Friday, 20 September 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mohsin Khalid Mohsin
  4. Sex Education, Youth Aur Porn Industry Mafia Ki Yalghar

Sex Education, Youth Aur Porn Industry Mafia Ki Yalghar

سیکس ایجوکیشن، یوتھ اور پورن انڈسٹری مافیہ کی یلغار

رات کے دو بج چکے، قریبی مسجد کے مولوی صاحب نے لاؤڈ اسپیکر میں کھنکھارتے ہوئے محوِ استراحت عوام کو یوں پکارا: اللہ کے بندو! تہجد کا وقت ہو چکا ہے، اللہ کی عبادت کے لیے اُٹھ جاؤ۔ اللہ کو یاد کرو کہ اللہ کو رات کے اس پہر میں یاد کرنے والا کبھی نامراد نہیں رہتا۔ میں تو سویا ہی نہیں، میں جاگ کیسے سکتا ہوں۔ مجھے ذرا ندامت ہوئی کہ دُنیا جہان کی پورن سائٹس سرچ کرنے میں تین گھنٹے ضائع کر چکا لیکن کوئی ایسی وڈیو نہیں مل سکی جسے دیکھ کر میں یہ کہہ سکوں کہ آہا! کیا بات ہے، مزہ آگیا۔

پورن سائٹس کی سرچنگ کے حوالے سے ہر سال رپورٹ شائع کی جاتی ہے۔ گذشتہ پانچ برس سے پورن سائٹس سرچنگ میں پاکستان کا نمبر پہلے پانچ ہندسوں میں رہا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ نہ تو جہالت اور لا علمی ہے اور نہ ہی بے روزگاری اور بے شعوری ہے۔ اس کی اصل وجہ جو میں سمجھ سکا ہوں وہ سیکس ایجوکیشن کی تعلیمی اداروں میں عدم فراہمی ہے۔ سیکس ایجوکیشن ہر بچے کا بنیادی حق ہے، جب تک پاکستانی معاشرہ سیکس ایجوکیشن کو نصاب سازی کا حصہ بننے سے روکتا رہے گا، پورن سائٹس کی سرچنگ میں پاکستان سرفہرست رہے گا۔

میں 37 برس کا ہوں، گذشتہ دس برس سے پورن دیکھتا آیا ہوں، لگتا یوں ہے کہ آئندہ بھی دیکھتا رہوں گا۔ پورن سائٹس دیکھنا اور نہ دیکھنا، اس کی عادت ہونا اور نہ ہونا، اس کی لت میں مبتلا ہونا اور نہ ہونا۔ اس "نہ" ہونے کے فرق میں ایک بہت بڑا "خلا"ہے جسے دُنیا کے جملہ مذاہب پُر کرنے کی کوشش کرتے رہے لیکن اس خلا کی "خالی جگہ" کو پُر کرنے والے مذاہب کے آگے سماج نے ہمیشہ روڑے اٹکائے۔ پاکستان کی تاریخی ہیرا منڈی سے لے کر پورن سائٹس کی بندش تک کی جملہ حکومتی کاوشیں سب کے سامنے ہیں۔

آبادی کے تناسب سے پاکستان میں سب سے زیادہ تعداد پچیس سے پنتیس سال کے نوجوان لڑکے لڑکیوں کی ہے جن میں ساٹھ فیصد یوتھ پڑھی لکھی اور باشعور ہے۔ اس تعداد کا پچانوے فیصد حصہ پورن اڈکیٹڈ ہے جو اس بات کا برملا اظہار بھی کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ کہ ان بچوں کی سیکس ایجوکیشن نہیں ہوئی اسی لیے یہ پورن اڈکٹڈ ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق سات برس کے بچے سے لے کر پنتیس برس کے نوجوان لڑکے لڑکی پچھتر فیصد تعداد پورن سائٹس دیکھنےکی عادی ہے اور اس لت میں بُری طرح مبتلا ہے۔

