Saturday, 27 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Dr. Abrar Majid/
  4. Sochon Par Pehre Aur Adam Istehkam Ka Mahol

Sochon Par Pehre Aur Adam Istehkam Ka Mahol

سوچوں پر پہرے اور عدم تحفظ کا ماحول

انسان جب اپنی سوچوں کو تحریروں میں لاتا ہے تو پھر اس کی خواہشات، ارادے، چاہتیں، احساسات، تحفظات اور بہت کچھ دوسرے انسانوں تک پہنچتا ہے جس سےان پر ردعمل بھی ابھرتا ہے اور پھر ان کے نتائج کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اس رد عمل کے اثرات میں ایسے اشارے بھی ہوتے ہیں جن میں محبت یا نفرت کا اظہار ہوتا ہے جو یقیناً ہمارے لئے خوشی، رائے قائم کرنے اور اپنی اصلاح کے لئےفائدہ مند ثابت ہوتا ہے۔ لیکن بعض دفعہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ہماری تحریروں نے کس انسان پر کیا تاثر چھوڑا ہے، خاص کر اس انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور میں تو اشاعت وسیع اور اس کے اثرات کو جاننا انتہائی پیچیدہ ہوچکا ہے۔

کچھ ایسے ہی چھپے رستم لوگ جن کے مفادات متاثر ہورہے ہوتے ہیں وہ ظاہر نہیں کرتے مگر اپنے مقصد کو نقصان پہنچنے کا بدلہ لینے کی خاطر انتقام کی حد تک چلے جاتے ہیں اور ایسے لوگوں کی چالوں اور انتقام کے جذبے سے ہم چونکہ لا علم ہوتے ہیں اس لئے ان کی چالوں کے خطرات سے بچنا انتہائی مشکل ہوجاتاہے۔ ایسی صورت میں اللہ کا فضل ہی کارگر ہوسکتا ہے جس کے لئے ہمیشہ دعا کرتے رہنا چاہیے۔

آج میں کچھ ایسے ہی واقعات آپ کو سنانے جارہا ہوں جن سے نہ صرف ہمارے احساسات متاثر ہوتے ہیں بلکہ خوف و اندیشہ اور نقل حرکت میں بھی محتاط ہونا پڑتا ہے اور ساتھ ساتھ مالی طور پر بھی نقصان اٹھانا پڑتا ہے جس ہماری ذات کے علاوہ ہمارے ساتھ ہمارے خاندانوں کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

میرے ساتھ ہونے والے ان واقعات نے مجھے بہت محتاط کردیا ہے مجھے اپنی سرگرمیوں کو محدود کرنا پڑا، جس سے میری آزادی بھی متاثر ہوئی، میرا اظہار رائے کا حق بھی متاثر ہوا اور مجھے ذہنی، جسمانی اور مالی طور پر نقصان بھی اٹھانا پڑا۔

کئی دفعہ ایسے لوگوں کے تعاقب کا سامنا کرنا پڑا، دروازوں پر ڈندے برسائے گئے، گاڑی کو سڑک پر نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی اب یہ لوگ کون ہیں اس بارے کچھ کہہ نہیں سکتا مگر ان کی روداد ضرور سنا سکتا ہوں۔ اور پریشان کن بات تو یہ ہے کہ اس ملک میں نہ تو کوئی شکائت کارگر ہوتی ہے اور نہ ہی ان سے کوئی تحفظ حاصل ہوسکتا ہے۔

ایک دن میں گھر پر بیٹھا تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی اور میں باہر گیا تو دو نوجوان تھے جن میں سے ایک نے اپنا تعارف کسی ریڈیو سٹیسشن پر کام کرنے اور ساتھی کا پیشہ ڈاکٹر بتایا۔ میں نے پوچھا فرمائیے میں آپ کی کیا مدد کر سکتا ہوں۔ تو مجھے کہنے لگے کہ یہاں پر زمین کی کیا قیمت چل رہی ہے میں نے اندازے سے بتایا تو پھر میرے گھر کے ساتھ بنے فلیٹس کے بارے معلومات لینے لگے، میں نے ان کو بتایا کہ چوکیدار وہاں پر موجود ہوگا آپ اس سے معلومات لے سکتے ہیں مگر انہوں نے میرے ساتھ جانے پر اسرار کیا میں ان کے ساتھ چلاگیا اور ان کو بتایا کہ فلیٹس کھلے ہیں اور آپ جاکر اندر سے دیکھ سکتے ہیں مگر وہ مجھے اندر ساتھ جانے پر زور دینے لگے جس پر مجھے تعجب ہوا اور میں تھوڑا محتاط بھی ہوگیا۔

