Sunday, 22 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Dr. Abrar Majid
  4. Muzakrat Se Pehle

Muzakrat Se Pehle

مذاکرات سے پہلے

تمام سیاسی جماعتیں اگر واقعی ملکی حالات کو ٹھیک کرنے کے لئے سنجیدہ سوچ رکھتی ہیں تو پھر مذاکرات کا بنیادی نقطہ سیاسی استحکام ہونا چاہیے۔ پچھلی ایک دہائی پر محیط سیاست سے اگر اب بھی سڑکوں کی ناکہ بندیاں، مال بردار کنٹینرز کی مدد سے راستوں کا بلاک کرنا، ہائی ویز کی بندشیں، ریلیاں، گرفتاریاں، میڈیا پر پابندیوں، سیاسی مخالفیں پر مقدمات جیسے حربوں والے ماحول کا شوق پورا نہیں ہوا تو کب ہوگا۔

پچھلے کئی سالوں سے حکومت کسی بھی جماعت کی رہی ہو سیاسی عدم استحکام ایک معمول رہا ہے۔ ملک و قوم کی فلاح کا درجہ دن بدن خراب تر ہوتا جا رہا ہے جو اس بات کا اشارہ ہے کہ اس ماحول کے پیچھے کہیں ملک و قوم کے مفادات سے بالاتر جوابدہی سے آزاد ذاتی مفادات اور خواہشات کا دخل ضرور ہے جس کی وجہ سے ملک و قوم کی ترقی داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ اب یہ عہدوں، اختیار، مفادات اور مراعات کی بندر بانٹ کا ماحول ختم کرنا ہوگا اور اپنی ترجیحات کو عوامی خدمت پر مرکوز کرنا ہوگا۔

اس وقت بھی ایک طرف حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات کی باتیں چل رہی ہیں جو خوش آئیند ہیں لیکن دوسری طرف سول نافرمانی کی خبریں اور مبینہ تیاریاں بھی جاری ہیں اس لئے مذاکرات سے خاطر خواہ ثمرات کا حصول اس وقت تک ممکن نہیں جب تک سیاسی استحکام کو پائیدار بنانے اور مستقبل کے خطرات سے منٹنے کے لئے احتجاج، دھرنوں اور مطالبات کا کوئی پیمانہ ترتیب دیتے ہوئے سیاسی حدود کا تعین اور اسکی وضاحت کو بھی ان مذاکرات کا حصہ نہ بنایا جائے۔

سیاسی جماعتوں کو اپنا طرز سیاست بدلنا ہوگا۔ اپنی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے اپنی سمت کو درست اور صفوں میں سے منافقین کی جگہہ کو کم کرنے کا کوئی لائحہ عمل ترتیب دینا ہوگا۔ کب تک عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے نظام اور اداروں کو ذمہ دار ٹھہراتے رہیں گے۔ پارلیمان کی حقیقی بالادستی کا اپنے کردار سے ماحول پیدا کرنا ہوگا۔ یہ کسی طرح بھی مناسب نہیں کہ وہ ہر آمریت کی کوشش کو کندھا بھی مہیا کریں اور بعد میں اپنی معصومیت کے ڈھنڈورے پیٹتے ہوئے عوامی ہمدردیوں کی بھیک مانگتے پھریں۔ عوام کو وہ شعور دینا ہوگا جس سے وہ جوابدہی کے لئے اپنے اور مخالف نہیں بلکہ صحیح اور غلط کی سوچ کے ساتھ سیاست اور جمہوریت کو نقصان پہنچانے والے سیاسی قائدیں کے گریبان تک پہنچنے کی ہمت رکھتے ہوں۔

موجودہ سیاسی منظر نامے میں تحریک انصاف حکومت کو پریشان کرنے کے اپنے تمام تر ہتھیار خواہ وہ سوشل میڈیا کے زریعے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ مخالف سرگرمیاں ہوں، عدالتوں سے ریلیف کی کوشش ہو یا احتجاج، ریلیاں اور دھرنے ہوں استعمال کر چکی ہے۔ حکومت کی بجائے اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کی خواہشیں بھی آزما چکی ہے اور مقبولیت کے باوجود اپنی سیاسی حکمت عملیوں کی وجہ سے نہ صرف اپنی مشکلات میں مزید اضافہ کیا ہے بلکہ اپنی آخری سول نافرمانی کی کال سے مایوسی کی بند گلی میں دکھائی دے رہی ہے۔

سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کی اپنی تمام تر کوششوں کے بعد اب آخری کوشش سول فرمانی کی تحریک سے بھی کچھ حاصل ہوتا ہوا دکھائی نہیں دیتا اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر عوام تحریک انصاف کی محبت میں گھروں میں بیٹھے بجلی یا گیس کے بل ادا کرنے سے انکار کر دیں تو اس سے حکومت کو تو کوئی پریشانی نہیں ہوگی البتہ اگلے مہینے کا اضافی بل یا کنکشن ختم ہونے کی صورت میں جرمانہ اور بحالی کا بوجھ اور بنیادی ضروریات سے محرومی عوام کی اپنی مشکلات میں مزید اضافہ کر دے گا اس لئے کوئی بھی سمجھدار انسان اپنے لئے مشکلات پیدا کرنے کا نہیں سوچ سکتا۔

لہذا میں سمجھتا ہوں کہ اب حکومت کو مزاکرات کی شرائط کو سیاسی استحکام سے جوڑنا ہوگا۔ ملک کی بھلائی کے لئے کسی ایسے سیاسی حل پر پہنچنا ہوگا جس سے سیاست کو اصولوں اور جمہوری اقدار سے ہم آہنگ بنانے کے ساتھ ساتھ ذاتی مفادات اور مفادپرستوں کی حوصلہ شکنی کا بھی کوئی بندوبست پیدا کیا جا سکے۔

جمہوریت میں سیاسی آزادی کے ثمرات سے انکار نہیں مگر سیاسی عدم استحکام کا ماحول پیدا کرنے والی سرگرمیوں کو بھی کسی صورت جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ سیاسی آزادی کا یہ قطعاً بھی مطلب نہیں کہ ملکی قوانین اور شہری آزادی کو پامال کرتے ہوئے ملکی سلامتی کو خطرے میں ڈال دیا جائے یا اپنے نظریات اور خواہشات کو دوسروں پر زبردستی ٹھونسنے کی کوشش میں قومی و ملکی قدروں کو نظر انداز کرکے سیاست کے نام پر جو مرضی میں آئے کرتے پھریں۔

اب حکومت اور اپوزیشن کےاس موجودہ تاثر کو ختم کرنا ہوگا جس میں ہم اپنے لئے جو پسند کرتے ہیں وہ شائد دوسروں کے لئے پسند نہیں کرتے جن قوانیں کا دوسروں پر اطلاق کرنا چاہتے ہیں ان سے اپنے آپ کوآزاد رکھنا چاہتے ہیں۔ جب کوئی جماعت حکومت میں پہنچ جاتی ہے تو وہ ریاست کے وسائل کو گویا اپنی ذاتی ملکیت سمجھ بیٹھتی ہے اور اس کے قریب امن، خوشحال اور لا قانونیت کے پیمانے ہی بدل جاتے ہیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ حالات ٹھیک ہوں تو قوانین کا اطلاق غیر جانبداری، شفافیت اور برابری کے ساتھ کرکے عملی طور پر آگے بڑھنا ہوگا۔ اب ضروری ہو چکا ہے کہ سیاست کو بھی کڑی نگرانی کے دائرے میں لایا جائے تاکہ جمہوریت کو اہل سیاستدان مہیا کئے جا سکیں۔

کسی بھی چیز کی اصل خوبصورتی اس کے ساتھ متعین حدود و قیود سے ہوتی ہے اور ان کو قائم رکھنے کی پاسداری قوائد ضوابط کے اطلاق کے بغیر ممکن نہیں اور نہ ہی ان کے بغیر سیاسی و جمہوری آزادی کے حسن کو قائم رکھا جا سکتا ہے۔ اس لئے اب ضروری ہے کہ سیاسی آزادی کی حدود کا تعین کرکے ان کو واضح کیا جائے وگرنہ یہ سیاست میں اظہار رائے کے نام پر سیاسی حقوق کی آزادی کا پرتشدد اور انتہاپسندی کا رواج ہماری سیاست، جمہوریت، معاشرت اور تہذیب وتمدن کو مزید تباہ کر دے گا۔