بطور کیس سٹڈی سیکڑؤں بچوں سے میں نے اس موضوع سے متعلق درجنوں سوالا ت کیے کہ آپ قسم کھا کر بتائیے کہ آپ پورن وڈیوز دیکھتے ہیں یا نہیں۔ دو چار منٹ تک پہلو بدلتے ہیں، ادھر اُدھر جھانکتے ہیں، بالاآخر شرمندہ ہو کر اعتراف کر لیتے ہیں۔ میں ان سے سوال کرتا ہوں کہ آپ کو پورن میں کیا دیکھنا پسند ہے؟ ان کا ایک ہی جواب ہوتا ہے، وہی جو اپوزٹ جینڈر میں ہم دیکھنا چاہتے ہیں۔

سیکس ایجوکیشن نہ ہونے کی صورت میں پاکستانی معاشرے کا یہ حال ہے کہ اکیسویں صدی کی پیدائش اس معاملے میں سب سے آگے ہے۔ اکیسویں صدی میں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے پھیلاؤ نے بچوں کے ذہنوں کو مدخل یعنی ادھ مُوا کر ڈالا ہے۔ گوگل سرچ انجن کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں فیک اکاؤنٹ کے ذریعے سب سے زیادہ سرچ کیے جانے والے موضوعات میں"پورن، سیکس، ڈیٹنگ، میٹنگ" سےمتعلقہ الفاظ ہیں۔ گوگل پلے اسٹور میں سب سے زیادہ ڈاون لوڈ کی جانے والی ایپ اور سائٹس میں جو VPN کے ذریعے کُھلتی ہیں وہ "پورن سائٹس ایپس" ہیں جہاں روزانہ کی بنیاد پر نئی وڈیو HD، 4K میں آپ لوڈ کی جاتی ہیں۔

پاکستان میں پانچ سے سات برس کا بچہ موبائل چلانے میں مہارتِ تامہ رکھتا ہے۔ اسے اچھی طرح معلوم ہے کہ گوگل سرچ انجن میں browsing history کو کیسےdeleteکرنا ہے اور saving data کو کس طرح remove کرنا ہے۔ دس سے پندرہ سال کے بچے جو سکول میں پڑھتے ہیں، ان کی روزمرہ گفتگو کے موضوعات میں"پورن، سیکس، میٹنگ، ڈیٹنگ"کے الفاظ اس قدر روانی سے سُننے کو ملتے ہیں جیسے یہ ان کا تکیہ کلام ہے۔

سترہ سے پچیس سال کے بچے بچیاں جو کالج اور یونی ورسٹی میں تعلیم حاصل کررہے ہیں ان کے ہاں پورن وڈیوز کے کلپس اور لنکس شئیر کرنے کا رجحان سر پیٹنے کی حد تک پایا جاتا ہے۔ عرفِ عام میں پورن لنکس اور کلپس کو، کوڈ ورڈ میں"ٹوٹے" کہا جاتا ہے جنھیں کلاس فیلوز ایک دوسرے کو شئیر کرکے یوں داد وصول کرتے ہیں جیسے یہ دُنیا کا ناممکن ترین کارنامہ ہو، واضح رہے کہ اس معاملے میں لڑکیاں لڑکوں سے دو قدم آگے ہیں۔

پاکستانی سیاست دان اپنی چوریاں ڈاکے چھپانے اور اور بلیک کا پیسہ سفید کرنے کی دُھن میں ایسے مست ہیں کہ انھیں اس عُنصر سے ہونے والی تباہی کی ذرا بھی پروا نہیں۔ ستم یہ کہ پاکستانی اشرافیہ سماجی اخلاقی اقدار کی گراوٹ اور تنزل سے بے خبر اپنے عالی شان میں بیٹھ کر خون نچوڑنے کے منصوبے بناتی رہتی ہے۔ حکومتِ وقت کو اپنی کُرسی بچانے کی پڑی ہے جبکہ آئینی ادارے اس الارمنگ سوئچ ایشن سے بالکل بے خبر ہیں، انھیں اس بات کا کیسے احساس دلایا جائے کہ پاکستانی نوجوان جنسی نا آسودگی کے ذہنی و اعصابی خلجان کے عارضہ میں مبتلا ہو کر پورنائزڈ وینٹی لیٹر پر پڑے سِسک رہے ہیں۔

