Monday, 29 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Dr. Rabia Khurram/
  4. Safar Waseela e Zafar

Safar Waseela e Zafar

سفر وسیلہ ظفر

کہتے ہیں سفر وسیلہء ظفر ہوتا ہے۔ سفر میں ظفر یاب ہوں یہ سدا ضروری تو نہیں لیکن سفر ہمیں نت نئی جگہوں اور ہستیوں سے ملانے کا مؤجب ضرور ہے۔ سعدی نے سفر کیے اور آج دنیا سعدی کو جانتی ہے۔ ہم سفر کرتے ہیں کہ ہم دنیا کو جان پائیں۔ ایسے ہی کسی سفر میں کوئی "راہ" پا لیتا ہے تو کوئی "منزل"۔ کسی کو "رہنما" میسر آ جاتا ہے تو کسی کی ملاقات "ہم سفر" سے کروا دی جاتی ہے۔ کبھی کوئی ہم ذوق دوست پا لیتا ہے تو کوئی بظاہر خالی ہاتھ دکھائی دیتا ہے۔

ہمارے بیشتر سفر فطرت کی رعنائیوں سے ملاقات کے سفر رہے ہیں۔ پہاڑ، پربت، چشمے، جھیلیں، ندیاں، دریا، درخت، پرندے اور ان سب کی سنگت میں رہتے بستے مہمان نواز انسان۔ ان کی کہانیاں وقتاََ فوقتاََ سناتی رہتی ہوں لیکن آج جس سفر کی کہانی سنانا چاہتی ہوں وہ سفر شہری تمدن کی چکا چوند میں گم ایک درویش صفت روح سے اتفاقیہ ملاقات پر منتج ہوا۔

امسال ہم عروس البلاد کراچی کی جانب عازم سفر ہوئے۔ پہاڑوں کی بلندیوں سے بہتے دریاؤں کی آخری منزل، سمندر کے شہر۔ اس شہر کی جانب کہ جس کی سطح زمین کو معیار مان کر عظیم الشان پہاڑوں کی بلندی و رفعت طے کی جاتی ہے۔ کہتے ہیں زمین پر رہنے والے کو گرنے کا ڈر نہیں ہوتا۔ سطح سمندر سے بھی نیچے موجود شہر کی سرزمین پر بسنے والے ایک صوفی منش سے ملنا پلان میں نہ تھا لیکن مقدر میں تھا۔ ایک پلان انسان بناتا ہے اور ایک پلان اللہ بناتا ہے اور اللہ کا بنایا پلان ہی اصل ہوا کرتا ہے۔

کراچی میں میری چھوٹی بھابی کی چھوٹی بہن بیاہی ہوئی ہیں۔ گویا ہماری ڈبل چھوٹی بہن۔ چند ناگزیر وجوہات کی بنا پر ہم مدعو ہونے کے باوجود عاصمہ بہن کی شادی میں فزیکل شرکت نہ کر پائے تھے اب اس غیر حاضری کا مداوا بھی کرنا تھا۔ کراچی جاتے اور چھوٹی بہن کے گھر نہ جاتے یہ ممکن نہ تھا خصوصاََ جب بھابی کی محبت بھری تاکید بھی تھی اور چھوٹی بہن کا محبت بھرا اصرار بھی۔ سو 7 روز کے ٹرپ کا دوسرا دن بہن کے سسرال جانے کا پروگرام فائنل ہو گیا۔

ڈاکٹر صاحب نہایت ریزرو طبیعت کے مالک ہیں۔ نئے لوگوں سے ملنا، ان کے گھر جانا، رسوم و رواج ان کی طبیعت سے میل نہیں کھاتے۔ لیکن جانا تھا تو بس جانا تھا۔ واٹر پمپ کی طرف جاتے ہوئے مجھے بار بار تاکید کی جا رہی تھی کہ بس 15 منٹ رکیں گے۔ ملنا اور نکل پڑنا زیادہ نہیں رکنا۔ میں جی جی کر رہی تھی۔ خیر گوگل میپ پر راستہ دیکھتے ہم عین ان کے دروازے پر جا پہنچے۔

عاصمہ نے دروازے پر استقبال کیا۔ نئے تعمیر شدہ کار پورچ سے گزر کر گھر کے ڈرائینگ روم میں لے جائے گئے۔ سادگی سے سجا صاف ستھرا ڈرائینگ روم گھر کے باسیوں کی نفاست کا مظہر تھا۔ دائیں جانب ایک تخت پوش تھا اور تین اطراف میں صوفے۔ دیواروں پر چند پینٹنگز اور وڈ ورک سے ہینڈ کرافٹڈ کیلی گرافی کے نمونے خوبصورتی سے سجائے گئے تھے۔

ابھی ہم عاصمہ کے ذہین آنکھوں والے ننھے اکلوتے بیٹے اور سنجیدہ و خاموش طبیعت میاں سے سلام دعا کر رہے تھے کہ گھر کے اندر سے سفید کرتا شلوار میں ملبوس ایک باریش بزرگ کمرے میں داخل ہوئے۔ ان کے لباس کی سفیدی تھی یا براق ریش کی چمک کہ کمرے میں روشنی کا منبع ان کی ذات محسوس ہونے لگی۔ سیدھا سادا تعارف کروایا گیا یہ محترم شخصیت عاصمہ کے سسر عرفان مجید صاحب ہیں۔