جب دنیا کے ہر شعبے کے لئے تعلیم اور تربیت کی ضرورت ہے حتی کہ ایک یونین کونسل میں شہریوں کی پیدائش اور اموات کا ریکارڈ رکھنے والی سیکرٹری کی بھی تعلیم و تربیت کی ضرورت ہوتی ہے تو ملک و قوم کے نظام کو بہتر بنانے کے لئے قانون سازی کرنے والے اور ملک و قوم کی تقدیر بدلنے کے لئے اصلاحات لانے کے لئے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے امیدواروں کو تعلیم و تربیت کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی؟ کیا ان کے لئے یہ جاننا بھی ضروری نہیں کہ قومی یا صوبائی اسمبلی کے ایک ممبر کا بنیادی کردار کیا ہے؟ کیا ان کی جوابدہی ضروری نہیں کہ انہوں نے پانج سالوں میں اپنے حلقے کے عوام کی نمائندگی کرتے ہوئے کتنی بار اسمبلی کے فورم پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے؟ اگر ہم اپنی سیاسیت کا معیار ٹھیک کرنا چاہتے ہیں یا جمہوریت سے صحیح معنوں میں مستفید ہونا چاہتے ہیں تو یہ وہ چند سوال ہیں جن کا جواب ہمیں تلاش کرنا ہوگا اور عوام کو اس کا شعور دینا ہوگا تاکہ سیاست اور جمہوریت کی بنیادوں کو تو پہلے ٹھیک کیا جا سکے۔

جس سیاسی جماعت کے پاس پارلیمان میں نمائندگی موجود ہو اس پر عوامی سطح کے احتجاج کے لئے کڑی شرائط رکھی جائیں۔ جب تک پارلیمان میں نمائندگی رکھنے والی جماعتوں کے احتجاج اور دھرنوں پر پابندی کا قانون نہیں بنے گا تب تک کبھی بھی اس بے وقوفانہ طرز سیاست سے جان نہیں چھوٹے گی۔

مرکز کی حکومت بنانے کے لئے یہ ضروری ہونا چاہیے کہ اس جماعت کے پاس پہلے سے صوبے میں حکومت کرنے کا کم از کم پانچ سالہ ٹریک ریکارڈ ہو جس میں سیاسی اور معاشی بہتری کے اشاریئے موجود ہوں تاکہ قومی تشخص کو اناڑی سیاسی جماعتوں سے محفوظ رکھا جا سکے۔

سیاسی جماعتوں کی نگرانی کا مقصد سیاسی انتقام نہیں بلکہ جمہوریت کی مضبوطی اور پارلیمان کی بالا دستی ہو اور اس کو جس قدر شفاف اور غیر جانبدار بنایا جاسکے اسی قدر بہتر ہوگا۔ اس کی ذمہ داری الیکشن کمیشن کو بھی سونپی جاسکتی ہے جس کے لئے ادارے کے اندر ایک ایسا سیل بنایا جائے جس میں حکومت اور اپوزیشن دنوں سے برابری کی بنیاد پر دو دو ممبران کو بھی شامل کیا جائے اور باقی الیکشن کمیشن کے ممبران ہوں جو سیاسی جماعتوں کی نگرانی کریں۔

نگرانی کے لئے بنیادی اصولوں کو طے کرنا ہوگا جن کی بنیاد انصاف، شفافیت اور غیرجانبداری پر ہو۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ جو سیاسی جماعت حکومت میں ہو وہ سمجھے کہ وہ تو آئین و قوانین سے بالا تر ہے اور اس کی ہر سرگرمی امن اور خوشحالی کی علامت ہے مگر اپوزیشن جماعتوں کی سرگرمیاں معاشی اور سیاسی سلامتی کے لئے خطرہ ہیں اس کے لئے تمام سیاسی جماعتوں کی کانفرنس بلا کر بنیادی اصول طے کرنا ہونگے جن کے اطلاق کے لئے غیرسیاسی اور غیر جانبدار افسران کی کوئی کمیٹی بنانی ہوگی جس کی نگرانی پارلمانی کمیٹی کے پاس ہونی چاہیے۔

ان نگرانی کے اصولوں کی بنیاد مالیاتی خوردبرد، سیاسی جماعتوں کے اندر فعال جمہوریت کا یقینی ہونا، سیاسی انتشار پسندی، غیر جمہوری و غیر سیاسی سرگرمیوں میں ملوث پایا جانا، بغیر ثبوتوں کے عالمی برادری پر کسی بھی قسم کی ملکی سیاست یا معاملات میں مداخلت کی بیان بازی، ملکی اداروں کی سیاست میں مداخلت میں مدد یا ان سے اس کے لئے روابط اور اپنے سیاسی مخالفین پر جھوٹی الزام تراشیاں ہونی چاہیں تاکہ سیاست اور جمہوریت میں ایسے افراد کی کوئی گنجائش نہ رہے جو غیر سیاسی یا غیر جمہوری سرگرمیوں مے ملوث پائے جاتے ہوں۔

