Tayyaba Khamosh Zulm Ka Nishana
طیبہ خاموش ظلم کا نشانہ
مقابلہ بڑے بڑے پھنے خان بھی نہیں کرسکتے تو قوم کی نہتی بیٹیاں کیسے اس ظلم و بربریت کا مقابلہ کرسکتی ہیں۔ انٹرویو کے بعد قانون حرکت میں تو آیا ہوگا مگر شائد اس کو ابھی بھی انصاف کی توقعات یقینی نہیں ہیں کہ اس نے آج مزید ہوش ربا انکشافات کئے ہیں جن سے اس میں ملوث حکومتی ادارے کے متعلقہ افسران کو شرم سے ڈوب مرنا چاہیے اور یہ مزید انکشافات اس معاملے کی بے توجہی کی وجہ سے مجبوراً وہ سامنے لا رہی ہے کہ شائد اس کی شکایات پر عمل نہیں کیا جارہا۔ اگر بروقت اس کی شکایات پر عمل ہوجاتا تو شائد مزید رسوا کن انکشافات کی نوبت ہی نہ آتی۔
اس کے ان الفاظ "مجھے مرد اہلکاروں نے گرفتار کیا۔ گاڑی میں میرے ساتھ جو درندگی کی گئی، وہ میں بیان نہیں کرسکتی۔ مجھے ٹرانزٹ ریمانڈ کے بغیر لاہور لے جایا گیا۔ مجھے سلیم شہزاد کے پاس لے جایا گیا تو میرے کپڑے پھٹے ہوئے تھے۔ میرے جسم پر نیل پڑے ہوئے تھے۔ تلاشی میں ڈی جی نیب لاہور سلیم شہزاد کے کہنے پر میرے کپڑے تک اتار دیے گئے" نے ہماری قومی غیرت اور حمیت کا جنازہ نکا ل دیا ہے۔
کہاں گئے وہ ریاست مدینہ کے زبانی دعویدار وہ یہ بھی کہتی ہے کہ "مجھےاور میرے خاوند کو وزیراعظم ہاؤس میں پچتالیس دن قید کرکے رکھا گیا" ظلم کی حد دیکھئے کہ طیبہ کے مطابق وقت کے حکمران جن کے پاس وہ داد رسی کے لیے گئی تھی اس کو انصاف دلانے کےجھانسے میں اس سے معلومات اکٹھی کرکے اپنی ڈھال کے طور پر استعمال کرتے رہے اور یوں تحریک انصاف، انصاف کے عمل کا رگڑا نکالتی رہی۔ مثالیں عمر کی اور عمل امر کا یوں تو شائد امر نے بھی قیامت نہ ڈھائی ہو جو آج میرے ملک میں ہو رہا ہے۔
کیا ایسی ہوتی ہیں حکومتیں؟ کیا یہ ملک رہنے کے قابل رہ گیا ہے؟ کیا حکمرانوں کو شرم آئے گی کہ وہ کیا کرتے رہے ہیں۔ مگر نہیں اگر شرم ہوتی تو وہ ایسا کرتے ہی کیوں؟
موجودہ حکومت کے لئے بھی ایک امتحان ہے کہ وہ اس معاملے کی غیر جانبدار اور شفاف انکوائری کروا کر اس میں ملوث کرداروں کو بے نقاب کرتی ہے کہ نہیں۔
جب کسی انکشاف اور الزام پر انصاف کا نظام خاموش تماشائی بنا دیکھتا رہے تو پھر نتائج یہی نکلا کرتے ہیں جو آپ کے سامنے ہیں ایک اور قوم کی طیبہ مبینہ الزام لئے نظام انصاف کو آواز دے رہی ہے کہ کیسے اس کے ساتھ بھی فحش گفتگو کی جاتی رہی۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ موصوف عادی ملزم ہیں۔
اتنے وثوق کے ساتھ اتنے بڑے عہدے پر فائز شخصیت کو مورد الزام ٹھہرانا بھی کوئی عام بات نہیں۔ الزام لگانے والی عورت ایک پڑھی لکھی عورت ہے اور وہ قانون اور غلط بیانی کے نتائج کو بھی اچھی طرح سمجھتی ہے لہذا اس سے کسی مقصد کے تحت اس طرح کے عمل کا خدشہ بھی نہیں کیا جاسکتا۔
