Kar Bhala, Ho Bhala
کر بھلا ، ہو بھلا
پاکستان کی عوام کو ہمیشہ لائن میں ہی لگایا جاتا۔ چاہے راشن لینا ہو، شناختی کارڈ بنانا ہو، پاسپورٹ بنانا ہو۔ یا کوئی بھی محکمانہ کام ہو گورنمنٹ کے آفیسرز چاہتے کہ لوگ ایسے ہی تنگ ہوں تا کہ وہ مجبور ہو کر شارٹ کٹ طریقہ ڈھونڈے اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے سسٹم چلتا رہے۔
اچھے حکمران اپنی عوام کے لئے آسانیاں پیدا کرتے ہیں۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب یوٹیلٹی بل جمع کروانے کے لئے پورا ایک دن چاہئے ہوتا تھا۔ بینکوں کے آگے لمبی لمبی لائنز لگی ہوتی تھی۔ بہت بری حالت تھی۔ بھلا ہو شوکت عزیز صاحب کا عوامی نمائندہ نہ ہونے کے باوجود عوام کی تکلیف کااحساس کیا۔ اب بل جمع کروانا اتنا مشکل نہیں رہا۔
اگر ایسا ہی کام شناختی کارڈ یا پاسپورٹ کے لئے پیپر لیس کوئی سسٹم بنا دیا جائے اور وہ محفوظ ترین بھی ہو تو کرپشن مین خاطر خواہ کمی آئے گی۔ جو ایجنٹ ان آفسز کے باہر شریف لوگوں کواپنے شیشے میں اتار لیتے ان سے چھٹکارا مل جائے گا۔
شناختی کارڈ بنانے میں تو پھر بھی اب کچھ آسانی ہو گئی ہے۔ لیکن پاسپورٹ کے حصول کے لئےبہت سارے پل صراط سے گزرنا پڑتا۔ دفاتر کے باہر گارڈ الگ سے عوام کی عزت نفس مجروع کرتےہیں۔
دفاتر کے اندر جگہ اتنی تنگ ہوتی کہ ہر کام میں رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ آبادی روز بروز زیادہ ہو رہی۔ ان دفاتر پر بہت زیادہ رش دیکھنے کو ملتا آفس کا ٹائم کھلنے سے پہلے لوگوں کی لمبی لمبی قطار نظر آتی ہے۔ اکثر اثرورسوخ یا سفارشی لوگ اندر چلے جاتے ہیں۔ جس سے باہر لوگ طیش میں آجاتے ہیں اور لڑائی جھگڑا معمول کا حصہ بن کے رہ گیا ہے۔
بہت ضروری ہے کہ ہم شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کو آن لائن کر دیں۔ ہمارے ہمسائے ملک نے توشاید یہ سسٹم کر دیا کہ ٹیم آپ کے گھر آکر سب کوائف لے گی اور پاسپورٹ یا قومی دستاویزات آپکو گھر بیٹھے مل جائیں گی۔ اور ایسا یورپ ممالک میں بھی ہو رہا کہ آپ اپنے کاغذات بذریعہ ڈاک ارسال کر دیتے ہیں۔ ایس ایم ایس کے ذریعے آپ کو اپ ڈیٹ رکھا جاتا ہے سب کام اپنی روٹین میں ہوجاتا ہے۔ کسی کی سفارش یا رشوت دینے کی نوبت نہیں آتی۔ ہمیں بھی اسی سسٹم پر آنا ہو گا۔ عوام کو ان محکموں کے افراد کے فرعونی رویوں اور چیرہ دستیوں سے محفوظ کرنا ہوگا۔
عموماََ رشوت کا بازار تبھی گرم ہوتا جب کام کو اتنا مشکل اور سست بنا دیا جائے اور آدمی ان لوگوں کے رحم و کرم پر ہو تو رشوت ہن کی طرح برستی ہے۔ اور یہی لوگ کبھی بھی ای پاسپورٹ کےحق میں نہیں۔ ہمیں کاغذی کاروائی کو ختم کرنا ہوگا۔ لوگوں کی رسائی صرف آن لائن ہو ایک کوڈجنریٹ ہو سب اسی ترتیب سے کام بخیرو خوبی انجام پائے۔
یہاں پر اس بات کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا بہت ضروری ہے کہ دنیا میں قومی دستاویزات یاشہریت دو نمبر سے بنانا ممکن نہیں ہمارے ہاں آئے دن ایسے واقعات رپورٹ ہوتے جس میں جعلی شناختی کارڈ یا ایسےغیر ملکی شہری جو پاکستان کا پاسپورٹ حاصل کر لیتے ہیں۔ جو پھرمنشیات، دہشت گردی، یا غیر قانونی کام میں ملوث ہو جاتے ہیں۔ پکڑے جانے پر بدنامی پاکستان کےحصہ میں آتی ہے۔ اس پالیسی کو از سر نو محفوظ بنایا جائے۔ ایسا لائحہ عمل بنایا جائے کہ کوئی بھی غلط یا ناجائز ذرائع سے نیشنلٹی حاصل نہ کر پائے۔
پاسپورٹ کے لئے ریجن آفس کی بجائے یہ اجازت ہونی چاہئے کہ وہ بندہ اپنے کسی بھی قریبی آفس میں جا کر اپنا پاسپورٹ بنوا سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ پاسپورٹ کا ڈیٹا دیتے ہوئے پاسپورٹ کنندہ کی پروفائل میں بلڈ گروپ، بچپن سےلیکر اب تک کی ویکسینیز کا ریکارڈ بھی مرتب کیا جائے پاسپورٹ کے آیک صفحے پر ان کی نشاندہی کر دی جائے تا کہ کسی بھی ایسے ملک میں جاتے ہوئے الگ سے ویکسین سرٹیفکیٹ نہ بناناپڑے۔
سب معلومات ایک ہی سی این سی کے اندر موجود ہوں۔ جب بچہ پیدا ہو اسی وقت اس کوایک نیشنل نمبر الاٹ کیا جائے سب ویکسین اسکول کالج ہسپتال گو کہ ساری زندگی کا ریکارڈ اس سی این سی نمبر کی پروفائل میں جمع ہوتا جائے اور بوقت ضرورت ایک کلک پر سامنے آجائے۔ اس سے جرائم پر بھی قابو پانے میں آسانی پیدا ہو گی۔ اس سسٹم کو قومی سطح پر لاگو کیا جائے۔
خدارا لوگوں کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کریں۔ نہ کہ قدم قدم پر ان کی عزت نفس مجروع کیجائے
کہتے ہیں کہ
کر بھلا، ہو بھلا، انت بھلے کا بھلا