Monday, 29 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Dr. Rabia Khurram/
  4. Ye Shadi Nahi Asan (2)

Ye Shadi Nahi Asan (2)

یہ شادی نہیں آساں(2 )

سو تخیل کی پرواز نے جو آئیڈیل تراشا ہے بس اس خواب کو لفظوں میں بیان کر دیا جاتا ہے۔ گھر میں بےشک بہنیں ان پڑھ بیٹھی ہیں کہ ہماری برادری میں لڑکیوں کو زیادہ نہیں پڑھایا جاتا لیکن خود کو اپنی برادری سے اعلیٰ تعلیم یافتہ حور پری کی تلاش ہے جو گھر سے کبھی باہر بھی نہ نکلی ہو اور کماتی بھی ہو۔ طے کر لو کہ شادی لڑکی سے کرنی ہے یا ڈگری اور عہدے سے۔ گھر بسانا ہے تو لائف پارٹنر ڈھونڈو اور کمائی کھانی ہے تو بزنس پارٹنر تلاش کرو۔ شادی کے نام پر بزنس پارٹنر ڈھونڈنا غلط ہے۔ اگر خواب پر اختیار نہیں تب بھی تعبیر تو کم از کم حقیقی تلاش کرو۔

لڑکیاں اور ان کے گھر والے بھی کسی چیز پر تو کمپرومائز کریں۔ برادری پر کر لیں یا تعلیم پر یا آمدنی، شکل اور شہر پر۔ سب کو سب کچھ پرفیکٹ چاہیے تو بھئی اگر آپ اس مسٹر، مس پرفیکٹ کا درست میچ ہوتے تو رشتہ مارکیٹ میں خوار کیوں ہونا پڑتا۔ چند رشتے جو ہر لحاظ سے بہترین ہوتے ہیں وہ اس مارکیٹ کا رخ صرف دنیا میں اپنی قیمت کا اندازہ کرنے کے لیے کرتے ہیں۔ شادی انہوں نے گھر والوں کی مرضی سے ہی کرنا ہوتی ہے۔

سب سے زیادہ مشکل پسند وہ رشتے ہیں جو پہلی بار کے ناکام تجربے کے ڈسے ہیں۔ یہ خواتین و حضرات دنیا کیا کہے گی اور برادری جیسی بندشوں سے تو آزاد ہو چکے ہوتے ہیں۔ لیکن اپنے ذہنی خوف کے قیدی ہوتے ہیں۔ سو شادی تو کرنا چاہتے ہیں لیکن اس بار دل سے نہیں دماغ سے سودا طے کرتے ہیں۔ عورت ہے تو اسے سیکیورٹی چاہیے مرد ہے تو وہ بھی ان سیکیور ہے۔ یہ حضرات شرم جھجھک کو بالائے طاق رکھ کر ایک کاروباری معاہدے کے سے انداز میں تمام شرائط طے کرتے ہیں۔

کچھ حد تک یہ بات مناسب بھی ہے۔ اگر نیت درست ہو تو عموماََ یہ کامیاب ہو جاتے ہیں یا جلد ہی اس نئے رشتے سے بھی غیرجذباتی، منطقی انداز میں ریٹائرمنٹ لے لیتے ہیں۔ ایسے لوگ عموماََ پہلی شادی کو ہی اصل مانتے ہیں دوسرے تجربے کو غلطی کا نام دیتے ہیں اور انسان تجربوں سے ہی تو سیکھتا ہے اس لیے سیکھنے کا عمل پھر تاعمر جاری ہی رہتا ہے۔

جن رشتوں کو طے کرنے کے لیے دونوں پارٹیز (لڑکا اور لڑکی) کے وکیل آپس میں گفت و شنید کرتے ہیں اگر تو یہ وکیل سگے والدین ہیں تب تو امید رکھیں کہ رشتہ طے پا جائے گا لیکن اگر یہ وکیل کسی قسم کے رشتے دار ہیں مثلاََ چچا، تایا، پھپھو، خالا، ماموں بس پھر ان کی کٹ حجتی اور نکتہ چینی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ عین مکھی جیسی تیز ناک جو سیدھے سبھاؤ کسی کمزوری پر جا بیٹھتی ہے اور جب تک اسے نوٹس نہ کروا لے وہاں ہی بھن بھن کرتی رہتی ہے۔