احتجاج اور دھرنوں کے لئے کوئی جگہ مخصوص کی جائے جسکے علاوہ کسی بھی دوسری جگہ پر احتجاج اور دھرنے کی صورت میں سخت تادیبی کاروائی رکھی جائے۔ لیکن اس سب پر عملدرآمد بھی تب ہی ممکن ہے جب ان مخصوص کی گئی جگہوں پر احتجاج، دھرنوں کو باقائدہ اہمیت دی جائے اور جائز مطالبات پر توجہ دے کر ان پر شفاف طریقے سے تحقیق اور عمل کو یقینی بنایا جائے تاکہ عوام کے اندر حکومت اور اداروں پر اعتماد کو بحال کیا جا سکے تاکہ عوام یہ سمجھنا شروع کر دیں کہ ان کے یہاں پر احتجاج کے بعد کسی دوسرے طریقہ کار بارے سوچنے کی ضرورت نہیں۔

احتجاج اور دھروں کے بھی اصول اور طریقہ کار متعین کئے جائیں۔ جن میں آئین و قانون میں دئے گئے پہلے سے کسی بھی معاملے کا حل نہ ہونے یا اس پر آئین و قانون میں دی گئی معینہ مدت میں عمل درآمد نہ ہونے کی صورت میں عوام، سیاسی جماعتوں کو احتجاج یا مطالبہ درج کروانے کی اجازت ہو۔ بلکہ ان مخصوص جگہوں پر احتجاج کی اجازت کو ان بنیادی نقاط سے مشروط کیا جائے۔ اسی طرح اگر کسی احتجاج میں ایک قومی یا صوبائی اسمبلی کے حلقے کے ووٹرز کے تعداد کے مطابق عوام یا سیاسی کارکنوں کی تائید حاصل ہو تو پھر اس کو پارلیمان میں بحث کے لئے پیش کیا جانا لازمی ہو اور پارلیمان اس پر بحث کے بعد عمل کو یقینی بنائے۔

پارلیمان کے اندر عوامی مطالبات پر غور کرنے کے لئے ایک تین رکنی کمیٹی بنائی جائے جس کے پاس ہر سیاسی جماعت سے موصول ہونے والے تحفظات، مطالبات جو الیکشن کمیشن کے اس سیل میں جمع کروائے گئے ہوں پر غور کے بعد اس کمیٹی کو ملیں اور وہ ان مطالبات کو جائز سمجھتی ہے تو اپنی ہدایات جاری کرتے ہوئے ان مسائل کا مستقل حل تلاش کرے اور اگر جائز نہ ہوں تو طے کئے گئے اصولوں یا قوانین کا حوالہ دیتے ہوئے ان کے رد کرنے کی وجوہات بتائے۔

سیاسی جماعتوں کو اپنی رجسٹریشن کے وقت اغراض و مقاصد میں درج کئے گئے نقاط تک سرگرمیوں کو محدود رکھنے کا پابند ٹھہرایا جائے۔ اسی طرح اگر کو ئی تنظیم یا جماعت غیر سیاسی مقاصد یا مذہبی تبلیغ کے لئے بنائی گئی ہے تو ان کو بھی اپنی سرگرمیوں کو اپنے مقاصد تک ہی محدود رکھنے کا پابند ٹھہرایا جائے چہ جائے کہ وہ اپنی عوامی پزیرائی کو سیاسی مقاصد کے لئے دوسرے سیاسی جماعتوں کو مستعار دیتی پھریں اور ملکی سیاسی استحکام میں بگاڑ پیدا کرکے ملک و قوم کے لئے مشکلات پیدا کریں۔

اسی طرح ریاست میں کوئی غیر جانبدارانہ فورم ہونا چاہیے جو حقائق پر مبنی معلومات کو عوام تک پہنچائے جو ملک وقوم کی ترقی کے اشارعیوں سے لے کر امن و سلامتی تک کے اشارعیوں کو واضح کرے تاکہ یہ بات واضح ہو کہ کس سیاسی جماعت کی سرگرمیاں عوام دشمن ہیں اور کس کی عوام دوست تاکہ عوام کے اندر شعور کو اجاگر کرکے عوام دوست سرگرمیوں کو دوام بخشا جا سکے۔

اس کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ اداروں کو سیاست سے آزاد قرار دیا جائے اور اس کے عملی ثبوت کے لئے اقدامات اٹھائے جائیں اور اس کے لئے ضروری ہے کہ ان کو عوامی خدمت پر مامور ہونے کو یقینی بنایا جائے اس سے نہ صرف ادارے مضبوط ہونگے بلکہ اس سے معاشی و سیاسی استحکام کے ساتھ ساتھ جمہوریت بھی مضبوط ہوگی۔

Check Also

Europe Aur America Ka Munafqana Khel

By Asif Masood