Friday, 27 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Dr. Abrar Majid
  4. Qaum Banna Hoga

Qaum Banna Hoga

قوم بننا ہوگا

اگر ہم واقعی اپنے ملکی مسائل کے حل کے لئے مخلص ہیں تو پھر ہمیں پہلے قوم بننا ہوگا۔ قوم وہ ہوتی ہے جس کی سوچ ایک ہو۔ جب سوچ ایک تھی تو وسائل نہ ہونے کے باوجود، دنیا کی فاتح قوم سے نجات حاصل کرکے ایک آزاد ریاست حاصل کر لی اور اگر اب دوبارہ اپنی آزاد ریاست کو بیرونی قرضوں اور مداخلت سے آزاد کرکے جینے کا حق حاصل کرنا ہے تو پھر دوبارہ سے ایک قوم بننا ہوگا۔

ایک ایسی سوچ پیدا کرنا ہوگی جس میں اپنے ذاتی مفادات کو قربان کرکے قومی مفادات کو ترجیح دینا ہوگی۔ ڈالرز کے پیچھے بھاگنے کی بجائے اپنی کرنسی میں کاروبار کو ترجیح دینا ہوگی۔ دولت کو ملک کے باہر لے جانے کی بجائے دولت کو واپس لانا ہوگا۔ اپنے وقت، دولت اور توانائیوں سے ملک کو بدعنوانی سے پاک کرنا ہوگا کیونکہ اُس وقت تک یہ ملک ترقی نہیں کرسکتا جب تک یہ دھرتی بدعنوانی، سمگلنگ، لاقانونیت، حقوق کی خلاف ورزی، ناپ تول میں کم، ملاوٹ اور دوسروں کی ہمدردی والی سوچ پیدا نہیں ہوگی۔

پاکستان کو اگر حقیقی پاکستان بنانا ہے تو پھر اس کے مطلب و مفہوم کو سامنے رکھتے ہوئے ماحول کو حقیقی بنانا ہوگا۔ پاکستان کا لفظی ترجمہ بھی پاک دھرتی بنتا ہے۔ پاکستان کا مطلب اگر لاالہ الا اللہ ہو اور اس کے اندر ہر وہ برائی جاری ہو جس کا اسلام سے دور دور تک کا بھی تعلق نہ ہو بلکہ اس کی ممانعت کی گئی ہو اور جسے اسلام اور کفر میں فرق بتایا گیا ہو تو پھر اس کی ترقی کے خواب کو کسی غافل کا خوب تو کہا جاسکتا ہے مگر باشعور انسان کا قطعاً بھی نہیں۔

کیا رشوت کا لینا دینا، نیچے سے لے کر اوپر تک کمیشن کی لت اور ہر طرح کی بدعنوانی کے ہوتے ہوئے اسے پاکستان کہا جاسکتا ہے؟ اگر ایسا نہیں تو پھر ہمیں سب سے پہلے اپنے اندر وہ اوصاف پیدا کرنا ہونگے جن سے ہم کم از کم یہ دعویٰ تو کر سکیں کہ ہمارے فعل ایک اچھے شہری کے ہیں۔ اس کے لئے ہمیں چھپائے ہوئے ڈالرز کو مارکیٹ میں عام کرنا ہوگا۔ چھپائی ہوئی خوراک، چینی، آٹا، چاول اور دوسری اجناس کو مارکیٹ میں لانا ہوگا۔ ہمیں ہر ایک کو اپنے اپنے گریبان میں جھانکنا ہوگا۔ دوسرے پر انگلی اٹھانے سے پہلے اپنی اصلاح کرنا ہوگی۔

ریاست محض جغرافیائی حدود کا نام نہیں ہوتا بلکہ اس کے اندر رہنے والے عوام اور نظام حکومت بھی اس کا حصہ ہوتے ہیں۔ عوام کی سوچ و عمل کا ریاست کے معاملات سے گہرا تعلق ہے۔ اس کا نظام حکومت عوام کی سوچ وعمل سے ہی مشروط ہوتا ہے۔ اس میں بہتری یا تباہی میں عوام کی سوچ و عمل کا ہی کردار ہوتا ہے۔ اس ملک کےحکمران ہم میں سے ہی ہوتے ہیں۔ ہم نے ہی ان کی خاندانوں اور معاشرے کے اندر تربیت کرکے انہیں ان عہدوں تک پہنچایا ہوتا ہے اور اگر ان کہ صحیح تربیت کی ہوئی ہوتی تو آج یہ وقت دیکھنے کو نہ ملتا۔ عوام کے اندر جس دن اپنے اور اس کے املاک اور اداروں کی اہمیت اور اس کی ملکیت کا احساس جاگ جائے گا اس دن سے ملک کی تقدیر بدل جائے گی۔ عوام کو جس دن اچھے اور برے میں تمیز آجائے گی۔ اپنے ملک کے آئین و قانون کی پاسداری کی اہمیت کا اندازہ ہوجائے گا اس دن سے ہماری سمت درست ہوجائے گی اور ہماری ترقی کے سفر کا آغاز ہوگا۔

