Saturday, 18 May 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Dr. Abrar Majid
  4. Kya Intikhabat Hi Siasi Bohran Ka Wahid Hal Hain?

Kya Intikhabat Hi Siasi Bohran Ka Wahid Hal Hain?

کیا انتخابات ہی سیاسی بحران کا واحد حل ہیں؟

سیاسی بحران اور استحکام کی ضرورت سے کوئی بھی انکاری نہیں۔ تمام سیاسی جماعتیں اس کا حل ضروری سمجھتی ہیں اور اپنے اپنے انداز میں کوشش بھی کر رہی ہیں۔ موجودہ معاشی بحران بھی اسی کے ساتھ جڑا ہے۔ اس کا پائیدار حل کیا ہے؟ آئیے اس پر تفصیلی بات کرتے ہیں۔

پنجاب کے ضمنی الیکشن کے نتائج سے یہ بات بخوبی واضح ہو گئی ہے کہ پنجاب کی عوام نے تحریک انصاف کے بیانیے کو قبول کر لیا ہے جس میں انہوں نے منحرف اراکین کو مسترد کرنے، بیرونی مداخلت اور حکومت سازی میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار پر نا پسندیدگی کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ جہاں تک بیرونی مداخلت کا تعلق ہے پی ڈی ایم تواتر کے ساتھ انکار کرتی آئی ہے اور اس پر سلامتی کونسل کی میٹنگ بھی بلائی گئی جس میں اس وقت امریکہ میں تعینات پاکستانی سفیر نے بھی شرکت کی اور سلامتی کونسل نے اس طرح کے الزامات کو مسترد کر دیا تھا۔

لیکن اس کے باوجود تحریک انصاف نے اپنا بیانیہ قائم رکھا اور اب انتخابات کے نتائج سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ عوام نے تحریک انصاف کے بیانیے کو تسلیم کر لیا ہے۔ تو میں سمجھتا ہوں کہ صرف اتنا ہی کافی نہیں۔ اس سے حکومت میں موجود جماعتوں پر الزام آ رہا ہے جس کی وہ تردید کر رہے ہیں۔ لہٰذا نئے انتخابات سے پہلے اس معاملے میں مزید تحقیق کی ضرورت ہے اس لئے اس پر کمیشن بنایا جانا چاہیے تاکہ حقائق قوم کے سامنے رکھے جا سکیں۔

جہاں تک منحرف اراکین کے مسترد کیے جانے کا تعلق ہے انتہائی خوش آئیند بات ہے اور اس سے تمام سیاسی جماعتوں کو سبق حاصل کرنا چاہیے اور اپنی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے اپنی حکمت عملیوں پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ مسلم لیگ نے ان منحرف اراکین کو جو ٹکٹ دئیے ہیں ان سے ان کی بد نیتی واضح طور پر ظاہر ہو گئی ہے اور یہ سچ ثابت ہو گیا ہے کہ ان کے روابط تھے جو اچھا فیصلہ نہیں تھا جس کا ان کو خمیازہ بھی بھگتنا پڑا۔

اور جہاں تک یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ پنجاب اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہو گیا ہے اس پر تبصروں میں پوری سچائی ثابت ہو رہی ہے اور ہمیں اس بات کو بھی تسلیم کرنا ہو گا کہ حالیہ انتخابات کے نتائج بزات خود اس بات کی دلیل پیش کر رہے ہیں کہ کسی بھی قسم کی کہیں سے کوئی مداخلت نہیں کی گئی جو آئی ایس پی آر کے مؤقف کی تائید ہے۔ حالانکہ تحریک انصاف مداخلت کے الزامات بھی لگاتی رہی ہے۔

تو اب جس طرح سے مسلم لیگ نے انتخابات کو کھلے دل سے تسلیم کیا ہے اسی طرح سے تحریک انصاف کو بھی خندہ پیشانی سے اس بات کو تسلیم کر لینا چاہیے کہ اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل ہو گئی ہے اور انہوں نے اپنے آپ کو سیاست سے علیحدہ کر لیا ہے۔ حالانکہ تحریک انصاف نے کبھی بھی دل سے ان کے اس فیصلے کو قبول نہیں کیا بلکہ کل تک وہ ان کو یوٹرن لینے کی تجاویز دے رہے تھے۔

اور جہاں تک اس امر میں کوششوں کا تعلق ہے تو ساری سیاسی جماعتوں کا کردار ہے اور خاص کر نواز شریف کے "ووٹ کو عزت دو" کے نعرے کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ اور آج جو فائدہ تحریک انصاف نے حاصل کیا ہے اس کے پس منظر میں میثاق جمہوریت سے شروع ہو کر عدلیہ کی بحالی سے گزرتے ہوئے آج کی اس منزل پر پہنچنے تک کا سفر ہے۔ اور ا بھی اس منزل کو ناقابل تسخیر بنانے کے لئے مزید حفاظتی بند بھی باندھنے کی ضرورت ہے۔ جس میں تحریک انصاف کو بھی اپنے حصے کا دیا جلانا چاہیے۔