حکومتی سطح پر پورن سائٹس کو بلاک کرنے اور VPN کے ذریعے ممنوعنہ اخلاق سوز وڈیوز یعنی پورن کو دیکھنے کی ٹیکنالوجی کو فلٹر کرنا کس قدر اہم اور ناگزیز ہو چکا ہے۔ حکومتِ وقت سے اور تو کچھ نہ ہوا، البتہ انٹر نیٹ پر "فائر وال" لگا کر آئی ٹی سیکٹر کا بھٹہ ضرور بھٹا دیا ہے۔ ہمارے بچے "یو ٹیوب مونی ٹائز، ای کامرس، فری لانسنگ" وغیرہ کی مد، میں انگریزوں کی دی ہوئی سہولت سے فائدہ اُٹھا کر پیسہ بناتے تھے، افسوس، حکومتِ وقت کی بوکھلاہٹ نے انھیں بے روزگار کرکے یہ پیغام دیا ہے کہ اچھے بچو! پورن دیکھو، شیشہ پیو اور مست رہو، کام نہیں کرنے کا۔

ایک شخص کو جو قید میں ہے اسے مزید قید میں رکھنے کی خواہش نے حکومتِ وقت کے اوسان خطا کر رکھے ہیں، گویا ایک شخص ایک طرف اور پورا ملک ایک طرف، یہ دن بھی ہمیں کو دیکھنے تھے۔

حکومت کا کیا رونا کہ یہ تو اک عارضی شے ہے، والدین کو جب اِس بات کی سنگینی کا احساس دلایا جاتا ہے کہ اپنے بچوں کی جملہ حرکات پر نظر رکھیں، ان کے اُٹھنے، بیٹھنے، سونے جاگنے کی ٹائمنگ کو واچ کریں، ان کے موبائل میں ایسے سافٹ ائیر انسٹال کریں جس سے"براؤزنگ ہسٹری" تک آپ کی "ایکسس" ہو، تا کہ آپ کو پتہ ہو کہ آپ کا بچہ بند کمرے میں آپ کی خون پسینے کی کمائی ہوئی دولت سے خریدے ہوئے موبائل سے کیا سرچ کر رہا ہے، کس جہان کی رات کے پچھلے پہر سیر کرتا ہے اور ترقی کی کون سی منزلیں طے کر رہا ہے۔

پوری بات سننے بغیر بات کاٹ کر محترم فرماتے ہیں: بچوں کی پرائیویسی میں ہم کیسے مداخلت کر سکتے ہیں! ہم اپنے بچوں پر بھروسہ کرتے ہیں، ہمارے بچے ایسا کچھ نہیں کرتے کہ ان پر نظر رکھی جائے اور انھیں مشکوک نگاہ سے دیکھا جائے۔ میں دسیوں ایسے خاندان کو ذاتی طور پر جانتا ہوں جنھیں اپنے بچوں کی پاک دامنی پر گھمنڈ کی حد تک بھروسہ تھا۔ یہ بچیاں رات کے پچھلے پہر گھر کا سارا زیور ہمراہ لے کر یارِ غار کے ساتھ جب بھاگیں تو محلے والوں کو یہ مغرورے اپنا منہ اپنے ہاتھوں سے آپ پِیٹتے دکھائی دئیے۔

میں اکثر و بیشتر ملاقات کے لیے آنے والے والدین سے بچوں کے موبائل میں پورن وڈیوز کی موجودگی کی شکایت اور لڑکیوں کو چھیڑنے کی مذموم حرکت کے پیشِ نظر انھیں پیار سے سمجھاتا ہوں کہ آپ کے زمانہ اور اب کے زمانہ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ خدا کے لیے ہوش کے ناخن لیجیے اور خود کو آئی ٹی سے لٹریٹ کیجیے اور یہ جاننے کی کوشش کیجیے کہ موبائل ایپ کی مدد سے آپ کے بچے کو کس طرح ورغلا کر ناسور بنانے کی پورن انڈسٹری کا مافیہ کوشش کرتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ اس خطرناک اور تباہ کُن عناصر و عوامل کی حساسیت کو سمجھنے کی بجائے اُلٹا سمجھانے والے کو بُرا کہتے ہیں اور احتیاط کے طور پر اپنے بچوں کو ایسی سوچ رکھنے والے اساتذہ اور اداروں سے دور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

