ان کے تحقیق و تنقید پر مبنی مضامین کا ایک ایسا منفرد مجموعہ ہے جو ادبی مراکز اور یونیورسٹیوں میں بیٹھے کارپوریٹ مدرسین کو گریبانوں میں جھانکنے پر مجبور کرتا ہے۔ میں درجنوں مشہور مدرس ناقدین و محققین کے نام گنوا سکتا ہوں جو بغیر مفاد کے کسی پر ایک جملہ لکھنا حرام سمجھتے ہیں۔ جبکہ افضل صفی کی رمز آشنا کی تخصیص ہی یہ ہے کہ اس میں مضافات کے سولہ ایسے شعراء پر مضامین لکھے گئے ہیں جن کا نام اور کام تسلیم کرنے میں آج تک ہچکچاہٹ محسوس کی جاتی رہی ہے اور جس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ایک تو وہ مراکز سے دور رہے اور دوئم انہوں نے امجد اسلام امجد، اصغر ندیم سید، پیرزادہ قاسم اور افتخار عارف کی طرح نہ تو کبھی دربار سرکار کی چلمیں نہیں بھریں اور نہ کبھی سامراجی ایجنڈوں پر چل کر نوکریاں، کانفرنسیں اور ایوارڈز حاصل کیے۔

میں سمجھتا ہوں کہ کسی بھی حقیقی محقق اور نقاد کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ بڑا لٹریچر اور تخلیق کار دریافت کرکے سامنے لائے اور دوسرا نظر انداز کیے گئے تخلیق کاروں پر کام کرے اور اپنے عہد میں اپنے کنٹریبیوشن کا احساس دلائے۔ میں تحقیق و تنقید کے طالب علم کی حیثیت سے خود کو صفی کا احسان مند محسوس کرتا ہوں کہ انہوں نے مفاد پرستوں کے جتھوں میں رہتے ہوئے حقیقی شعراء پر کام کرکے تنقید و تحقیق کا حق ادا کیا ہے۔ ورنہ مدرس اورنگزیب نیازی پٹھا ناصر عباس نئیر کی طرح سرمایہ داروں کے دیے گئے موضوع ماحولیاتی تنقید پر کتاب لکھ کے سفارش پر یو بی ایل ایوارڈ بھی لے لیتا۔

برسبیل تذکرہ یہ بتاتا چلوں کہ مغربی ممالک میں اسی کی دہائی سے شروع کیے گئے ماحولیاتی آلودگی کو مطالعات میں جگہ دینے کے ٹرینڈ اور ہم جنس پرستی کی شادی کو قانونی حیثیت دلانے کی تحریکوں کے بیک وقت آغاز کے شواہد ملتے ہیں۔ البتہ پچھلے کچھ سالوں سے مختلف انگریزی ادبی میگزینز اور سوسائیٹیوں کی طرف سے ماحولیات پر شاعری، تنقید اور دیگر ادبی کام کرنے پر بڑے بڑے نقد پرائزز کا اعلان بھی کیا جاتا رہا ہے اور کیا جا رہا ہے جس پر ملنے والے ایوارڈز کی ویلیو ڈالرز میں بتائی جاتی ہے۔ جس کا پسِ پردہ مقصد اول تو ان جاہل اور مفادپرست مدرسین یا مصنوعی ادیبوں کو معلوم ہی نہیں، یا اگر ہوا بھی تو ان کی جانے بلا۔ ان کو تو ایوارڈ میں ملنے والی رقم سے غرض ہے۔

سرمایہ دارانہ سماج دشمن اور انسان غارت مشن اپنی تکمیل کے لیے زندگی کے ہرشعبے میں بربادی کی نئی سے نئی ڈائمینشنز نکالتا رہتا ہے۔ ماحولیاتی ادب کوئی ادب نہیں ہوتا اور ہو بھی تو اس لیے نہیں ہوتا کہ اسے دنیا میں ہونے والے ظلم، خوں ریزی، بے انصافی اور معاشی بربریت سے توجہ ہٹانے والے ٹول کے طور پر استعمال کیا جائے۔ آپ خود سوچیں کہ کیا اس وقت دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ غربت اور معاشی بے انصافی نہیں؟ کیا پوری دنیا جنگوں کی آگ میں نہیں جھونک دی گئی۔ کیا انسان کو مادیت پرستی کی لعنت کا شکار نہیں کردیا گیا۔

