Wukla Ko Mufadati Siasat Se La Taluq Hona Hoga (2)
وکلاء کو مفاداتی سیاست سے لاتعلق ہونا ہوگا (2)
اگر وکلاء کے ریاست اور معاشرے میں پروفیشنل کام کی اہمیت کا اندازہ ہو جائے تو ان کی تعلیمات اور تجربات سے فائدہ اٹھانے کے ہر شعبہ زندگی میں ہزاروں مواقعے ہیں جن کے کردار سے ہمارے کئی مسائل ختم ہو جائیں گے۔ قانونی پیچیدگیاں ختم ہو جائیں گی اور اس سے عدالتوں پر بوجھ ختم ہو جائے گا۔ جب ہر کام قانون کے مطابق ہونا شروع ہو جائے گا تو لوگوں کے درمیان تنازعات پیدا ہی نہیں ہونگے اور جب تنازعات پیدا ہی نہیں ہونگے تو معاشرے کے اندر قانون اور قانون دانوں پر اعتماد بڑھے گا اور وہ خود ہی ان کو اہمیت دینا شروع کر دیں گے۔
لیکن اس کے لئے وکلاء کو خود کام کرنا ہوگا۔ اس پر ریسرچ کی جائے کہ کہاں کہاں وکلاء اپنی قانونی مہارتوں سے مستفید کر سکتے ہیں اور پھر اس پر عملدرآمد کے لئے حکومت کو سفارشات دی جائیں۔ جیسا کہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں جائیداد کی خرید و فروخت میں ڈاکومنٹیشن کی تیاری سے لے کر منی ٹرانزیکشن تک کا عمل وکلاء کے ذریعے سے ہوتا ہے جس میں تمام قانونی ریکوائیرمنٹس پوری ہوتی ہیں اور کسی بنی تنازع کا چانس نہ ہونے کے برابر رہ جاتا ہے۔
اسی طرح باقی کاروباری معاملات میں بھی اگر وکلاء کی قانونی آراء شامل ہو جائیں تو ہر ایک کے حقوق محفوظ ہو جائیں گے اور لوگوں کے اندر ریاستی نظام پر اعتماد بڑھے گا اور قوم و ملک کی توانائیوں، وسائل اور صلاحیتوں کا ضیاع ختم ہو کر اس کا مثبت استعمال شروع ہو جائے گا جس سے ترقی کا پہیہ چلنا نہیں بلکہ دوڑنا شروع ہو جائے گا۔
جب وکلاء کے علم اور مہارتوں کو استعمال کیا جائے گا تو اس سے نہ صرف ان کی مصروفیت بڑھے گی بلکہ ان کی آمدن بھی بڑھے گی اور اس سے نہ تو ان کے پاس اس طرح کے احتجاجوں کے لئے وقت ہوگا اور نہ ہی محدود تنخواہوں اور بھاری بھرکم ذمہ داریوں والے عہدوں کی طلب۔ اور اگر کوئی سیاست کو خدمت یا عبادت کے طور پر کرنا چاہتے ہیں تو پھر وہ اپنے سیاسی ٹائٹل کے ساتھ نہ کہ وکلاء کی تنظیموں کے نام پر سیاست کرکے ذاتی فائدے اٹھائیں اور وکلاء کے اجتماعی مفادات کو نقصان پہنچائیں۔ وکلاء کو بھی ایسے مفاد پرست عناصر سے چوکنا رہنا چاہیے۔
میری بار کونسلز اور وزیر قانون سےگزارش ہے کہ اصلاحات لائی جائیں کیونکہ اپنی ذاتی خواہشات اور پسند ناپسند کی بنیاد پر پوری برادری کی پہچان کو خراب کرنے کا کسی کو کوئی حق نہیں پہنچتا اور نہ ہی اس کی اجازت دی جا سکتی ہے۔ جو بھی یونیفارم پہن کر وکیل کے منصب کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا ہے اس کے خلاف ڈسپلنری ایکشن ہونا چاہیے۔ یونیفارم صرف عدالت میں ایک لاء آفیسر کے طور پر پیش ہونے کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