مجھے ان کے اس رویے پر کچھ گڑبڑ ہونے کا خدشہ ہواور میں نےتھوڑے سخت لہجے میں کہا کہ آپ جائیں اور دیکھ لیں تب وہ اندر چلے گئے تو میں گھر لوٹ آیا۔ تھوڑی دیر بعد پھر دستک ہوئی باہر گیا تو وہی دونوں تھے اور کہنے لگے کہ ہم کل دوبارہ آئیں گے تو آپ ہمارے ساتھ جا کر کچھ پلاٹ وغیرہ دکھا دیں۔ میں نے کہا بھئی میں اس بارے کچھ نہیں جانتا مگر وہ گزارش کے انداز میں بضد تھے، میرے ساتھ پانچ سال کا بیٹا بھی تھا، ایک نے اپنے پرس سے سو روپے نکالے اور میرے ساتھ کھڑے بیٹے کو دینے لگا۔

میں نے شکریہ ادا کرتے ہوئے ان کو منع بھی کیا مگر انہوں نے زبردستی بیٹے کی جیب میں ڈال دئیے اور مجھ سے موبائل نمبر پوچھنے لگے۔ مجھے اخلاقاً نمبر بتانا پڑا۔ دوسرے دن پھر مجھے فون آیا اور اپنا تعارف کروانے کے بعد کہنے لگے کہ ہم آج دوبارہ آپ کی طرف آ رہے ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ آپ ہمارے ساتھ ہماری گاڑی میں چلیں تاکہ ہم کچھ پلاٹ دیکھ سکیں، تو میں نے انکار کر دیا کہ میں کچھ نہیں جانتا اور میں فارغ بھی نہیں ہوں۔ آپ کسی پراپرٹی ڈیلر کو ملیں، وہ اسرار کرتے رہے مگر میں نے معذرت کرتے ہوئے فون بند کریا۔

اسی طرح ایک دفعہ میری گاڑی کو ایک ملنگ دوست نے روک لیا میری فیملی بھی ساتھ تھی اور بہروپیے کی طرح عمل کرنے لگا، پیسے مانگے، میں نے اپنی استعداد کے مطابق پیسے دئے تو پانچ سو کا مطالبہ کرنے لگا اور ساتھ ہی اپنی پیشہ ورانہ انداز میں برا بھلا بھی کہے جا رہا تھا اس کے الفاظ محض قابل اعتراض ہی نہیں بلکہ تضحیک آمیزبھی تھے۔ بہرحال میں ملنگوں سے الجھنے سے تو رہا میں نے اس سے جان چھڑواتے ہوئے گاڑی آگے بڑھا دی مگر اس کے الفاظ نے مجھے کئی دن تک پریشان رکھا۔

ایک دن میں صبح صادق اپنے ڈرائینگ روم میں بیٹھا تھا تو ایک درویش صفت انسان اونچی آواز میں کچھ نعرے لگاتے ہوئے گزرا۔ میں نے اس کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں دی۔ وہ گلی کے آخر تک جا کر وآپس آگیا اور میرے گھر کے گیٹ پر دو تین زور دار ڈنڈے برسائے، مجھے فقط میرے گھر کے گیٹ پر ڈنڈے برسانے کا انداز عجیب تو ضرور لگا لیکن میں پھر بھی اس کو ضرورتمند سمجھ کر اس کی مدد کے لئے پہنچا تو وہ گلی کے آخری کونے سے مڑ رہا تھا۔ مجھے افسوس یہ ہے کہ میں اس کا پیغام تو نہ سن سکا مگر اس کے اشاروں سے سبق حاصل کرتے ہوئے حسب عادت اپنی تحریروں میں توقف ضرور کر دیا کیونکہ تحریروں کا مقصد کسی کو زند پہنچانا تو نہیں ہوتا اور خاص کر جب کوئی اس طرح سے انتباہ کر رہا ہوتو جان کی امان بھی تو چاہیے ہوتی ہے۔

ایک دفعہ میں جب دو ڈھائی بجے بچوں کو سکول سے لے کرگھر آیا اورجیسے ہی گھر میں داخل ہوا تو الماریوں سے کپڑے اور ہر چیز بیڈ کے اوپر اتھل پتھل پڑی تھی۔ دیکھا تو کوئی گھر کے او ٹی ایس سے سریے توڑ کرنیچے نازل ہوا تھا، میرے اور بچوں پر خوف سا طاری ہوگیا، چیزوں کو سنبھالا تو لیپ ٹاپ، ڈیجیٹل کیمرہ اور بچوں کی وڈیو گیم غائب تھیں، پولیس کو بلایا، رپورٹ درج ہوئی، موبائل لیبارٹری والے آئے، فنگر پرنٹس لئے، واضح پرنٹس پر اطمنان کا اظہار بھی کیا، مگر نہ کوئی گرفتار ہوسکا اور نہ کوئی اتہ پتہ ملا۔ چوریاں تو ہوتی رہتی ہیں مگر اس واقعہ کے اندر کچھ عجیب اتفاقات بھی دیکھنے میں ملے جن کی وجہ سے کافی دنوں تک میں اس بات پر غور و خوض کرتا رہا۔

