Aap Hi Apni Adaon Pe Zara Ghor Karen
آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں
اگر سابقہ ادوار کے اخبارات کا مطالعہ کرنے کا موقع ملے تو بہت سی باتیں یا مکالمے، جملے، سیاسی بیانات لفظ بہ لفظ ایک جیسے ملیں گے۔ جیسے یہ بیانات نہیں بدلے ویسے ہی عوام کی قسمت نہیں بدل سکی۔ جو سیاسی جماعتیں یا قائدین اپوزیشن میں ہوتے تب ان کے پیٹ میں عوام کا درد اور مروڑ اٹھتے۔ جونہی اقتدار کے سنگھاسن پر پہنچتے تب ان کی کیفیت ہذیانی ہو جاتی۔ عوام ان کے لئے شجرہ ممنوعہ بن جاتی ہے۔ اپوزیشن میں ہوتے ہوئے عوام کو لال بتی کے پیچھے لگایا جاتا۔ جھوٹےسچے خواب دیکھائے جاتے۔
پتہ نہیں اقتدار کا نشہ اتنا طاقتور ہوتا کہ ان لوگوں کی نیندیں اقتدار کے حصول کے لئے غائب ہو جاتی ہیں۔ اقتدار کے حصول کے لئے کروڑوں، اربوں روپے کی انویسٹمنٹ کی جاتی ہے۔ کیا یہ صرف غریب عوام کی فلاح کے لئے ایسا کرتے ہیں؟ جواب ہے نہیں۔ تو پھر عوام کو بھی جاگنا چاہئے کہ جو لوگ ان کو جذبات کی رو میں بہکا لیتے ہیں بار بار کیوں ان لوگوں پر تکیہ کر لیا جاتا ہے۔ کیوں ان لوگوں سے امید باندھ لی جاتی ہے؟ جن کی وجہ سے جدھر آج ہم کھڑے ہیں۔
چند بیانات ملاحظہ کیجئیے اور خود اندازہ کیجئے کہ ہم لوگ کن لوگوں کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں۔ جس کا رزلٹ زیرو نکلتا ہے۔
"موجودہ حکومت کرپٹ ہے۔ "
"موجودہ حکومت نااہل ہے۔ ان کے پاس عوام کے مسائل کا کوئی حل نہیں۔ "
"ملکی خزانے کو بہ دریغ لوٹا جا رہا کوئی پوچھنے والا نہیں۔ "
"جب ہم حکومت میں آئیں گے ایک ایک پائی کا حساب لیں گے۔ "
"دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جائے گا۔ "
"ان سے حکومت نہیں چل پا رہی تو گھر چلے جائیں ہم تجربہ کار لوگ ہیں تجربہ کار ٹیم ہمارے پاس ہے ہم مہنگائی کم کر دیں گے" وغیرہ وغیرہ۔
جونہی اقتدار میں آتے کیسٹ کی بی سائیڈ کچھ ایسے چلنے لگتی ہے۔
"مہنگائی ایک عالمی مسئلہ ہے۔ "
"عوام کو کچھ دیر تک قربانی دینی پڑے گی۔ "
"پچھلی حکومت خزانہ خالی کر کے گئی ہے۔ "
"ہم لوگ دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ "
"ہمارے پاس جادو کی چھڑی نہیں کہ راتوں رات سب تبدیل کر دیں۔ "
"حکومت جب تک عوام کو انصاف نہیں پہنچائے گی سکون کی نیند نہیں سوئے گی۔ "
"اقتدار کوئی پھولوں کی سیج نہیں ہے" وغیرہ وغیرہ۔
حکومت کی تبدیلی سے آج تک آپ غور کر لیں اپوزیشن یا حکومتی ارکان نے عوام کے ریلیف کے لئےکچھ پلان کیا ہو؟ ملک کی بہتری کے لئے کچھ سوچا ہو؟ عدالتوں میں عوام رل کے رہ گئی ہے۔ سارا زور آپس میں ایک دوسرے کو نیچا دیکھانے میں لگے ہوئے ہیں۔ عدالتوں کا قیمتی وقت بے جا مقدمات میں ضائع کیا جا رہا ہے۔ عوام کی حقیقی مسائل کا ادراک نہیں کیا جا رہا۔
خدارا عوام کا سوچئے جو بجلی کے بل دینے سے قاصر ہو چکے ہیں۔ ایک بل دینے کے بعد اگلے مہینےکے بل کے لالے پڑ جاتے ہیں۔ بمشکل ایک بل ایک مہینہ کے ادا کر سکے ہیں۔ وہ بھی اپنی کوئی چیز فروخت کر کے۔ سوچیں یہ سلسلہ کب تک چلے گا؟ دوسری طرف ضمنی بے معنی الیکشن پر بے جا خرچہ۔ اتحادی حکومت کو برقرار رکھنے کے لئے وزیروں مشیروں کی ظفر موج ان پر اٹھنے والے اخراجات کس کی جیب سے ادا ہو رہے؟
صرف اور صرف اپنے ذاتی ایجنڈے اپنے کیسز سے جان چھڑانے کے لئے پوری قوم کو فرسٹریشن میں مبتلا کر دیا۔ اور پھر خادم اعلیٰ کے بڑے بھائی پوچھ رہے کہ عوام ہم سے ناراض کیوں؟ کون اس سادگی پر مر مٹ نہ جائے۔ عوام کے ادا شدہ ٹیکس کو جس بے دردی سے حکومتی وزیروں، مشیروں پر لٹایا جا رہا اس سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو رہی کہ جتنی جلد بھی ممکن ہو صدارتی نظام لایا جائے تاکہ مختصر کابینہ ہو ملکی وسائل کا اجاڑہ نہ ہو اور ملک ایک درست سمت کی طرف چل نکلے۔
یہ جو چند سیٹوں کی عوض پوری حکومتی مشینری کو یرغمال بنا لیا جاتا ہے اس سے چھٹکارہ حاصل کیا جائے۔ عوام کے حقیقی مسائل پر غور و خوض کیا جائے، ان کی مشکلات کا مداوا ہو سکے۔ "اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو وہ دن دور نہیں جب دم مست قلندر ہو گا ویسے یہ لائن بھی اپوزیشن کے لوگ اکثر میڈیا ٹاک کی زینت بناتے رہتے"۔ احمد فراز صاحب کا شعر یاد آ رہا کہ
آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں فراز
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہو گی