وکلاء کی خدمات کو عدالتوں کی بجائے وہاں پر پہنچائی جائیں جہاں پر تنازعات اور قانونی پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں۔ وکلاء اپنے دائرہ پریکٹس کو عدالتوں کی بجائے نچلی سطح پر بھی رائج کریں۔ ججز کے رشتہ داروں، دوستوں اور انکی لاء فرمز کے فیلوز کو ججز کے سٹیشنز پر پریکٹس کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔
وکالت کو سیاست زدہ ہونے سے بچانا ہوگا۔ جرنیل سیاست زدہ ہوا تو اس کی عزت گئی، جج سیاست زدہ ہوا تو اس کا مقام بھی ختم ہوا اور اگر وکیل بھی سیاست زدہ ہوگا تو اسے کا مقام بھی ختم ہو جائے گا۔ جب کوئی شعبہ ایک دفعہ عوام کی نظروں میں اپنا مقام کھو جائے تو پھر اس کا معاشرتی اصلاح کا کردار مفقود ہو جاتا ہے۔ ہمیں ہر صورت اپنے اداروں کو سیاست زدہ یا سیاست گرد ہونے سے بچانا ہوگا۔
مانا کہ وکیل آزاد ہیں مگر اتنے آزاد بھی نہیں کہ کالا کوٹ پہن کر مجرموں کو ہار پہناتے پھریں۔ کالا کوٹ انصاف کی علامت ہے اور انصاف کبھی بھی جانبدار، غیر شفاف اور اصولوں کے خلاف نہیں ہو سکتا۔ ہر وکیل سے اس کے فرائض منصبی یہ تقاضہ کرتے ہیں کہ "وہ اپنے پیشے کے وقار اور اعلیٰ مقام کے ساتھ ساتھ اس کے ممبر کی حیثیت سے اپنے وقار اور بلند مقام کو ہر وقت برقرار رکھے" اور اس پر عمل ہر وکیل کا ذاتی فرض تو ہے ہی مگر اس پر عمل کروانا بار کونسلز کا بھی فرض ہے۔
بار ایسوسی ایشنز۔ بار کونسلز اور لاء منسٹری کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ ایسے قوانین بنانا ہونگے کہ کوئی بھی وکیل کالا کوٹ پہن کر سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لے سکتا اور جو لے اس کے خلاف ڈسپلنری ایکشن ہونا چاہیے۔ وکالت کے شعبے کو سیاست زدہ ہونے سے بچانا ہوگا۔ اور اس کے لئے وکلا برادری کو خود اس بارے محرک ہونا ہوگا۔ وکلاء کو ایسے عناصر کو پہچاننا ہوگا جو اپنے سیاسی مقاصد اور مفادات کی خاطر بارز کی سیاست کرتے ہیں اور پھر ان کے نام کو استعمال کرکے اپنے مفادات حاصل کرتے ہیں۔ فائدے حاصل کرنے والے چند لوگ ہوتے ہیں اور بدنام پوری برادری ہوتی ہے۔
وکلاء کو بارز کی سیاست میں آنے والوں سے یہ یقین دہانی لینی ہوگی کو ان کو عہدوں کا کوئی لالچ نہیں اور اگر ان کو کوئی ایسی پیشکش ہوتی بھی ہے تو وہ اس کو قبول نہیں کریں گے۔ اور ان کو اپنی قیادت کے لئے سامنے لائیں جن کا ماضی برادری کی خدمت اور عہدوں سے دور گزرا ہے۔ کئی ایسے لوگ پہلے سیاست کرتے ہیں پھر ان عہدوں پر فائز ہوتے ہیں۔ اور جب عہدوں سے سبکدوش ہوتے ہیں تو پھر دوبارہ سیاست شروع کر دیتے ہیں اور پھر وہ پہلے سے بھی بڑے عہدوں کی دوڑ میں شامل ہو جاتے ہیں۔ خاص کر ایسے لوگوں کو بار بار موقع دینا تو اپنی برادری کی ساکھ کے ساتھ کھیلنے کے مترادف ہے۔