سکول تو ایک طرف رہےکالجز اور یونی ورسٹیز میں اس سے بھی زیادہ بُرا حال ہے۔ ان اداروں کے سربراہان سے جب اس موضوع پر بات کی گئی کہ آپ ان بچوں کو اس فعلِ بد سے باز رکھنے اور صحیح معنوں میں سیکس ایجوکیشن کو ذاتی حیثیت میں بچوں تک منتقل کرنے کی کوشش کریں تو ان کی طرف سے جواب ملتا ہے: کیا ہم پاگل ہیں کہ اپنے کاروبار کو بند کرکے کسی انتہا پسند ٹولے سے گردن کٹوا لیں۔ پورن سائٹس اڈکٹڈ بچوں سے متعلقہ کیسز کے بارے میں پوچھا جائے تو ایسے ہولناک اور اخلاق سوز واقعات سُناتے ہیں جو ان کے ذاتی تجربے سے گزرے ہوتے ہیں جنھیں سُن کر کلیجہ کانپ جاتا ہے کہ اس عمر کی بچیاں بچے ایسی شرمناک حرکات بھی کر سکتے ہیں۔

آج کل ایک رواج یہ بھی چل نکلا ہے کہ مختلف "ڈیٹنگ ایپ"، متعارف کروائے جارہے ہیں جس میں رات کے پہر لڑکے لڑکیاں فیک اکاؤنٹ بنا کر لاگن اِن ہوتے ہیں اور ایک دوسرے سے سیکوئل چیٹ کرنے اور نیوڈ، دیکھنے کے پیسے دیتے اور لیتے ہیں۔ اس معاملے میں ایسے واقعات بھی سامنے آئے ہیں کہ والدین خود اس اخلاق سوز عمل میں بچوں کے ساتھ پوری طرح شریک پائے گئے ہیں۔

پاکستانی معاشرے میں آئے روز ٹِک ٹاکر کو سرِ عام چھیڑنے اور ہوٹنگ کرنے اور گندے مذاق کرکے بطور Reel وائرل کرنے کی حرکات کی جاتی ہیں۔ ٹِک ٹاک پر پچاس دفعہ پابندی لگائی جاچکی ہے، ان ایپ کی پُشت پناہی اور سپورٹ کرنے والی طاقتور مافیہ اسے پھر کھلوا لیتی ہے۔ اسے آپ یہودی ایجنڈا قرار دے کر نظر انداز کر سکتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہماری نوجوان نسل کے ذہن و قلب کو پورن انڈسٹری مافیہ نے پوری طرح مختل کر دیا ہے۔ حالت یہ ہےکہ ان نوجوانوں تخلیق و تعمیر کا جذبہ اور صلاحیت یکسر معدوم ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔

ایک زمانہ تھا جب لڑکا کسی لڑکی سے بات کرتا پکڑا جاتا تو اپنی ٹانگوں پر سلامت گھر جانا اس کے لیے ناممکن ہوتا تھا۔ آج یہ دور ہے کہ لڑکی سے بات کرنا کوئی مشکل کام ہی نہیں رہا۔ گوگل پلے سٹور پر جائیے جس طرح کی لڑکی چاہیے، پلک جھپکنے پر حاضر ہو جائے گی۔ بس آپ کی جیب پر منحصر ہے کہ آپ نے کس ٹائپ کی لڑکی کتنے ٹائم کے لیے کہاں اور کس وقت مستعار لینی ہے۔۔ گویا لڑکیوں کی خریداری کا آن لائن دھندا شروع ہے کہ دام لائیے اور مال لے جائیے، کسی دلال کی ضرورت نہیں کہ دلالی کے لیے یہ نام نہاد ایپ موجود ہیں جن میں tinder، chatme، chato، boo، litmatch، tan tan، badoo dating app وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔

اس کے علادہ دسیوں ایسی ایپ موجود ہیں جہاں آپ کی مرضی کی ٹائمنگ کے مطابق لڑکیاں دستیاب ہیں۔ ان ایپ میں بیشتر کی خصوصیت یہ ہے کہ آپ لڑکی کے جسم کو جس انداز میں دیکھنا چاہتے ہیں، با آسانی دیکھ سکتے ہیں، ان سائٹس اور ایپ پر، جسمانی خدوخال کے پوز اور اسٹائل کے الگ الگ ریٹ ہیں۔ پیسے کی منتقلی کے لیے جیز کیش، ایزی پیسہ اور ون لنک بینک اکاؤنٹ کی سہولت 24 گھنٹے موجود ہے۔ اِدھر پیسہ ٹرانسفر کریں، اُدھر وِنڈو کُھل کر تھرکتا ہوا پُرکشش برہنہ بدن آپ کے ہوش اُڑانے کے لیے ڈسپلے ہو جاتا ہے۔