سیدھے سادے الفاظ میں عام سا تعارف نہ عہدے کی دھونس نہ ذات پات کا رعب۔ بس سادہ سا نام عرفان مجید۔ ذات پات کے قائل نہیں سو ہر لاحقے سابقے سے اپنے اور اپنی فیملی کے نام کو پاک رکھتے ہیں۔ ہلکی پھلکی گپ شپ کے دوران فالسے کا تازہ جوس نفیس جام میں پیش کیا گیا۔ ہم پنجابی لوگ فالسے کا جوس بڑے سائز کا گلاس بھر بھر کر پینے والوں کا ان نازک جاموں سے کیا بنتا سو بہن سے فرمائش کی گئی کہ اپ جوس کا جگ ہمارے پاس رکھ دیں۔ یہ بےتکلفی کی ابتدا تھی۔

بس پھر بات سے بات چل نکلی۔ مرد ایک دوسرے سے پیشے کے متعلق پوچھنے لگے تو پتا چلا کہ انکل عرفان پی آئی اے ٹریفک کنٹرول ڈویژن میں آفیسر ہیں اور بہت دنیا گھوم چکے ہیں۔ عبد الاحد برادر بینک میں جاب کرتے ہیں اور باغبانی کا شوق رکھتے ہیں۔ کیکٹس پلانٹس میں ان کی خاص دلچسپی ہے اور نہایت کامیاب کیکٹس گرور cactus grower ہیں نیز منی ایچر پلانٹس میکنگ کا بھی ذوق رکھتے ہیں۔

تکلف کی برف تو سرد و شیریں فالسہ جوس میں گھل چکی تھی اسی دوران اشیائے خورد و نوش سے بھری ٹرالی ہمارے سامنے آ موجود ہوئی بیشتر چیزیں گھر پر بہن کے ککنگ و بیکنگ کے شوق کا شاخسانہ تھیں۔ ایک انجینئر بہو جو بہترین کک اور بیکر ہو کسی بھی قدردان گھرانے کے لیے رحمت ہے۔ اس اثناء میں محترم خوشدامن آنٹی شگفتہ صاحبہ بھی ملحقہ ڈائننگ روم میں تشریف لے آئیں انہیں سانس کی کچھ شکایت ہے جس کی وجہ سے وہ کرونا کے آغاز سے ہی ملنے جلنے میں محتاط فاصلے کا خاص دھیان رکھتی ہیں۔

آنٹی ادب و سیاست کے دو متضاد شوق بیک وقت پالے ہوئے تھیں۔ میں ان سے ادب پر اور ڈاکٹر صاحب سیاست پر تبادلہء خیال کرتے رہے۔ ہمسفر نے دیوار پر سجائی پینٹنگ کی تعریف کی تو پتا چلا کہ یہ تمام پینٹنگز انکل عرفان کی بہن نے بنائی ہیں۔ کیا ہی ماہر فنکار ہیں سمندر میں تیرتے بادبانی جہاز کی زبردست عکاسی کی گئی تھی۔ یہیں سے بات نکلی تو پتا چلا کہ انکل عرفان مجید ہوائی جہازوں کا صرف ٹریفک ہی کنٹرول نہیں کرتے بلکہ فرصت کے اوقات میں ہوائی و بحری جہازوں کے لکڑی کے ماڈلز بھی بناتے ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ وڈ کرافٹنگ سے مختلف قرآنی آیات و اسمائے الٰہی و اسمائے نبی کریمؐ کی کیلی گرافی بھی کرتے ہیں۔ یہ انتہائی باریک اور محنت والا کام وہ محض شوق میں کرتے ہیں اسے ذریعہ آمدنی نہیں بنایا گیا۔ اپنے پیاروں اور فن کے قدردانوں کو تحفتاََ عنایت فرماتے ہیں۔ میرے سوال پر کہ اس کیلی گرافی اور کرافٹنگ کے دوران آپ خالق کائنات کے حضور حاضری کا لطف پا لیتے ہوں گے کہ مسلسل محنت و ارتکاز کسی کو بھی منزل تک پہنچا سکتا ہے۔

تو انکل نے دھیمی سے زیر لب مسکراہٹ کے ساتھ اثبات میں سر ہلایا اور ان کی مسز نے فوراََ جملہ ارزاں کیا کہ یقیناََ رابعہ، اشفاق احمد کو پڑھتی ہیں۔ سچ ہے ہم جنہیں دیکھتے سوچتے یا پڑھتے ہیں وہ ہمارا حصہ بن جایا کرتے ہیں اس لیے اپنی ہستی کی تعمیر میں بلڈنگ بلاکس کا انتخاب سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے۔ ہمارا انتخاب ہمارا تعارف بن جاتا ہے۔ ہماری محفل ہماری پہچان ہوتی ہے پس گل فروش کی محفل کی پہچان خوشبو ہے۔

وڈ کرافٹ اور کیکٹس و منی ایچر پلانٹس کی تصاویر ساتھ لگا رہی ہوں کہ فن کے قدردان اسے دیکھ کر سراہیں۔ ایک ایسی فیملی جہاں ہر شخصیت کا پیشہ سائنس اور مشغلہ ادب تھا۔ ہم وہاں 15 منٹ کی روایتی حاضری کی نیت سے گئے تھے اور کئی پندرہ منٹس پر مشتمل طویل و پر لطف مجلس کے بعد پھر دوبارہ لمبی نشت رکھنے اور اس نشست میں انکل کی جانب سے ہمارے لیے خصوصی کیلی گرافک کرافٹ کا تحفہ ملنے کے وعدے پر وداع ہوئے۔

انکل و بیگم عرفان مجید اور اہل خانہ ہمارے ٹرپ کی حسین یاد کا حصہ ہیں۔ ان شاءاللہ ہم پھر ملیں گے۔

Check Also

Aakhir Kab Tak Fan Ho

By Syed Mehdi Bukhari