Tabdeeli, Aik Khwab
تبدیلی، ایک خواب
بحیثیت ایک عام پاکستانی اور ووٹر کے یہ سوچ پختہ ہو گئی ہے کہ جب تک ہم الیکشن کے سسٹم، الیکشن کمیشن اور موجودہ حکومتی سسٹم یعنی پارلیمانی نظام کو یکسر تبدیل نہیں کریں گے۔ اس ملک میں تبدیلی محض ایک خواب ہی رہے گی۔ محض چہرے بدلنے سے تبدیلی نہیں آتی۔
میرے ذہن میں کچھ سوال گردش کر رہے تھے ان کے جواب ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے۔
سوال نمبر1: کیا آپ موجودہ پارلیمانی نظام سے متفق ہیں؟
جواب: بلکل بھی نہیں۔ اگر یہ نظام اتنا ہی اچھا ہے تو امریکہ میں صدارتی نظام کیوں ہے؟ ترکی نے بھی اسی نظام کو اپنایا ہے۔ ہمیں بھی صدارتی نظام کی طرف جانا چاہئے۔
سوال نمبر2: کیا موجودہ پارلیمانی سسٹم میں قومی یا صوبائی سطح پر کوئی غریب، شریف النفسعام شہری انتخاب لڑ سکتا ہے؟
جواب: بلکل بھی نہیں۔ یاد رہے الیکشن میں کھڑے ہونے کا سوال نہیں الیکشن لڑنے کی بات ہو رہی ہے۔ جو ایک سیٹ پر کروڑوں خرچ کرے گا وہی الیکشن لڑ سکتا ہے۔ مضبوط الیکشن کمیشن اگر اس پر ہی روک لگا دے تو شاید کچھ بہتری آ جائے۔
سوال نمبر 3: سیاسی پارٹیاں امیدواروں کا چناؤ اچھی ساکھ کے لوگوں کا کرتی ہیں؟
جواب: بلکل بھی نہیں۔ ایک پارٹی تو ایسی ہے کہ اگر صرف اس کے بلدیاتی امیدوار کی پروفائل ہی دیکھی جائے تو کہیں نہ کہیں کرپشن، پرمٹ، ٹھیکہ، رسہ گیری یا اخلاق کا دیوالیہ پن نظر آئے گا۔
سوال نمبر 4: کیا امیدواران کے لئے تعلیم کی کوئی قدغن ہونی چاہئے؟
جواب: جب ایک گورنمنٹ کی ملازمت کے لئے ایک مخصوص تعلیم کا ہونا لازم ہے۔ تو ایک عوام کے نمائندے کے لئے تعلیم کی شرط کیوں نہیں ہونی چاہئے؟ کچھ سقراط اس کی نفی کرتے ہیں کہ انسان کو سیاسی شعور ہونا چاہئے تعلیم کا کیا رول۔ یہی سوال اگر الٹ کر کیا جائے کہ ملازمت کے امیدوار کو سیاسی شعور تو ہو لیکن متعلقہ تعلیم نہ ہو تو کیا اس کو ملازمت دی جا سکتی ہے؟
میری نظر میں صوبائی یا قومی سطح کے امید وار کے لئے گریجوایٹ اور بلدیاتی کونسلر منتخب ہونے کی شق لازمی ہونی چاہئے۔
سوالنمبر5: بلدیاتی انتخابات کیوں ضروری ہیں؟
جواب: حقیقی اور بنیادی جمہوریت کے لئے بلدیاتی انتخابات ناگزیر ہیں۔ اور یہ جماعتی بنیادوں پر ہونے چاہئے۔ مرد مومن کے دور میں غیر جماعتی بنیادوں پر ہوئے انتخابات سے برادری ازم گروہی مسلکی لسانی صوبائی عصبیت کو فروغ ملا جس سے آج تک ہم چھٹکارہ حاصل نہیں کر پائے ہیں۔ اتفاق ناپید ہو گیا ہے۔ ہم گروہوں میں بٹ چکے ہیں۔
