Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Javed Ayaz Khan
  4. Bhook, Khauf Aur Sabr

Bhook, Khauf Aur Sabr

بھوک، خوف اور صبر

اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان پر اور خاص طور پر مسلمانوں پر دو ایسے احسانات فرمائے ہیں جن کا ذکر سورۃ القریش میں کیا گیا ہے۔ یعنی بھوک میں کھانا دیا اور خوف میں امن دیا ہے۔ اگر غور کریں تو آج دنیا بھر میں یہ دو عفریت ہی ہماری انسانیت کو جکڑ رہے ہیں۔ گو ہمارا دین ہمیں خدا کے علاوہ ہر خوف سے آزاد کرتا ہے اور ساتھ ان دونوں مشکلات سے بچانے کے لیے لوگوں کو کھانا کھلانے کی ترغیب دیتا ہے۔ تو لوگوں کو خوف سے نکلالنے کو بھی ایک عبادت قراردیتا ہے۔

کہتے ہیں کہ خوف بھوک سے زیادہ انسانی زندگی کے لیے خطرناک ہوتا ہے۔ بھوک برداشت ہو سکتی ہے مگر خوف برداشت کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ بھوک ہمارے پیٹ کو متاثر کرتی ہے جبکہ خوف ہمارے ذہن اور حواس پر چھاکر ہمیں موت کی خواہش تک لے جاتا ہے۔ سعادت حسن منٹو نے کہا تھا "دنیا میں جتنی لعنتیں ہیں بھوک ان کی ماں ہے" وہ کہتے تھے کہ "بھوک کسی قسم کی بھی ہو بہت خطرناک ہے"۔

اقوام متحدہ کے ایک سروے کے مطابق دنیا میں ہر روز دس ہزار بچے بھوک سے مر رہے ہیں اور اس وقت دنیا میں ایک ارب انسان بھوک کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ دنیا میں خوف سے خودکشیوں کی تعداد سب سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ پچھلے کچھ سالوں میں نوجوانوں میں خودکشی کا رجحان ڈرامائی طور پر زیادہ ہو چکا ہے۔ جو بھوک سے نہیں بلکہ خوف سے جان دے رہے ہیں۔ ہم بھوکے کو کھانا کھلا کر اسے بڑی آسانی سے بھوک کے عذاب سے تو نکال سکتے ہیں لیکن ایک عام انسان کو خوف اور ڈپریشن سے نجات دلانا شاید اتنا آسان نہیں ہے۔ ایک عجیب بات یہ ہے کہ بھوک صرف غریب کو ستاتی ہے لیکن خوف اور ڈپریشن تمام طبقات پر یکساں حملہ آور ہوتا ہے۔۔

پچھلے سالوں میں کوویڈ 19ء وباء ایک بیماری ضرور تھی لیکن بیماری سے زیادہ اسکے خوف نے زیادہ جانیں لیں۔ اس میں مبتلا ہونے والے مریض آج بھی اسکے جان لیوا خوف اور ڈپریشن سے باہر نہیں آسکے۔ حقیقی معنیٰ میں اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے سے دنیاوی خوف سے نجات مل جاتی ہے۔ لیکن اس کے لیے ہمارے ایمان کی پائیداری اور یقین کی مضبوطی بے حد ضروری ہے۔ ہمارے ایمان کی معمولی سی کمزوری بھی ہمیں شدید خوف میں مبتلا کر سکتی ہے۔

ہمارا معاشرہ آج ایک جانب تو بھوک اور غربت کے ہاتھوں پریشان ہے تو دوسری جانب کئی ان جانے خوف، ڈپریشن اور گھبراہٹ نے ہمیں گھیر لیا ہے۔ ہر شخص پریشان حال اور سوچوں میں گم سم عجیب سے خدشات کا شکار ہوتا چلا جارہا ہے۔ مختلف اندیشے، وہم، ڈر، خوف اور گھبراہٹ ان کے لیے سب سے بڑا مسئلہ ہے اور اوپر سے یہ ظلم کہ لوگ اسے وہمی کہہ کر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ خوف کے اس درد کا پتہ صرف اسے ہوتا ہے جو اس آگ میں جل رہا ہے یا جل چکا ہے۔

خوف یا گھبراہٹ اس وقت محسوس ہوتی ہے جب کوئی ایسا عمل کرنا پڑے جس سے آپ ڈرتے ہیں اہل عقل وشعور کے ہاں"خطرہ " کو بطور حقیقت تسلیم کرنا اور اس سے بچاو کی تڈبیر کرنا اوراس کے ساتھ ساتھ "خوف" کی ذہنی حیثیت کو سمجھنا اور اس میں مبتلا ہونے سے بچنا سب یکساں اہمیت کے حامل امور تسلیم کئے جاتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ بھوک کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اور نہ ہی بھوکے آدمی کا کوئی مقام ہوتا ہے۔ کسی نے بھوکے سے پوچھا دو اور دو کتنے ہوتے ہین تو اس نے کہا چار روٹیاں جناب۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ بھوک تہذیب کے آداب بھلا دیتی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ غربت سے بھوک بڑھتی ہے اور بھوک خوف کو جنم دیتا ہے تو باشعور افراد سے بھی شعور کی نعمت چھن جاتی ہے اور اور وہ اپنی اولاد تک بیچنے سے دریغ نہیں کرتے بھوک سے مرنے کا خوف کچھ بھی کرا دیتا ہے۔ دوسری جانب یہ تربیت کا فقدان ہی ہوتا ہے کہ ہم حقوق اللہ کی خاطر حقوق العباد پس پشت ڈال دیتے ہیں۔ ورنہ حقوق العباد کی ادئیگی ہی بھوک سے بچاو ُ کا واحد حل ہوتا ہے۔

