Monday, 29 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Dr. Rabia Khurram/
  4. Khoobsurat Mehfil

Khoobsurat Mehfil

خوبصورت محفل

ہمارے موٹیل "ٹریول لاج ششکٹ گوجال اپر ہنزہ" کے اونر کا برتھ ڈے تھا۔ اس خوشی میں محفل موسیقی منعقد کی گئی تھی۔ چونکہ ہم ان کے ایسے مہمان تھے جن سے دوستانہ تعلق بن چکا تھا سو ہم بھی مدعو کیے گئے تھے۔ ہنرمند مقامی فنکار جو خود رو بوٹیوں کی طرح اگے اور خود ہی اپنے شوق سے موسیقی سیکھا کیے۔ رباب پر منیر ہاشمی صاحب ہیں، درمیان میں مقامی ساز جو طبلے سے مماثل ہے لیکن بینڈ کی طرح چھڑی سے بجایا جاتا ہے اس پر استاد شیرباز صاحب ہیں اور ڈھول نما ساز شینا زبان میں ڈڑنگ DADANG کہلاتی ہے اس پر عابد صاحب تال دے رہے ہیں۔

یہ تینوں فنکار شعبہ موسیقی سے خاندانی طور پر منسلک نہیں بلکہ شوقین فنکار ہیں ان سب کا ذریعہ روزگار تجارت ہے۔ خوب صورت لوگ ہیں جنہیں بہرطور ناقدری کا گلہ ہے جس پر اب یہ اصرار بھی نہیں کرتے۔ ہاں ابتداء میں جب لوگ انہیں میراثی کہہ کر پکارتے تو یہ الجھتے لیکن اب یہ ملامتی انداز میں یا احتجاجََ ہی خود کو میراثی کہہ کر معاشرے کے معززین سے اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں۔

منیر ہاشمی صاحب (رباب) کہنے لگے کہ جو ہمیں محفل میں مدعو کرتے ہیں تمام رات ہمارا ساز سنتے ہیں صبح وہ خود کو معزز اور ہمیں میراثی پکارتے ہیں۔ یہ کیسے معزز ہیں جو موسیقی سن کر معزز رہتے ہیں اور ہم موسیقی بجا کر غیر معزز ٹھہرتے ہیں؟ اب یہ برملا خود کو میراثی کہتے ہیں وجہ معاشرے سے ناراضگی ہے۔ میری فرمائش پر صوفیانہ کلام سنایا یہ کلام پروفیسر ڈاکٹر سید ناصر شاہ صاحب کا کلام ہے۔

جس کا مفہوم یہ ہے کہ "ہم سو رہے تھے تم نے آ کر ہمیں جگایا تمہارا شکریہ "ڈڑنگ" والے عابد صاحب نے بتایا کہ سید صاحب مکمل طور پر غیر تعلیم یافتہ تھے جنہیں شاعری ودیعت کی گئی تھی اردو، فارسی اور شینا، زبان میں ان کا کلام پبلش ہو چکا ہے۔ چھ سال پہلے 101 سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی۔ انہیں انکی زندگی میں ہی زبان اور شاعری کی خدمت کے اعتراف میں بیرون ملک سے اعزازی پروفیسر اور ڈاکٹر کی ڈگری عطا کی گئیں۔ یہ تمام گروپ ان کی شاعری کا مداح تھا۔

میرے سوال پر کہ آپ کے گروپ کا کیا نام ہے؟ تو سب ہنسنے لگے پھر عابد صاحب نے سوچ کر کہا آپ ہنزہ آرٹ کونسل لکھ دیجیے گا۔ یہ ہنرمند فنکار لاہور الحمرا میں اسلام آباد اور کراچی کے علاوہ بیرون ملک بھی پرفارم کر چکا ہے لیکن خالی خولی ستائش اور نری موسیقی بچوں کا پیٹ نہیں بھرتی سو اپنا بیشتر وقت تجارت پر ہی متوجہ رکھتے ہیں۔ لیکن جیسے ہی کوئی قدردان انہیں پکارتا ہے تو ان کے اندر کا موسیقار جوش مارتا ہے پھر نیند اور جگراتے کی لڑائی میں سرخ آنکھیں اور خوبصورت دھنیں جیت جاتی ہیں۔

محفل موسیقی میں میزبان کی جانب سے کیک و مقامی سبز قہوہ پیش کیا گیا۔ شائقین نے محفل کے اختتام پر موسیقار کی حوصلہ افزائی اور قدردانی کے اظہار کے لیے ان کی خدمت میں ہدیات پیش کیے۔ استاد شیرباز اس گروپ کے روح رواں ہیں جو ایک کلپ میں طبلے پر چھڑی سے تال دے رہے ہیں۔ اگر تعارف نہ کروایا جاتا تو اپنی عاجز طبیعت اور جھکے ہوئے کندھے و شرمیلے چپ چاپ انداز کے باوصف وہ بالکل غیر اہم گروپ ممبر محسوس ہوتے۔ رباب کے علاوہ تمام ساز استاد شیرباز نے خود بنائے ہیں۔ استاد صاحب رخصت طلب ہوئے اور یوں ایک خوبصورت محفل کا اختتام ہوا۔

Check Also

Mezban Aur Mehman

By Javed Chaudhry