Sunday, 22 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Bint e Aslam
  4. Zamana Kharab Hai

Zamana Kharab Hai

زمانہ خراب ہے

اپنی خرابیوں کو پسِ پشت ڈال کر

ہر شخص کہہ رہا ہے زمانہ خراب ہے

اٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے یہی جملہ سننے کو ملتا ہے کہ آج کل زمانہ بہت خراب ہو چکا ہے۔ بڑے ہیں تو چھوٹوں کے بے ادب ہونے کے دکھڑے سناتے اشک بار ہو جاتے ہیں۔ اور چھوٹے ہیں تو بڑوں کے ساتھ سوچ میں اختلاف کی وجہ سے نظریاتی تنہائی کا شکار ہیں۔ ہر کوئی دوسرے کو مورد الزام ٹھہراتا ہے۔ آخر اصل خرابی کہاں ہے؟

اللہ پاک نے تو حدیثِ قدسی کے ذریعے ہمیں واضح طور پر بتا دیا ہے کہ زمانے کو برا بھلا مت کہو، زمانہ میں خود ہوں۔ اصل میں خرابی تو ہم میں ہیں کہ جو دنیاوی ترقی کی ان چکاچوند روشنیوں میں اتنا آگے نکل آئے کہ واپس اپنے اصل (رب) کی طرف پلٹنا اب بہت دشوار نظر آتا ہے۔

والدین دکھی اور پریشان نظر آتے ہیں کہ اولاد نافرمان ہے، گستاخ اور بے ادب ہے۔ بچے والدین کا کہنا نہیں مانتے، اپنی مرضی کرتے پھرتے ہیں۔ وہ جنہوں نے اس وقت کہ جب ابھی بچے نے اس دنیا میں قدم بھی نہیں رکھا تھا، تب سے لے کر آج تک اپنے بچوں کیلئے دن رات قربانیاں دی۔ دن کا سکھ اور رات کا آرام تک قربان کر دیا کہ بچے کو کوئی تکلیف نہ سہنا پڑے۔ اپنے پیٹ کی فکر کئے بنا بچے کو ہر آسائش سے نوازا، آج وہ عظیم ہستیاں آنکھوں میں آنسو سجائے شکوہ کرتے ہیں کہ اس دن کیلئے تو بڑا نہیں کیا تھا اولاد کو۔

دوسری طرف بچے ہیں تو شکوہ دراز ہیں کہ کوئی انکو سمجھنے والانہیں۔ آج کا نوجوان پریشان ہے کہ اس کی زندگی کی کشتی ایسے بھنور میں منجمد ہو گئی ہے کہ دائیں، بائیں، آگے اور پیچھے حائل ضد اور انا کی دیواروں میں کوئی جنبش ہوتی نظر نہیں آتی۔ بچے بڑوں کے سخت خاندانی رسم و رواج کے سامنے اپنے دل کی خوشیوں کو قربان کر کے راتوں کی سرگوشیوں میں سسکیاں لے لے کر روتے نظر آتے ہیں۔ بچوں کی خوشیاں بنا کسی ٹھوس دلیل کے خاندانی اور معاشرتی رسم و رواج کی بھینٹ چڑھا دی جاتی ہیں اور وہ بے بس اپنا تماشہ آپ ہی بن جاتے ہیں۔ نظریاتی تنہائی انکو کھائے جا رہی ہے۔

آخر اس سب کا حل کیا ہے؟ قرآن اور سنت ہمیں باہمی مفاہمت کا درس دیتے ہیں۔ قرآن مجید میں مومنین کی اس صفت کو بھی نمایاں کیا گیا ہے کہ: اور ان کے معاملات آپس کے مشورے سے طے ہوتے ہی (38:53)۔

آپس کے کام باہمی مشورے اور رضامندی سے کئے جائیں۔ ایک دوسرے کو سمجھا جائے اور قرآن اور سنت کے مطابق فیصلے کئے جائیں۔ قرآن میں بیان کردہ سب سے بہترین قصے میں ایک والد (یعقوب علیہ السلام) کو بیٹے (یوسف علیہ السلام) کے دل کے اس قدر قریب دکھایا گیا ہے کہ بیٹا اپنا خواب بھی اپنے کسی بھی دوست کی بجائے اپنے والدِ محترم سے ہی بیان کرتا ہے۔ لیکن افسوس ہم نے اس کے برعکس بچوں کے اندر اپنا خوف اور رعب پیدا کر کےخود سے اتنا دور کر دیا کہ بچے اپنی بڑے سے بڑی اور چھوٹے سے چھوٹی بات میں اپنے دوستوں کو ہم راز بناتے ہیں۔ والدین کو تو بچوں کے دل کے اتنا قریب ہونا چاہیئے کہ بچے اپنی ہر بات اوروں کی بجائے دوستانہ انداز میں صرف اپنے والدین سے شیئر کر کے مشورہ طلب کریں۔ اپنے بچوں کے دوست بنئے۔ نسلی تفاوت کو دوستی کے اس خوبصورت رشتے کے درمیان آڑ نہیں بننے دیں۔

اسی طرح قرآن مجید میں اللہ پاک نے آدابِ فرزندی کی بہترین مثال پیش کرتے ہوئے دکھایا کہ کیسے ایک بیٹا (اسماعیل علیہ السلام) اپنے والد (ابراہیم علیہ السلام) کے حکم پہ بنا کسی سوال جواب کہ ذبح ہونے پہ بھی تیار ہے۔ اولاد کا اولین فریضہ والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا ہے۔ والدین کے ساتھ بے ادبی اور گستاخی اس دنیا میں بھی رسوائیوں کا سبب ہے اور آخرت میں بھی تباہی کا پیش خیمہ ہے۔

آج اسی دینِ حق کے ساتھ پھر سے جڑ جانے میں ہی ہمارے مسائل کا حل ہے۔ بے جا کی سختیوں اور انا کی دیواروں کو توڑ کر نرمی، پیار اور محبت کی فضا قائم کرنی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی حدیث مبارکہ ہے کہ: نرمی جس چیز میں بھی ہو اسکو خوبصورت بنا دیتی ہے۔ (مشکوة المصابیح:5068)

آج ہم نے بھی اسی نرمی کے ذریعے ہی آپس کے رشتوں کو خوبصورت بنانا ہے۔ ایک دوسرے کی بات کو سمجھنا ہے۔ اللہ کی خاطر آپس کے حقوق کا بنا کسی مطالبے کے خیال رکھنا ہے۔ حق بات کو قبول کرنے والے بن جائیں۔ جو حقوق اللہ پاک نے والدین کیلئے اور اولاد کیلئے رکھے ہیں انکو ایک دوسرے سے چھین کر ظلم کرنے والے نہ بنیں کیونکہ ظلم تو قیامت والے دن اندھیروں کا باعث بنے گا۔ رشتوں میں ادلے کا بدلہ نہیں دیکھاجاتا بلکہ اپنے حقوق کا مطالبہ کئے بنا بس اپنے فرائض کو نبھاتے چلے جائیں، آپکے حقوق اللہ پاک آپ کو دلوا دیں گے۔ اس ذات پر یقین رکھیں جو خود نظر تو نہیں آتا لیکن ہمارا کوئی ایک بھی معاملہ اس لطیف کی نظر سے اوجھل نہیں۔ اس کے احکامات پر چلنا شروع کر دیں، وہ رب کریم کبھی آپکو گرنے نہیں دیگا۔ راہِ نجات اسلام کو مکمل اپنانے میں ہے۔

Check Also

Masjid e Aqsa Aur Deewar e Girya

By Mubashir Ali Zaidi