اس کے بیان سے میرے لئے خاص توجہ طلب بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں عورتوں کی اس طرح سر عام سچ بولنے کی جرات کوئی عام چیز نہیں۔ اتنے طاقتور مخالف کی کردار کشی سے لاحق خطرات کا ڈر اپنی زندگی اور کردار کو بھی داؤ پر لگانے کے مترادف ہے۔ ہمارا معاشرہ ایسی عورتوں کو قبول کرنے سے بھی انکاری ہوجاتا ہے۔ یہاں تک کہ جس شوہر کی وفاداری میں عورت اپنی عصمت کا دفاع کرتے ہوئے ایسے شرپسند وں کے خلاف اپنے کردار کو ڈھال بنا کے جرم کا جم کر مقابلہ کرتی ہے تو یہ واقعات ہی عورت کی بدنامی کا سبب بن جاتے ہیں جس کے بعد وہی خاوند اور خاندان بھی ساتھ دینے اور تعلق رکھنے سے شرمندگی محسوس کرنے لگتے ہیں اور زمانے کے طعنے جینا دو بھر کردیتے ہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ ان خواتین کی یہ کوشش نہ صرف اپنی عزت کو بچانے کے لئے مثالی ہے بلکہ معاشرے کی ہر عورت پر احسان ہے کہ انہوں نے گھناونے کردار کو بے نقاب کرکے عورت کی ذات کو تحفظ فراہم کرنے کا ماحول پیدا کیا ہے جس سے ظلم و بربریت کی شکار ہر عورت کے اندر خود اعتمادی آئے گی تا کہ وہ بھی ایسے ظلم کے خلاف اپنی آواز کو بلند کرسکے اور اس طرح کے پراگندہ ذہنوں کو عبرت ناک بنانے میں کردار ادا کرے۔
متعلقہ انکوائری کے اداروں کو عوامی سطح پر لوگوں کی پرائیویسی کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے لوگوں کو شواہد فراہم کرنے کا محفوظ موقعہ فراہم کرنا چاہیے تاکہ مزید متاثر لوگ بھی اعتماد کے ساتھ اپنی شکایات کو درج کروا سکیں۔
مزید میں سمجھتا ہوں کہ پبلک اکاونٹ کمیٹی کے اتنے دبنگ فیصلے پاکستان کی تاریخ میں ایک روشن مثال ہیں اور امید کی جاتی ہے کہ ناانصافی اور من مانیوں کی راہ میں رکاوٹ بن کر عوام کے حوصلے کو مزید بلند کریں گے۔ پی سی اے نے جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کی برطرفی کی بھی سفارشات جاری کی ہیں جن پر عمل کو فوری لاگو ہونا چاہیے۔ ویسے تو چاہیے تھا کہ تمام الزام علیہان بزات خود ہی اپنے عہدوں سے استعفےٰ دے دیتے تاکہ ان کی دباؤ کی ماضی کی مثالوں کا خدشہ بھی ختم ہوجاتا۔
کیونکہ ماضی میں بھی سینٹ میں اس معاملے پر آواز اٹھائی گئی اور پھر کردار کشی اور مقدمات میں پھنسنے کے ڈر سے آوازیں دب گئیں اور کئی مقدمات کی شروعات کی اطلاعات بھی ملتی رہیں مگر کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہ نکل سکا۔
مگر حکومت کی تبدیلی سے حالات کی بہتری کے اشارے خوش آئند ہیں اور دعا ہے کہ یہ مزید مستحکم ہوں اور ہمارے ملک میں انصاف کی بہاریں قائم ہوں۔