Monday, 29 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Dr. Rabia Khurram/
  4. Maaen Udas Ho Jati Hain

Maaen Udas Ho Jati Hain

مائیں اداس ہو جاتی ہیں

بچے پر نکلتے ہی گھونسلے سے اڑانے بھر جاتے ہیں کبھی فون پر بات کر لیتے ہیں تو کبھی ویڈیو کال پر کہیں کوئی چھٹی مل جائے تو گھر واپسی کی راہ لیتے ہیں لیکن گھر پر راہ تکتی ماں کی آنکھوں کی پیاس بجھتی ہی نہیں کہ بچے دوستوں سے ملنے کے لیے باہر نکل جاتے ہیں دو دن چار دن بس اس سے زیادہ چھٹی ہوتی نہیں کہ بچوں کے جانے کا وقت آ جاتا ہے۔

ماں نے ابھی سامان کھولا تھا۔ میلے کپڑے دھوئے تھے۔ صاف شفاف کپڑوں کی استری اور تہہ لگا کر سجایا سنوارا تھا لیکن کپڑے بچوں کے ساتھ کا نعم البدل تو نہ تھے بھلا کپڑوں سے کتنی باتیں کرتی کیسے اپنے دل کا حال سناتی اور بھلا کپڑے کیا جواب دیتے ہاں کپڑوں پر موجود نشان بچوں کے شب و روز کا احوال سنا دیتے تھے کہ کب موبائل پر مگن بچے نے کھانا کھاتے ہوئے سالن لباس پر گرا دیا تھا یا چائے چھلک گئی تھی۔ کسی بچے کی پینٹ پر نظر آتے ننھے سے سوراخ کے جلے کنارے بچے کی سموکنگ کی نئی عادت کا پتا دے دیتے تھے۔ لیکن کپڑوں کو ٹوکتی تو کیسے کیا کہتی کہ یہ بری عادت ہے۔ بچے اب بڑے ہو چکے تھے اپنا اچھا برا سمجھنے لگے تھے۔

ماں کی نصیحتیں آوٹ ڈیٹڈ اور اس کی فکریں بلاوجہ کا کنسرن لگتی تھیں۔ ماں بچوں کی راہ تکتی تھی بچے تو ہم عمر یاروں کے ساتھ گھومتے ہیں بڑھاپے کی دہلیز پر کھڑی ماں کی کمپنی بورنگ ہوتی ہے۔ پھر بچے آتے ہیں کھانا پوچھتی ہے تو پتا چلتا کہ باہر سے کھا آئے ہیں۔ بہت نیند آ رہی ہے بس انہیں صبح مخصوص وقت پر جگا دیا جائے تاکہ وہ اپنے سفر پر روانہ ہو سکیں۔ بچوں کی بلائیں لیتی پیاسی آنکھیں اولاد کے ساتھ کھانا کھانے کی خواہش میں بھوکی بیٹھی ماں کے ساتھ ہی تشنہ رہ جاتی ہیں اور بچے لپک جھپک اپنے اپنے بیڈ روم میں اپنے موبائل کے ساتھ جا لیٹتے ہیں جہاں دنیا جہاں کی حسین لوریاں ان کی منتظر ہوتی ہیں۔

بھوکی بڑھیا دو نوالے زہر مار کرتی ہے اور مصلے پر جا بیٹھتی ہے تاکہ اپنے خاندان کی سلامتی اور عافیت مانگ سکے۔ یہاں خشک آنکھیں خود بخود تر ہو جاتی ہیں دعائیں کرتے کرتے اگر شکوہ زبان پر آ جائے تو دھیان پڑتے ہی ماں فوراََ معافی کی طلب گار ہوتی ہے کہ کہیں ناشکری کا کلمہ نہ لکھ لیا جائے۔ مصلہ لپیٹتی ہے۔ اور بےخواب بستر پر کروٹیں بدلنے لگتی ہے تسبیح ہاتھ میں گھومتی رہتی ہے زبان پر ذکر رہتا ہے اور دل میں ماضی سے حال کی فلم چلنے لگتی ہے۔

کتنا وقت گزرتا ہے پتا نہیں چلتا اسی میں آنکھ جھپک جائے تو ڈر کر اٹھ بیٹھتی ہے کہ بچوں کو جگانے میں دیر نہ ہو جائے۔ صبح ہوتی ہے بچوں کو آواز دیتی ہے ناشتہ پوچھتی ہے تو کبھی کوئی فرمائش آ جاتی ہے اس فرمائشی ناشتے کو بناتے میں ماں نہایت خوشی محسوس کرتی ہے کہ وہ اپنے بچے کے لیے کچھ کر رہی ہے۔ بچے نہاد کر بابو بن کر ناشتے کی ٹیبل پر آ بیٹھتے ہیں ایک آنکھ موبائل کی بھول بھلیوں میں گم ہوتی ہے دوسری سے ناشتہ اور ماں کو بہلا رہے ہوتے ہیں۔

کیا کریں زندگی اتنی تیز رفتار ہوگئی ہے کہ بچے کے لیے ماں کو توجہ دینا ناممکن سا ہوگیا ہے بس ماں کا دل ہے نہ جو اسے بہلاتا رہتا ہے اور اولاد کا وکیل صفائی بنا رہتا ہے۔ جس روز بچے ناشتے سے انکار کر دیں اس روز تو آدھی ادھوری توجہ بھی ملنا محال ہو جاتی ہے۔ بچے تیاری سے گال پر چومتے یا دور ہی سے فلائنگ کس کرتے اپنے مستقبل کی طرف دوڑ جائے ہیں اور مائیں اداس رہ جاتی ہیں۔

پس نوشت۔ ایسا نہیں ہے کہ باپ اداس نہیں ہوتے لیکن باپ عموماََ معاش اور دنیاداری کے لیے گھر سے نکلتے ہیں عموماََ بوڑھی ماں خالی گھر میں زیادہ رہتی ہے اس لیے ماں کے لیے لکھا۔ باپ بھی اداس ہوتے ہیں بہت بہت زیادہ بس وہ اظہار کم کرتے ہیں۔

Check Also

Bhook, Khauf Aur Sabr

By Javed Ayaz Khan