Friday, 01 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Bismiullah Kakar
  4. Madri Zubanain, Afadiat Aur Masail

Madri Zubanain, Afadiat Aur Masail

مادری زبانیں، افادیت اور مسائل

زبان بلاشبہ افہام و تفہیم کا ذریعہ ہے بشرطیکہ وہ استعماریت کے زمرے میں نہ ہو حالانکہ دنیا کے سات ہزار بولی جانے والی زبانوں میں چند ہی زبان دیگر تمام زبانوں پر مسلط کی گئی ہیں کیونکہ اس کی مثال یونیسکو کے عالمی رپورٹ کے مطابق 1950 تک 540 زبانیں چراغ گُل ہو چکی ہیں اور مزید خطرناک بات یہ ہے کہ رپورٹ میں 1075 زبانوں کی موجودہ صدی کے آخر تک معدوم ہونے کی پیشگوئی کر گئی ہیں۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ دنیا کے 38 فیصد زبانیں یعنی سات ہزار بولیوں میں سے 2296 زبانیں ایشیائی ممالک میں بولی جاتی ہیں جس میں پاکستان کے 72 زبانیں بھی شامل ہیں مگر یہاں پر یک جہتی کے مبالغہ آرائی کی آڑ میں اکیڈمی ادبیات پاکستان کے رپورٹ کے مطابق 12 زبانیں معدوم ہونے کے قریب ہیں جس میں بھایا زبان کے ستتر افراد جبکہ بدیشی زبان کے صرف تین افراد سیدگل، رحیم گل اور علی شیر آخری نمائندے ہیں۔

کیونکہ ہمارے ملک وجود میں آتے ہی single national carriculam اپنانے پر بضد ہیں جس سے دیگر زبانوں کو شدید خطرات درپیش ہیں۔ یونیسکو ہر سال 21 فروری کو مادری زبان کے دن کے طور پر مناتی ہیں جس سے ہم مادری زبانوں کی اہمیت اور انسانی زندگی میں علمی، ادبی، فکری اور تحقیقی نوعیت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔

مملکت پاکستان کے ابتدائی مسائل میں سے ایک اہم مسئلہ یہی مادری اور قومی زبان کا تھا جس کو بری طرح مسخ کیا گیا تھا اور فقط آٹھ فیصد آبادی کی زبان کو قومی زبان قرار دے دیا گیا تھا۔ جس پر مشرقی پاکستان سے شدید عوامی ردعمل سامنے آیا تھا مگر اصولوں کے برعکس 20 فروری 1952 کو ڈھاکہ میں دفعہ 144 نافذ کیا گیا مگر ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلباء نے اگلے ہی دن تمام روکاوٹیں توڑتے ہوئے بھرپور احتجاج کیا حکومت نے فائرنگ کر کے 4 طلباء کو شہید کیا جس سے دلوں میں وہ آگ بھڑک اٹھی جس کا اختتام سقوط ڈھاکہ پر ہوا تھا۔

اس عظیم سانحے کے باوجود "colonial time" جس میں ایک انگریز آفیسر نے مادری زبانوں کو معدوم ہونے اور برطانوی استعماریت کو وسعت دینے کی پالیسی اپنائی گئی۔ جس سے پاکستان کی دیگر زبانوں کو اتنا ہی نقصان پہنچایا گیا جتنا کہ بندوق والوں نے بندوق کے ذریعے ہمیں پہنچایا ہے لیکن اس پر ابھی تک کچھ لوگوں نے بغلیں بجاتے ہوئے کہا کہ اس سے ملکی اتحاد کو خطرہ لاحق ہیں۔

کیونکہ ریاست سرکاری طور پر دانستگی سے ایک زبان کو دیگر زبانوں پر فوقیت دے رہی ہے جس کا مقصد پچھتر سال سے جو ایک قومیت "پاکستانی" کا واویلا شروع کیا ہے اس کو ثابت کرنے کیلئے ہمہ وقت ہر مناسب نامناسب کام سے گریز نہیں کرتی ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ریجنل لینگویج کو قومی اور بین الاقوامی زبانوں پر فوقیت دے کر چھوٹی اور کم تعداد والی زبانوں کو معدوم ہونے سے بچاتے مگر یہاں پر ہر سنجیدہ بات پر بال کی کھال اتارنے کے لوگ زیادہ ماہر ہیں۔

ابھی بھی وقت ہے کہ مادری زبانوں کو سرکاری سطح پر توجہ دی جائے کیونکہ ایک لہجہ جب سرکاری طور پر بولنا یا لکھنا شروع ہوتا ہے تو اس کی پرواز بہت دور تک جاتی ہیں۔ البتہ اردو سے جو نقصان ممکن تھا وہ بےدریغ پہنچایا گیا۔ مادری زبانوں کی ترویج و ترقی اور اشاعت کے لیے اشرافیہ کی ترکی تمام ہونا چاہیے پھر جا کر بات بنے گی۔ ایسے نہ ہو کہ ایک دن ہر زبان کے لوگ چار کے بجائے آٹھ شہادتیں دینے کے لئے تیار ہوں گے اس کے بعد پھر کیا ہوگا واللہ اعلم؟

Check Also

Khan Hamari Jan

By Javed Chaudhry