جس کے لیے خطرہ، خوف، شرم۔ بد اعتمادی میں فرق جاننا بے حد ضروری ہوتا ہے۔ اس لیے کہ بعض اوقات شرم اور اعتماد کی کمی بھی خوف میں مبتلا کردیتی ہے مثلاََ اسٹیج پر جاکر تقریر کرتے ہوے بڑے بڑے پڑھے لکھے لوگ کانپتے نظر آتے ہیں۔ یہ شرم یا خود پر عتماد کی کمی کا خوف ہوتاہے۔ ہونٹ خشک ہو جاتے ہیں بلا ضرورت پیاس لگنے لگتی ہے۔ جبکہ ایک شعبدہ باز ہزاروں کے مجمعے کو زبان وبیان سے گھنٹوں کنٹرول کر لیتا ہے۔ ہم لوگوں کی اس کی پریشانی اور خوف کو دور کرنے کی بجاے اپنے لہجوں اور باتوں سے ان کے خوف میں مزید ضافہ کر رہے ہوتے ہیں۔

خدارا! ان کے فق ہوتے چہروں تھکتے اعصاب اور جھکتے کندھوں پر اپنا پرامید لہجہ نرم گرم رویہ اور حکمت و تسلی والا ہاتھ رکھیے۔ پریشان حال کو اپنے نت نئے بے تکے خدشات اور رویے ُ سے مزید پریشان کرنے والے سے زیادہ مجھے آج تک کوئی احمق نہیں لگا۔ اپنی غلطی کے ہاتھوں نقصان اٹھانے والے کو اسی نازک وقت میں اس کی غلطی پر بار بار طعنے اور تشنے دینے والے سے زیادہ ظالم مجھے آج تک کوئی نہیں لگا۔

اپنے الفاظ، لہجہ اور رویہ ایسا رکھیے کہ اس آزمائش میں مبتلا انسان کو کڑی دھوپ میں ٹھنڈا گھنا سایہ محسوس ہو۔ آپ جنہوں نے اپنی زندگی میں خوف ڈر اور خدشات کا بدترین دور دیکھا ہوتا ہے شاید ان سے بہتر کوئی یہ نہیں جانتا کہ آپ کے چند خلوص دل سے کہے حوصلہ اور ہمت دلاتے الفاظ اور رویے ُ کیسے دوسرے کے دل پر ٹھنڈی پھوار ثابت ہوتے ہیں اور یکایک اس میں کیسے اعتماد اور حوصلے میں اضافہ کر دیتے ہیں۔

پھر جب یہ خوف زدہ چہرے آزمائشوں کی بھٹی سے نکل آئیں تب بھی ان سے بہتر کوئی نہیں جانتا کہ کسی ڈوبتے دل کو کیسے اپنے تسلی دیتے لہجے امید دلاتے الفاظ اور چمکتی بھیگتی آنکھوں سے زندگی کے حسین کنارے پر لایا جاتا ہے۔ کیونکہ جس انسان پر بیت چکی ہو اسے دوسرے کی تکلیف بھی اپنی ہی لگتی ہے۔ اللہ پر کامل ایمان انسان کو بھوک اور خوف دونوں سے نجات دلاتا ہے اللہ تعالیٰ سورۃ البقرہ میں فرماتے ہیں"اور ہم ضرور تمہیں خوف وخطر، فاقہ کشی، جان ومال کے نقصانات اور آمدنیون کے گھاٹے میں مبتلا کرکے تمہاری آزمائش کریں گے اور ایسے صابرین کے لیے بشارت ہے"۔

اس عالمگیر عفریت سے نمٹنے کے لیے بے شک مسلمان کے لیے بھوک اور خوف میں صبر ہی آخری حل ہوتا ہے۔ لیکن جہاں ہماری یہ ذمہداری بھی ہے کہ ہم بھوکوں کو کھانا کھلائیں وہیں لوگوں کے خوف بھی اپنے انفرادی اور اجتماعی رویے اور ہمدردی سے دور کرنے کی بھر پور کوشش کریں اور انہیں یہ باور کرائیں کہ نوے فیصد اندیشے اور خدشات جو بلاوجہ خوف پیدا کرتے ہیں دراصل جھوٹ ہوتے ہیں۔ جو خوف کھانے سے نہیں ٹلتے بلکہ ان کا مقابلہ کرنے سےہی ٹل سکتے ہیں۔

بندہ قصور وار ہے خالق مرا غفور
اب خوف دل میں بھلا ہم کبھو کریں

Check Also

Adab

By Idrees Azad