اس کے لئے ہمیں اپنے سوچ و عمل سے قوم بننا ہوگا اور اپنے ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر قربان کرنے کا عملی ثبوت دینا ہوگا۔ اپنے ملک کو اپنا گھر سمجھنا ہوگا اور جس دن ہم یہ سمجھ لیں گے تو پھر ہمیں اس کو لوٹنے کی بجائے اس کو بنانے کی فکر لاحق ہوگی اور پھر ہم اپنے گھر کو لوٹ کر غیروں کے دیس نہیں بھاگیں گے بلکہ ان بھاگنے والوں کا بھی محاسبہ کریں گے۔ بدعنوانی کا حصہ بننے کی بجائے اس کے خلاف ڈھال بنیں گے۔ اس کے وسائل کو ذاتی مفادات کے لئے استعمال کرنے کی بجائے قومی مفادات کے لئے استعمال کریں گے پھر ہم عوام کو اس کی حفاظت کرنا بھی آتی ہوگی اور اپنی خدمت پر مامور ان لوگوں جن کی تنخواہیں خزانے سے جاتی ہیں سے کام لینا بھی آتا ہوگا اور اس دن سیاست شوق نہیں رہے گا بلکہ مجبوری بن جائے گا۔ لوگ سیاست سے بھاگیں گے اور عوام خود اچھے لوگوں کو ڈھونڈ کر مجبور کرکے مسند اختیارات پر بٹھائے گی۔

قوم بننے کا مطلب ہے کہ ہر کوئی اپنی سوچ و عمل کو ملک و قوم کے مفادات سے ہم آہنگ کرکے اپنی اپنی استعداد اور اختیار کے مطابق اپنا حصہ ڈالے۔ مذہبی منافرت، عہدوں اور اور اختیارات کی مسابقت، قول و فعل کی منافقت اور خود غرضی کی معاشرت کو چھوڑنا ہوگا اور ہر کسی کو اس کے نظریات اور آزادی کے ساتھ آئین و قانون کے دائرے کے اندر رہ کر زندگی گزارنے کا حق دینا ہوگا۔ مذہب کے تقدس کے نام پر قتل وغارت کو ختم کرنا ہوگا اور انسانی حقوق کی پاسداری کو یقینی بنانا ہوگا اور جبری گمشدگیوں، حق رائے کی آواز کا دبانے جیسے خوف سے پیدا ہونے والے اپنے ہی دیش میں اجنبیت کے تاثر کو ختم کرنا ہوگا۔ ہمیں اپنے گرد تمام مذہب، قومیت، علاقیت، زبان اور دوسرے حصار ختم کرکے محض پاکستانی ہونے کی شناخت پر اتفاق کرتے ہوئے سب کو مل جل کر اس ملک کی تقدیر کو سنوارنا ہوگا۔

قوم کو اچھے برے میں تمیز کرتے ہوئے ان عناصر کی حوصلہ افزائی کرنیا ہوگی جو ملک و قوم کے لئے مخلص ہیں اور جن کا ماضی اس اخلاص سے مطابقت رکھتا ہے اور ہر اس عنصر کی حوصلہ شکنی کرنا ہوگی جن کا قول و فعل ملک و قوم سے اخلاص کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا خواہ اسکا کسی بھی ادارے سے یا کسی بھی سیاسی جماعت سے تعلق ہو۔ سیاستدانوں کے نعروں کو ان کے قول و فعل کے ساتھ مطابقت کے ساتھ دیکھنا ہوگا اور اگر کوئی لوٹی ہوئی دولت واپس نہیں لاتا یا بدعنوانی کو ختم کرنے میں ساتھ نہیں دیتا تووہ اس ملک و قوم کے لئے مخلص نہیں ہوسکتا۔

ہمارے پاس اس کی کسوٹی ہماری سوچ و عمل اور آئین و قانون ہی ہے اگر تو ہم اس کسوٹی پر پورے اترتے ہویں تو پھر ہم اس ملک کے لئے مخلص ہیں اور اگر ہم اس کسوٹی پر پورا نہیں اترتے تو پھر ہمارے کھوکھلے نعرے اس ملک کو کچھ نہیں دے سکتے جیسا کہ ہماری تاریخ اس کی گواہ ہے۔

Check Also

Muhib e Watan Bangali

By Syed Mehdi Bukhari