پاکستانی معاشرت میں انٹرنیٹ کی ارزاں سہولت نے نوجوانوں کو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے عاری کر ڈالا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس گھناؤنے دھندے میں حکومتِ وقت بھی کہیں نہ کہیں شریکِ جُرم ہے کہ حکومتی پالیسوں میں کاروبار کے تناظر میں دی گئی ڈھیل اور آشیر باد کے بغیر یہ دھندہ کیسے چل سکتا ہے۔ آن لائن جسم کی نمائش سے لے کر جز وقتی جنسی تلذذ کے حصول تک، اِس مکروہ دھندے نے ملک کی سالمیت، تشخص، وقار اور انفرادیت کے گھمنڈ کو تار تار کر ڈالا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کے ٹیلنٹ کو ضائع ہونے سے بچایا جائے، سیکس ایجوکیشن کو نصاب کی حیثیت سے تعلیمی اداروں میں پڑھایا جائے۔ بچوں کو سیکس جینڈر کے ڈیفرنس کے بارے میں آگاہ کیا جائے۔ انھیں یہ بتلا یا جائے کہ مرد اور عورت کے جسم میں بائیولوجیکل ڈیفرنسز ایک قدرتی عمل ہے۔ انسان بچپن، لڑکپن، جوانی اور بڑھاپے کی مختلف اسٹیج میں بدنی تفاوت کے پیشِ نظر کئی بائیولوجیکل چینجز اور ٹرانس فارمیشن کے عمل سے گزرتا ہے۔

انسان کب اڈلٹ یعنی مباشرت کے عمل کے لیے تیار ہوتا ہے، جنسی ضرورت کیا چیز ہے، اس کے حصول کا شرعی، سائنسی، قدرتی، فطری اور معاشرتی طریقہ کار کیا ہے۔ ماسٹر بیشن سے لے کر میٹنگ تک کا عمل کس طرح کیا جانا چاہیے۔ جنسی تلذذ کے حصول کے غیر قانونی طریقے کی شرعی و قانونی سزائیں کیا ہیں؟ جسم پر پورن سائٹس کے سائڈ ایفکٹ کس طرح اثر انداز ہوتے ہیں؟ اپوزٹ جینڈر کے بارے میں اسلام، معاشرہ اور قانون کیا راہنمائی کرتا ہے؟

افسوس کا مقام یہی ہے کہ سیکڑوں ایسے بنیادی نوعیت کے سوالات ہیں جن کے جوابات موجود ہونے کے باجود نوجوانوں سے چھپائے جاتے ہیں اور شرم کا جواز تراش کر انھیں بے راہ روی کے ٹریک پر زبردستی چڑھنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ لڑکیوں کی نسبت لڑکوں میں جنسی تلذذ کے حصول کی خواہش ہمیشہ سے زیادہ رہی ہے۔ ریپ کے واقعات اسی خواہش کی عدم دستیابی کا شاخسانہ ہیں جنھیں سیکس ایجوکیشن کے ذریعے کم کیا جاسکتا ہے۔

سمندر ایسی وسعت رکھنے والے اس موضوع کو ایک بلاگ میں سمیٹنا ناممکن ہے۔ مختصر یہ کہ والدین، اساتذہ، مذہبی مبلغین اور گھر کے بزرگ افراد سمیت ریاستِ پاکستان کی یہ اولین ذمہ داری ہے کہ پاکستان کے مستقبل کو ان اخلاق سوز ویب سائٹس اور ایپس کی یلغار سے ممکنہ حد تک بچایا جائے۔

یاد رکھیے! اگر ہم نے اپنے بچوں کو یونہی فیک سٹینڈرڈ اور اسٹیٹس کے جعلی تصور کے پیشِ نظر بے مہار چھوڑے رکھا تو بہت جلد یہ ملک اعلیٰ اذہان سے متصف روشن چراغوں سے محروم ہو کر گمنامی کے بحرِ بیکراں میں کھو جائے گا۔

Check Also

Liaqat Ali Ki Fasoon Sazi

By Ilyas Kabeer