یہ وکیل بھی دراصل مجبور ہیں۔ ایک کام جو ان پر فرض نہیں، اسے ان کی ایسی ذمہ داری بنا دیا جاتا ہے جس کا بیڑا اٹھائے بنا ناک نہیں بچتی اور طے ہونے کے بعد معاملات غلط رخ اختیار کر لیں تب بھی ناک نہیں بچتی۔ سو عموماََ یہ وکیل مین میخ نکال کر ہر رشتہ ریجیکٹ کرتے رہتے ہیں تاآنکہ ان کو اس ذمے داری سے سبکدوش کر دیا جائے یا لڑکا، لڑکی خود اپنے لیے کچھ فیصلہ کر لیں، ویسے اس صورت میں بھی ان کی ناک نہیں بچتی۔ سو بہتر یہی ہے کہ ان وکیلوں کو ان کی بڑی اور صحیح سلامت ناک کے ساتھ ان کے گھروں میں مامون رہنے دیا جائے۔

اب بات کیجیے برادری کی تو بھائی ہم سب آدم کی اولاد ہیں سو ایک "جہانگیر انسانی برادری" سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایک نبیؐ کے امتی ہیں اس لیے ایک "عالمگیر مسلم برادری" کے فرد ہیں۔ ایک پاک وطن کے باسی ہیں سو "پاکستانی برادری" سے متعلق ہیں۔ اب کسی کا نام رانا ہے یا میاں، سیال ہے یا چیمہ، صدیقی ہے یا اچکزئی کیا فرق پڑتا ہے۔ ایک اور برادری جو میری سمجھ سے بالاتر ہے وہ خاندانی نسب کی بجائے خاندانی پیشے سے قرار پاتی ہے یعنی جولاہا، مستری، درزی یا سنار برادری۔

بھئی اگر سنار کا بیٹا ڈاکٹر بن گیا اور اس نے ڈاکٹری کا پیشہ اپنا لیا تو اس کی اور اس کے سنار بھائی کی برادری تو بدل گئی۔ اگر درزی کے بیٹے نے پولٹری فارمنگ شرع کر دی تو اسے درزی برادری میں سے بیٹی کون دے گا۔ پیشے اور برادری کو غلط ملط کب اور کیونکر کیا گیا اس پر کوئی تاریخی حقائق سے پردہ اٹھائے۔ یہ تو پی ایچ ڈی کے لیے ریسرچ مقالے کا عنوان بھی ہو سکتا ہے۔ اسی برادری کے چکر نے نہی جانے کتنی تعلیم یافتہ بیٹیوں کو گھر بیٹھے بوڑھا کر دیا، کب برادری میں بیٹی کی تعلیم کے جوڑ کا رشتہ نہیں اور برادری سے باہر بیٹی بھیج نہیں سکتے۔ اے لوگو مجھے بتاؤ کیا تمام امہات المؤمنین ایک برادری سے تھیں؟

اس رشتہ مارکیٹ میں سب سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ اپنی فیملی کی خواتین کو ڈھکا چھپا کر رکھنے والے بھی دوسری طرف کی خواتین کے قد بت کو ڈسکس کرتے ہیں۔ ان کی عمر اور رنگ روپ پر کمنٹس دیتے ہیں۔ اور جو رضاکار اللہ کی رضا کے لیے یہ سب دیکھ اور سہہ رہا ہوتا ہے اسے خود اپنا آپ ایک دکاندار جیسا لگتا ہے جو کسٹمر کو اپنا "مال" خریدنے پر مجبور کر رہا ہو۔ اب ذرا مال پر غور فرمایئے اور دکاندار کی کیفیت سوچیئے۔

برادری، تعلیم، عہدہ، شکل، صورت سب مل جائے تو مسلک نہیں ملتا اور یہ بھی مل جائے تو شہر سے باہر جانے کو کوئی تیار نہیں۔ آپ سب کے لیے سب سے بہترین رشتہ پھپھو کی بیٹی، بیٹا ہے شکل صورت عادات میں آپ کے خاندان پر۔ برادری، مسلک، گھرانہ، شہر سب آپ کا دیکھا بھالا اور رہ گئی عمر تو وہ آپ کے سامنے ہی پلے بڑھے ہیں۔ اگر پھپھو کے گھر رشتہ نہیں کروانا تو دوسروں کے گھر کو خالا جی کا گھر اور خود کو راجا اندر اور حسینہء عالم سمجھنا چھوڑ دیں۔ حقیقی دنیا میں خوش آمدید۔

Check Also

Jadu Toona Aur Hum

By Mubashir Aziz