An Hone
انہونی
انہونی کا مطلب ہوتا کچھ ایسا ہو جانا، جس کی آپ توقع نہیں کر رہے ہوتے۔ خلاف توقع کوئی حادثہیا واقعہ جو انسان کی زندگی میں رونما ہو جائے۔ ہر انسان کی زندگی میں کبھی نہ کبھی انہونیسے واسطہ ضرور پڑتا ہے۔ اگر تو وہ انہونی اس انسان کی وجہ سے بنی ہو تو انسان کا ضمیر ساری زندگی ملامت کرتا ہے۔ حال ہی میں ایک کہانی پڑھنے کو ملی، اس کی حقیقت کیا وہ راوی بتا سکتا ہے یا اس کا لکھاری۔
پر کبھی کبھی ایسی انہونی ہو جاتی۔ لفظ بہ لفظ لکھنا تھوڑا مشکل کام میں کہانی کا خلاصہ لکھنے پر اکتفا کروں گا۔ مقصد یہ کہ ہمیں اس کہانی سے کچھ سیکھنا چاہئے۔ (راوی ملک صفدر حیات ریٹائرڈ ڈی ایس پی تحریر حسام بٹ کتاب کا عنوان مجرم محرم ناشر محمد علی قریشیصاحب) موضوع "رائی کا پہاڑ" وہ لکھتے ہیں کہ گوجرانوالہ ریلوے لائن کے پاس ایک نامعلوم جوان لاش ملی۔
تفتیش تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ اس جوان لڑکے کی شادی تھی۔ جس کے لئے برات لاہور گئی۔ وہاں پر دلہا دلہن کے گھر والوں کے درمیان دلہن کے بھائی کی ایک غلطی سے اختلاف پیدا ہو گیا۔ دلہن کا باپ چاہتا تو اسمسئلے کو حل کر سکتا تھا۔ یعنی اس اختلاف پر مٹی ڈال سکتا تھا۔ اور اپنے بیٹے کی غلطی تسلیم کر لیتا تو معاملہ وہیں پر رفع دفع ہو جاتا۔
بد قسمتی سے ایسا نہ ہو پایا، برات لاہور سے واپس بذریعہ ٹرین گوجرانوالہ واپس آ گئی۔ اسی سفر کے دوران اس دلہا کا قتل ہوا گھر والوں کو ٹرین سے اترنے کے بعد معلوم ہوا کہ دلہا غائب ہے۔ بقول راوی جب قتل کی تفتیش کی کڑیاں ملائی گئی تو اسکا کھرا لاہور کے تین جرائم پیشہ لوگوں تک پہنچا۔ ان کو گرفت میں لایا گیا تو مزید انکشاف ہوا کہاس دلہا کو سبق سکھانے کے لئے کسی پہلوان صاحب کی خدمات لی گئی تھی۔
کہ ہڈیاں وغیرہ توڑ دی جائیں۔ لیکن پہلوان صاحب نے آگے جن کو یہ کام تفویض کیا گیا وہ کچھ ایکسٹرا کر گئے جسسے وہ دلہا اپنی جان کی بازی ہار گیا۔ اصل بات جو رہ گئی کہ ان کو خاص تاکید کی گئی تھی۔ کہاس کو لاہور کی حدود میں کچھ نہیں کہنا، بلکہ جب وہ گوجرانوالہ کی حدود میں داخل ہوں تب آپ نے اپنا کام کرنا ہے۔ اور اس سارے واقعہ کا ذمہ دار اس دلہا کا سسر نکلا۔
جس نے اپنی جھوٹی انا کی تسکین کے لئے یہ سب کیا۔ پر اس کا مقصد قتل کروانا ہرگز نہیں تھا۔ لیکن وہ انہونی کو ٹال نہیں پایا۔ ہمیں بھی چاہئے کہ کبھی بھی ایسی نوبت تک نہ جائیں در گزر کریں۔ سیانے کہتے ہیں کہ قتل کبھی بھی نہیں چھپتا، ناحق خون کبھی نہ کبھی ظاہر ہو جاتا ہے۔ اور یہی قانون قدرت ہے۔ سیانے کہتے کہ قتل کی ایف آئی آر درخت پر صرف ٹانگ دی جائے تو وہ سوکھ جاتا ہے۔
ایک انسان کا ناحق قتل پوری انسانیت کا قتل شمار ہوتا ہے۔ ہمیں اپنے ذاتی معاملات کو کبھی بھی اس نہج پر نہیں لے کے جانے چاہئے جدھر سوائے پچھتاوے کہ کچھ بھی نہ بچے، پر یہ بھی سچ کہ انہونی کو کوئی ٹال نہیں سکتا۔ موت کا ایک دن معین ہے وہ آ کے رہنی ہے۔ وہ جگہ وقت سب طے شدہ ہے۔ موت انسان کو گھیر گھار کر اس جگہ لے ہی جاتی ہے۔ بحثیت مسلمان یہ ہمارا عقیدہ ہے۔ اللہ پاک ہم سب کا خاتمہ ایمان پر کرے