Saturday, 20 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Dr. Abrar Majid/
  4. 9 May, Insani Haqooq Aur Siasat

9 May, Insani Haqooq Aur Siasat

نو مئی، انسانی حقوق اور سیاست

نو مئی نے قوم کی آنکھیں کھول دی ہیں۔ یہ کوئی چھوٹا سانحہ نہیں ہوا اور جو اس کو سنجیدہ نہیں لے رہے وہ یقیناً اس ملک کے ساتھ مخلص نہیں ہو سکتے۔ ہاں اس واقعہ کی تحقیق شفافیت اور غیر جانبداری سے ہونی چاہیے یہ بحیثیت انسان اور شہری ہر کسی کا بنیادی حق ہے مگر اس کی آڑ میں جو انسانی حقوق کے نام پر مزید بدامنی اور سیاسی عدم استحکام پیدا کرکے تحقیق کے عمل کو متاثر کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کو بھی ملک و قوم کے لئے مخلص نہیں کہا جا سکتا۔

جو سیاسی جماعت یا لوگ اقتدار میں ہوتے ہیں ان پر چونکہ ذمہ داریا ں ہوتی ہیں اس لئے ان کو ایسے اقدامات اٹھانے پڑتے ہیں جن کا تعلق ملکی سلامتی، امن عامہ اور شہریوں کے حقوق سے ہوتا ہے لہٰذا ان کو تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ مگر ان کا یہ بھی فرض بنتا ہے کہ اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں کسی کے ساتھ ناانصافی یا امتیازی سلوک نہ ہو۔

بین الاقوامی قانون بھی ملکی سلامتی کو درپیش خطرات کی صورت میں بنیادی حقوق کو عارضی طور پر معطل کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ نو مئی کے بعد سوشل میڈیا کو بند کرنے کے حکومتی اقدامات کا جواز حالات کی سنگینی کو دیکھ کر جائز لگتا ہے کیونکہ اس کا استعمال سازشی عناصر کو ریاست کے خلاف پروپیگنڈا کرنے کے لئے استعمال کیا جا رہا تھا۔ مگر اب چونکہ حالات پر قابو پا لیا گیا ہے اس لئے اب جمہوری اقدار، انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی پر کسی بھی قسم کا قدغن اچھا نہیں ہوگا اور اس سے ملکی ساکھ بھی متاثر ہو سکتی ہے۔

اس وقت اگر سیاسی منظر نامے پر نظر دوڑائیں تو چند جماعتوں کے علاوہ ساری جماعتیں ایک طرف اور مرکزی حکومت میں اتحادی بھی ہیں اور دوسری طرف تحریک انصاف ہے جس پر سانحہ نو مئی کا الزام بھی ہے۔ چونکہ اس سانحہ کا تعلق بھی عمران خان کی گرفتاری سے تھا اس لئے اس میں تحریک انصاف کے کارکنان کے ملوث ہونے سے تو انکار بھی نہیں کیا جا سکتا جس کے نتیجے میں ان کے قائدین اور کارکنان کی گرفتاریوں کا عمل بھی کوئی انہونا عمل نہیں تھا اور ابتدائی تحقیقات میں حکومتی اداروں کی طرف سے ثبوت اور شواہد کے ساتھ اعتراف جرم بھی حکومتی اقدامات کو تقویت بخش رہا ہے۔

عمران خان کی طرف سے ان کی جماعت کے ساتھ غیرامتیازی سلوک کا دعویٰ بھی کیا جا رہا ہے اور تحریک انصاف کے قائدین بڑی تیزی سے جماعت سے لاتعلقی بھی کرتے جا رہے ہیں۔ جیسے ہی وہ جیل سے رہا ہوتے ہیں وہ جماعت یا اپنے عہدوں سے علیحدگی کا اعلان کر دیتے ہیں۔ کئی قائدین کو عدالتی ضمانت کے بعد کئی دفعہ گرفتار کیا گیا جس سے یہ تاثر بجا ہے کہ ان پر کوئی دباؤ ہو سکتا ہے۔ لیکن دوسرا پہلو دیکھا جائے تو وہ عدالت میں پیش ہو کر اپنا بیان بھی دے رہے ہیں جس میں وہ کسی بھی قسم کے دباؤ کا اظہار نہیں کر رہے۔

جس سے عمران خان اور ان کی جماعت کا مؤقف کمزور پڑ جاتا ہے اور کسی جماعت میں رہنا یا کسی دوسری جماعت میں شمولیت بھی ہر انسان اور شہری کا بنیادی حق اور جمہوریت کا حسن ہے جس کے حوالے انہی قائدین کی تحریک انصاف میں شمولیت سے بھی جڑے ہوئے ہیں اور یہ کوئی پرانی بات نہیں بلکہ چند سالوں کی ہی بات ہے کہ وہ کس طرح سے تحریک انصاف میں جوق در جوق شامل ہوئے تھے۔ اور یہ ماضی کے حوالے بھی تحریک انصاف اور عمران خان کے مؤقف کو کمزور کر رہے ہیں۔

لیکن ان سارے حقائق کے باوجود بھی کوئی ایسا تاثر نہیں ابھرنا چاہیے جس سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی یا قانون کی حکمرانی پر کوئی سوال اٹھے اور نہ ہی ماضی کی مثالوں کو کسی جواز کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ ویسے خان صاحب جو قائدین موسم اور حالات کی معمولی حدت کو برداشت نہیں کر پاتے وہ سیاسی انقلاب کیسے لائیں گے؟ اور تحریک انصاف کو بھی اپنی اداؤں اور سیاسی سرگرمیوں پر شرمندگی ہونی چاہیے اور اپنے اوپر اٹھنے والوں الزاموں کا کھلے دل سے جواب دے کر قوم کو اعتماد میں لینا ہوگا۔

جہاں تک عوامی ردعمل کا تعلق ہے تو ایک سروے کے مطابق نوے فیصد عوام اس سانحے کے مجرموں کو شدید سزا دینے کے حق میں ہیں اور ساٹھ فیصد عوام اس سازش کو ایک سوچا سمجھا منصوبہ سمجھتے ہیں اور اسی سروے کے مطابق پچاس فیصد عوام یہ سمجھتے ہیں کہ تحریک انصاف نے اس سانحے کی صحیح مذمت نہیں کی اور اس کے جماعت پر اثرات بھی سب کے سامنے ہیں۔

حکومت کو بھی تحریک انصاف کے جائز مطالبات جن میں غیر جانبداری اور شفافیت کے ساتھ تحقیق ہے کو ہر صورت پورا کرنا ہوگا وگرنہ اس سے حکومت پر قومی اعتماد متزلزل ہو سکتا ہے اور اس طرح کا کوئی بھی عمل ملکی سلامتی، امن اور انسانی حقوق کی پاسداری پر اچھا تاثر نہیں پڑتا اور نہ ہی ایسے حالات سے سیاسی استحکام کی امیدیں وابسطہ کی جا سکتی ہیں۔

حکومت ایک ذمہ داری کا نام ہے جس کے تحت شہریوں کو وسائل اور طاقت کے مطابق برابری کی بنیاد پر سہولتوں اور حقوق کی پاسداری کو یقینی بنانا ہوتا ہے اور اس میں کسی بھی قسم کا امتیازی برتاؤ اپنی ذمہ داریوں سے کوتاہی کے ضمرے میں آتا ہے جس کے نتائج کبھی بھی ملک و قوم کے لئے فائدہ مند ثابت نہیں ہو سکتے۔

Check Also

Tareeki Mein Doobti Dunya

By Khalid Zahid