لہٰذا اب ان حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے تحریک انصاف کو اپنے رویے اور انداز و بیان کو بدلنے کی ضرورت ہے اور اگر وہ واقعی ان باتوں کے اعترافات کے بعد کہ ان کی حکومت فون کالوں کے سہارے چلتی رہی ہے اپنے آپ کو صحیح جمہوری بنانا چاہتے ہیں تو پھر عملی طور پر اس کو اپنے رویے، انداز و بیان اور عمل سے ثابت بھی کرنا ہو گا۔ آدھا نہیں پورا سچ بولنا ہو گا کہ اگر ان کی حکومت کالوں کے بغیر چلنے سے قاصر تھی تو اٹھارہ کے الیکشن میں اپنی جیت کے رازوں پر سے پردہ بھی اٹھانا ہو گا جس کے ان پر الزامات لگتے رہے ہیں جن کا اب وہ خود بنفس نفیس اعتراف بھی کر رہے ہیں۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ نیکی کے کاموں کا بہترین آغاز توبہ کے بعد ہی ہوتا ہے۔

اور اگر وہ واقعی غیر جانبدار اور شفاف انتخابات پر یقین رکھتے ہیں تو پھر انتخابات سے پہلے اصلاحات کا لانا ضروری ہے جس کے لئے تمام سیاسی جماعتوں اور سٹیک ہولڈرز کا تعاون درکار ہے۔ سب کو اب ایک ساتھ گرینڈ ڈائیلاگ کی طرف بڑھنا چاہیے اور ان تمام عوامل پر غور کر کے جن سے انتخابات کی شفافیت پر سوال اٹھائے جا سکتے ہیں کی درستگی کر کے انتخابات سے پہلے شفافیت کے عمل کو یقینی بنا لینا چاہیے۔

مداخلت اور اس کے الزامات ایک سوچ کا شاخسانہ ہیں اور کسی بھی وقت ان کے خدشات کو جھٹلایا نہیں جا سکتا لہٰذا ان کے سد باب کے لئے عملی اقدامات کی ضرورت ہے جس کا وقت یقیناً انتخابات سے پہلے ہی ہے۔ لہٰذا جلد بازی مسائل کا دائمی حل نہیں اور نہ ہی اس پر یہ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ بغیر اصلاحات کے کروائے گئے انتخابات سیاسی عدم استحکام کو ختم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ تو پھر کیوں خواہ مخواہ قوم کا وقت اور پیسہ ضائع کیا جائے۔

تحریک انصاف کو قومی اسمبلی کا رخ بھی کرنا چاہیے اور حکومت کو بھی ان کے لئے خلا پیدا کرنا چاہیے اور دنوں کو اخلاص کے ساتھ دو باتوں پر متفق ہو جانا چاہیے کہ انتخابات سے پہلے ایک تو بیرونی مداخلت پر کمیشن کے ذریعے سے حقائق کو قوم کے سامنے لانا ضروری ہے اور دوسرا انتخابی اصلاحات بھی دائمی اور یقینی غیر شفاف نتائج کے لئے ناگزیر ہیں۔

اسی طرح دونوں کو مل کر عوامی تشویش کا معاملہ معاشی بحران جس نے عوام کی جینا دو بھر کر دیا ہے پر باہمی افہام و تفہیم کے ساتھ غور کر لینا چاہیے کہ اس پر انتخابات کے کیا اثرات مرتب ہونگے اور ان کی روشنی میں کون سا مناسب وقت ہو سکتا ہے؟ سیاست اور حکومت سازی کا اصل مقصد عوامی فلاح ہی ہوتا ہے اور اس کے لئے بہتریں طریقہ کار آئین کے وضع کردہ اصولوں کی روشنی میں ہی سرانجام پانا ہو سکتا ہے۔ لہٰذا سیاسی جماعتوں کی پختگی اور اخلاص کی یہ نشانی ہوتی ہے کہ وہ ان اصولوں پر ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر کاربند رہنے کی مثالیں قائم کرتی ہیں۔

جمہوری طریقہ کار کے اندر اخلاقی اقدار، اصولوں کی پاسداری، عوام کی رائے کی تکریم اور تعمیری سوچ کے تحت اختلاف رائے کا حق ہی وہ عوامل ہیں جو اس سے حاصل ہونے والے فوائد کو زیادہ سے زیادہ بہتر بناتے ہیں لہٰذا ہمیں ان سب عوامل کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ملک و قوم کی فلاح میں سیاسی کشمکش کی راہ اختیار کرنے کی بجائے افہام و تفہیم کی راہ اپناتے ہوئے اپنے معاملات کو حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

میں ذاتی طور پر تو انتخابات کے مقررہ وقت پر ہی منعقد ہونے کا حامی ہوں تاکہ جمہوریت کو زیادہ سے زیادہ پنپنے کا موقعہ ملے۔

اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔

Check Also

Insaf Kaise Milega?

By Rao Manzar Hayat