ایک لفافے میں پرائزبانڈ پڑے تھے وہ بھی قسمت سے بچ گئے اور ایک دراز میں تین ہزار پاکستانی روپے اور 80کینیڈین ڈالر بھی تھے جو خوش قسمتی سے محفوظ رہے۔ خدا جانے اس کو یہ سب کچھ نظر نہیں آیا یا اس کی ترجیحات کچھ اور تھیں۔ کچھ دنوں بعد مجھے بہارہ کہو تھانہ میں کچھ ملزمان کی گرفتاری کا علم ہوا تو میں وہاں گیا سب انسپکٹر صاحب کو ملا اوران سے اپنے ملال کا اظہار کرتے ہوئے اپنے لیپ ٹاپ میں لکھی ہوئی چند کتابوں اور ڈیٹا کے چوری ہونے پرپریشانی کا اظہار کیا جس پر مجھے محسوس ہوا جیسے انکے اندر میرے لئے ہمدردی کے احساسات پیدا ہوئے ہیں۔ انہوں نے اپنے موبائل سے خاص زرائع پر رابطے شروع کردئے اور انکے انداز سے معلوم ہورہا تھا کہ وہ میری مدد کرنا چاہ رہے ہیں۔ مگر اچانک انکے انداز بھی بے بس سے لگنے لگے۔

ایک دفعہ میری چلتی گاڑی کے ساتھ ایک گاڑی نے کچھ اس طرح سے سڑک پر اٹکیلیاں کھیلنا شروع کردیں کہ جان بچانے کے لئے گاڑی کنٹرول کرتے کرتے ایک درخت سے جا ٹکرائی، تھوڑے بہت زخموں سے جان بخشی ہوگئی، اور وہ انجان دوست رفو چکر ہو گئے، جاکر ہسپتال سے پٹیاں لگوا لیں، الزام لگاتے بھی تو کس پر۔

بہرحال پاکستان ہے اور یہاں ملک و قوم سے محبت، اپنے خیالات اور اظہار رائے کو دوسروں تک پہنچانے کا ٹیکس ان چھوٹی موٹی اٹکیلیوں کی صورتوں میں دینا تو بنتا ہی ہے، بس دعا کریں کہ اللہ کسی بڑے حادثے سے بچائے۔

موبائل پر کبھی کبھی وقت بے وقت نا معلوم نمبروں سے کالیں آنا اور آگے سے پر اسرار خاموشی کی ہیبت تو یہاں ہمارے دیش کا ایک معمول کا عمل ہے۔ شروع میں میسنجر کے زریعے سے یہ ہمدرد لوگ مفید مشوروں سے مستفید بھی کرتے تھے کہ آپ محتاط رہا کریں اور بتاتے تھے کہ ان کو ایسی تحریروں کی وجہ سے تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑتا رہا ہے۔ میں ان دوستوں کو مخلص سمجھ کر ہمیشہ اپنی تحریروں کو معرفت کے انداز میں لکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ کیونکہ میرا مقصد کسی کی دل آزاری یا دکھ پہنچانا تو ہوتا نہیں ہے۔

اور میرا مقصد تو صرف اپنے محسوسات کا اظہار اور انسانی حقوق اور ترقی کے خواب کی تکمیل میں ایک چھوٹی سی کوشش ہی تو ہے۔

ملک میں ایک خوف کا سا سماں ہے۔ صحافت کی کتنی آوازیں دبانے کے لئے جانوں تک سے کھیلاگیا اور کچھ اپنی جانیں بچا کر محفوظ مسکن کی تلاش میں اپنے وطن سے دور اس مٹی کی محبت کے لئے ترس رہے ہیں۔

ایسے ہتھکنڈوں سے سوچوں پر پہرے لگا کر آزاد اور تعمیری سوچ کے زریعے سے ترقی کی راہوں کی تلاش میں رکاوٹیں تو کھڑی کی جاسکتی ہیں انہی دبانے کی کوشش میں ملک سےانکو بھگایا ضرور جاسکتا ہے مگر وہ دبتی نہیں بلکہ وہ کسی آزاد ماحول کا رخ کرکے پہلے سے بھی زیادہ ابھر کر سامنے آتی ہیں۔ لہذا بہتر یہی ہوتا ہے کہ سوچوں کے اظہار کے زریعے سے عوام کے رد عمل کو سمجھ کر حالات میں بہتری کی کوشش کی جائے چہ جائے کہ عدم تحفظ کے خوف کو بڑھا کر آوا ز کے دب جانے سے سب کچھ ٹھیک ہونے کا گماں کر لیا جائے۔

Check Also

Nineties Ke Ashiq

By Khateeb Ahmad