فلسطین، عراق، شام، لیبیا اور یوکرین میں عورتوں، بچوں سمیت معصوم سویلئنز کا قتلِ عام کیا ادب کا موضوع نہیں ہونا چاہیے۔ ہونا کیا چاہئیے ہوتا ہے اور ہوتا چلا آیا ہے لیکن صیہونی سامراج اور سرمایہ دارانہ عفریت ان حقیقی ایشوز سے توجہ ہٹانے کے لیے دو دو ٹکے کا لالچ دے کر لالچی اور مفاد پرست جیسے سرقہ جاریہ مائکل، ڈکسن، ہیری تلاش کرکے انہیں انعامات کا لالچ دے کر انسانیت کے خلاف کام کرنے پر لگائے رکھتا ہے اور یہ صرف ادب کے شعبے میں نہیں بلکہ آپ کو ایسے سفاک اور ہولناک منصوبے فارماسوٹیکل سے لیکر فوڈ تک اور سیاست سے لیکر قیادت تک ہر شعبے میں نظر جاری و ساری نظر آئیں گے۔

ماحولیاتی ادب، ماحولیاتی فکر فلسفہ اور ماحولیاتی ایکٹیوازم اسی ہولناک فریب کا ایک حصہ ہے۔

حال ہی میں اورنگزیب نیازی کی ماحولیاتی تنقید پر لکھے گئے مضامین کے ترجمے پر مبنی کتاب، ُ ماحولیاتی تنقید: نظریہ اور عمل، کو ملنے والے یو بی ایل ایوارڈ کی کمیٹی کا کھرا نکال کر دیکھ لیں سارا کچا چٹھا آپ کے سامنے آ جائے گا۔ ایسے موضوع پر اوریجنل کام کی بجائے مضامین کے ترجمے پر کتاب شائع کرکے انعام اچک کے لے جانا کیا اندھے کو اندھیرے میں بہت دور کی سوجھی کے مصداق نہیں لگ رہا؟

لیکن ان تمام نامساعد حالات کے باوجود قدرت کا نظام اپنا انصرام و اہتمام بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔ ایک طرف سامراجی جتھے بھوکے بھیڑیوں کی طرح مفادات کی دوڑ میں ادب، ادیب اور سماج کو کچل کچل کے ہڑپ کرتے جا رہے ہیں اور دوسری طرف افضل صفی جیسے اللہ کے برگزید مدرس اور ادیب ایسے ایسے ادبی جواہرات کو چُن چُن کر سامنے لا رہے ہیں کہ جن سے اردو ادب کی کہکشاؤں میں نئی کہکشاؤں کا اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ کتاب میں مرحوم دوست اطہر ناسک پر لکھا گیا مضمون مجھے رلا گیا۔

ذیل میں رمزآشنا میں شامل شعراء کی فہرست اور ان پر مضامین کے عنوانات دیے جارہے ہیں جو کتاب کے اجمالی جائزے کی چھب سی ضرور دکھائیں گے۔

1۔ ڈاکٹر خیال امروہوی کی شاعری کا جمالیاتی طرز احساس

2۔ ڈاکٹر خیال امروہوی کی نظم المیہ کا اسلوبیاتی مطالعہ

3۔ ڈاکٹر خیال امروہوی کی شاعری میں صنائع بدائع کا خصوص

4۔ منیر نیازی کی شاعری کا بدیعی رنگ و آہنگ

5۔ رضا ٹوانہ مزاحمت کا استعارہ

6۔ ڈاکٹر افتخار بیگ تاباں سویروں کا ہم نوا شاعر

7۔ قاسم راز تقدیسِ حرف کا پاسباں شاعر

8۔ ڈاکٹر قاسم جلال دشت فکر میں رومان کے پھول اگانے والا شاعر

9۔ جسارت خیالی ہمہ جہت ادیب

10۔ اطہر ناسک جدید لہجے کا منفر د شاعر

11۔ خالد محمود باریاب حرفوں کا ہم راز شاعر

12۔ سلیم مکانی جدت و روایت کا نغمہ گر

13۔ نعیم ناز گاؤں کی تہذیبی شناخت کا امین

14۔ ندیم ملک شعری افق پر دمکتا ستارہ

15۔ بلال انجم عشق کے نیلے سمندروں کا ہم 16۔ مزاج شاعر

17۔ قلب عباس عابس کیفیات و احساسات کا تو انا شاعر

18۔ جمشید ساحل نثری نظم کا آئینہ گر

Check Also

Qissa Aik Crore Ke Karobar Ka

By Ibn e Fazil