سوال نمبر6: کیا ملک کے اندر موجود سیاسی جماعتوں میں جمہوریت ہے؟
جواب: دکھاوے کے لئے تو ہے لیکن عملی طور پر خاندانی موروثیت غالب ہے۔ اب انہی خاندانوں کی دوسری اور تیسری نسل پروان چڑھ رہی ہے۔ چوہدری نثار صاحب ہوں یا اعتزاز احسن صاحب یا پھر رضا ربانی صاحب۔ وہ شاہد خاقان عباسی صاحب ہوں، سعد رفیق ہوں سب کو سر تسلیم خم کرنا پڑتا ہے۔ یہ لیڈران جمہوریت کا راگ ضرور الاپتے ہیں لیکن اندر بادشاہت چل رہی ہے۔ غلام ابن غلام کا سسٹم چل رہا ہے۔
سوال نمبر 7: کیا کرپشن میں ملوث انسان کو امیدوار ہونا چاہئے؟
جواب: ہمارے ہمسایہ ملک میں اس جرم کی سزا موت ہے۔ ہم اگر سزائے موت نہیں دے سکتے تو کم از کم تا حیات نا اہل تو کر سکتے ہیں۔ تاکہ اس کرپشن کے ناسور کو حکومتی ایوان سے دور رکھ سکے۔ کرپشن کو ہم نے اپنی زندگی میں ایسے شامل کر لیا ہے جیسے یہ کوئی جرم نہیں ہے۔ یہ اخلاقیات کی بدترین قبیح شکل ہے۔
سوال نمبر 8: کیا ووٹر کو اپنے ووٹ کا شعور ہے؟
جواب: زیادہ تر کو نہیں ہے۔ زیادہ آبادی دیہات میں ہے۔ وہاں لوگوں کو تعلیم سے دور رکھا گیا۔ ووٹ برادری یا پٹواری تھانہ کلچر کے ذریعے ڈلوائے جاتے ہیں۔ میڈیا اینکر کو چاہئے وہ ذرا خود کو تکلیف دے کر دور دراز کے دیہات میں جائیں وہاں کوریج کریں تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ ابھی ہم ووٹر کو شعور نہیں دے سکے ہیں۔ ووٹر کو عزت مل جائے گی جب آپ ووٹر کو شعور دیں گے۔
سوالنمبر9: جو خاموش ووٹر ہے جو ووٹ کاسٹ ہی نہیں کرتا اس کا کوئی حل؟
جواب: جتنے بھی الیکشن ہوئے ہیں ٹرن آوٹ کم رہتا زیادہ تر ووٹ کاسٹ نہیں ہوتا تو ان لوگوں کی نمائندگی کون کرے گا؟ اقلیت میں ووٹ لینے والے ایوانوں میں پہنچ جاتے ہیں۔ تو کیا ایسا الیکشن ایک مذاق نہیں بن جاتا؟ بیلٹ پیپر پر ایک ایسا خانہ بھی ہونا چاہئے جس میں یہ درج ہو کہ ان میں سے کوئی بھی امیدوار الیکشن کا اہل نہیں ہے جو گنتی اس خانے کی ہو اس کو بھی عوام کی رائے سمجھا جائے اس سےجو خاموش ووٹر ہے وہ اپنی ناراضگی کا اظہار اپنے ووٹ سے کر سکے گا اور وہ پولنگ کے دن الیکشن گہما گہمی میں نظر آئے گا۔
سوال اس طرح کے اور بہت سے سوال لیکن طوالت کے خوف سے اتنا ہی کافی ہے مقتدر حلقوں کو بھی سوچنا چاہئے کہ عوام کو اتنا بھی نکڑ میں مت لگائیں۔ پریشر کوکر پھٹنے کے قریب ہے جلدی سے وصل اٹھا دیں بھاپ نکل جائے نہیں تو بازبانی اس شاعر کے کہ
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں۔